پاکستان میڈیا کنونشن: سی پی این ای کا تاریخی قدم

158

کنونشن میں جو چار سیشن ہوئے جن میں ٹی وی اینکرز، کالم نگار، دانشوروں اور سابق ایڈیٹرز نے بھی خطاب کیا۔ ڈان کے سابق ایڈیٹر ضیا الدین، موجودہ ایڈیٹر ظفر عباس، جاوید چودھری، وسعت اللہ خان، ایاز خان، سی پی این ای کے عہدیداران، کراچی، اسلام آباد، لاہور، پشاور اور کوئٹہ پریس کلبوں کے صدور بھی شریک ہوئے۔ پہلی مرتبہ اشتہاری ایجنسیوں کے نمائندوں نے بھرپور شرکت کی اور اہم تجاویز دیں۔ خصوصاً برین چائلڈ کے ریحان مرچنٹ نے اخبارات کو ڈیجیٹل میڈیا پر لانے کا مشورہ دیا۔ اورینٹ کے مسعود ہاشمی نے بھی اہم مشوروں سے نوازا۔ کنونشن کے دوران کالم نگار جاوید چودھری اور ریحان مرچنٹ کے درمیان مکالمے نے دلچسپ صورت حال پیدا کردی۔ جب ریحان مرچنٹ نے جاوید چودھری کو سنجیدگی اختیار کرنے کا مشورہ بھی دے ڈالا۔ ممتاز صحافی و اینکر وسعت اللہ خان نے بڑی پرمغز گفتگو کی اور مسائل کا نہایت باریک بینی سے تجزیہ کیا اور ضابطہ اخلاق کی اپنے اندر سے اپنی صفوں سے پابندی کرنے پر زور دیا ورنہ 5 ہزار 135 واں ضابطہ اخلاق بھی بن گیا تو کیا فرق پڑے گا۔ یہ بات بھی بڑی دلچسپ ہے کہ میڈیا کنونشن کے شرکا اور مقررین اور سی پی این ای کے نمائندے تو شکوہ کررہے تھے کہ میڈیا میں بحران ہے حکومت حل میں مدد کرے اور صدر اور وزیر اطلاعات فرما رہے تھے میڈیا میں بحران تو ہے۔ یعنی آپ مریض کو ڈاکٹر کے پاس لے جائیں اور مریض کو دیکھ کر ڈاکٹر کہے کہ ہاں بیمار تو ہے۔ لیکن جب پورے ملک میں لوگ صحت یاب ہونے لگیں گے (یعنی معاشی صورت حال) تو یہ بھی ٹھیک ہوجائے گا۔ پتا نہیں اسی طرح دانت بھی ٹھیک کیے جاتے ہوں گے۔ اس وقت دلچسپ صورت حال پیدا ہوگئی جب اعلان کیا گیا کہ اسٹینڈنگ کمیٹی کے اراکین صدر مملکت کے ساتھ گروپ فوٹو کے لیے اسٹیج کے پیچھے آجائیں۔ انتظام اسٹیج کے پیچھے ایک پردے کے عقب میں تھا ہم غلط فہمی میں اسٹیج پر چڑھ گئے۔ ایک سیکورٹی اہلکار نے روکا اور بتایا کہ فوٹو سیشن دوسری طرف ہورہا ہے۔ لیکن پھر وہ پانچ چھ قدم تک ہماری کمر پر ہاتھ رکھ کر دھکیلنے لگا جس پر ہم نے سختی سے پوچھا کیا مسئلہ ہے تو کہتا ہے صاحب آرہے ہیں۔ ہم نے کہا کہ بھائی صاحب ہوں گے تمہارے۔ کل یہ پھر ہمارے ساتھی ہوں گے۔ زور دار آواز کی وجہ سے وہ گھبرا گیا اور بھاگ کر آگے کی طرف چلا گیا لیکن دوسرے نے کہا کہ وہ دھکا نہیں دے رہا تھا پش کررہا تھا۔ اس پر ہم نے ذرا زور سے کہا کہ کیا دماغ خراب ہے پش (Push) کرنے کو دھکا ہی تو کہتے ہیں۔ اس کے بعد ہم نے صدر مملکت کو یاد دلایا کہ جس روز آپ صدر بنے تو آپ کو موبائل پر آخری پیغام بھیجا تھا کہ اب آپ سے اسی وقت ملاقات ہوگی جب آپ سابق صدر ہوجائیں گے لیکن آپ کی خوش نصیبی ہے کہ آپ کے دور صدارت ہی میں آپ سے ملاقات ہوگئی۔ صدر صاحب نے آہستگی سے کہا جی یاد ہے۔ زیادہ وقت نہیں تھا ورنہ انہیں ان کے سیکورٹی عملے کے رویے سے آگاہ ضرور کرتے۔ ایک باوردی اہلکار اسٹیج سیکرٹری عامر محمود کے پاس آکر کہتا ہے کہ آپ لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ میں لمبے جملے نہ بولیں، بس صرف نام لیں۔ لیکن عامر محمود نے اپنے ہیروز کے بارے میں گفتگو جاری رکھی۔ پھر صدر مملکت کے اے ڈی سی صاحب ان کے خطاب کے دوران ان کے پیچھے سے اُٹھ کر کھڑے ہو کر ان کے سامنے آگئے۔ گویا کہہ رہے ہوں کہ چلو بھائی وقت ختم ہوگیا۔ تبدیلی تو آگئی ہے۔ صدر صاحب شاید اسی وجہ سے پریشانی کا شکار رہے۔
کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر جبار خٹک نے سی پی این ای ’’پاکستان میڈیا کنونشن 2019ء‘‘ میں منظور کردہ اعلان نامے کے خاص نکات کو جاری کیا۔ انہوں نے بتایا کہ میڈیا کنونشن میں میڈیا کی آزادی، میڈیا قوانین، میڈیا پر پابندیاں، میڈیا کے اقتصادی مسائل، جدید میڈیا ٹیکنالوجی، میڈیا کی سا لمیت اور بقا، میڈیا کے باہمی اتحاد اور یکجہتی کے موضوعات پر منعقدہ مباحثوں میں سیر حاصل گفتگو کی گئی۔ کنونشن میں آزادی اظہار، میڈیا کی آزادی کو درپیش خطرات اور خدشات کا تفصیلی جائزہ لے کر میڈیا کو درپیش چیلنجز کا بھرپور مقابلہ کرنے کا عزم مصمم کیا گیا۔ کنونشن میں اتفاق کیا گیا کہ عوام اور میڈیا کی جمہوری اصلاحات کو غصب کرنے ، قدغن اور نقب لگانے کے مقصد سے کسی بھی اقدام کی ریاستی اور حکومتی اہلکاروں سمیت کسی بھی ادارے اور فرد کو اجازت نہیں دی جائے گی۔ کنونشن کے اعلان نامے میں میڈیا کے اداروں اور ان کے کارکنوں کے مصائب، مسائل اور پریشانیوں کی جانب ریاستی اور وفاقی حکومت کے رویہ کو ظالمانہ، بے اعتنائی اور بے حسی پر مبنی قرار دیتے ہوئے اسے آزادی صحافت، آزادی اظہار اور عوام کے حق آگہی پر بالواسطہ مہلک اور کاری حملہ قرار دیا ہے۔کنونشن میں میڈیا سے متعلق وفاقی حکومت کے مجوزہ خصوصی قوانین کو جمہوری روایات، آزادی اظہار، میڈیا کی آزادی، اطلاعات تک رسائی اور آگہی سمیت بنیادی انسانی حقوق پر حملے کے مترادف قرار دیا گیا اور میڈیا کے لیے مجوزہ قانون سازی میں میڈیا کے اسٹیک
ہولڈرز سے مشاورت نہ کرنے پر بھی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کا اعلان کیا گیا کہ میڈیا کی آزادی میں ریاستی، غیر ریاستی اور حکومتی مداخلت سمیت ہر غیر ضروری عمل دخل اور مداخلت کی بھرپور مخالفت کی جائے گی، اسے ہرگز تسلیم نہیں کیا جائے گااور اس کی بھرپور مزاحمت بھی کی جائے گی۔ کنونشن کے شرکا نے اعلان نامے کے ذریعے واضح پیغام دیا ہے کہ آزاد میڈیا جمہوریت کی بنیاد ہے۔ کسی بھی جمہوری معاشرے میں معلومات کی آزادانہ ترسیل، عوامی دلچسپی کے معاملات پر توجہ، شفافیت اور احتساب کے لیے آزادی اظہار اور دیگر انسانی حقوق کے فروغ اور اسے تحفظ دینے میں آزاد میڈیا اہم ترین کردار ادا کرتا ہے۔ اعلان نامے میں کہا گیا ہے کہ میڈیا پریکٹیشنرز کو اس امر کا بخوبی ادراک اور احساس ہے کہ آزادی صحافت کا ذمے دارانہ استعمال بھی ازحد ضروری ہے اور غیر اخلاقی میڈیا پریکٹس کی اجازت ہر گز نہیں ہونی چاہیے، اس کے لیے میڈیا میں ایک متفقہ رضاکارانہ ضابطہ اخلاق کی تشکیل اور استعمال پر زور دینا چاہیے کیوں کہ اخلاقی پریکٹس کی مانیٹرنگ صرف رضاکارانہ طور پر تشکیل شدہ ادارے ہی کر سکتے ہیں، جب کہ خلاف ورزیوں کی مانیٹرنگ اور کارروائی کو رضاکارانہ بنیادوں پر تشکیل کیے جانے والے میڈیا کمیشن کے سپرد کیا جانا چاہیے۔ اعلامیہ میں آزادی اظہار اور آزادی صحافت اور جدید میڈیا ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ کے ثمرات کو ملک کے تمام دور افتادہ اور محروم علاقوں، شہروں، دیہاتوں اور دیگر نچلی سطحوں پر پہنچانے کے لیے سازگار ماحول کی تشکیل کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت پر زور دیا گیا اور اس ضمن میں چھوٹے شہروں اور پسماندہ علاقوں سمیت ملک کے تمام حصوں کے مقامی پریس کلبوں، مقامی میڈیا تنظیموں ، مین اسٹریم میڈیا اور ان کی تنظیموں کے ساتھ روابط مربوط کرنے کے لیے موثر اقدامات کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
(جاری ہے)a