یتیموں کے سر پر دستِ شفقت 

267

19جنوری کو سانحۂ ساہیوال رونما ہوا اور ایک خاندان پر قیامت گزر گئی، میاں بیوی اور اُن کی ایک بیٹی کو اُن کے چھوٹے بچوں کے سامنے بے دردی سے قتل کردیا گیا، شوہر بیوی اور بیٹی کو گولیوں سے چھلنی کردیا گیا اور اس ہولناک منظر کو اُن کے تین چھوٹے بچے (دوبیٹیاں اور ایک بیٹے) بے بسی کے عالم میں دیکھتے رہے، ذرا غور کیجیے کہ اُن کے دل پر اس وقت کیا کیفیت طاری ہوگی، یہ تینوں بچے یتیم رہ گئے ہیں۔ عربی لغت کی معروف کتاب ’’المنجد‘‘ میں ہے: ’’جس بچے کا باپ فوت ہوجائے اور وہ بلوغت کی عمر کو نہیں پہنچا، وہ یتیم ہے اور جانوروں میں جس کی ماں مرجائے وہ بچہ یتیم کہلاتا ہے، (ص: 923)‘‘۔
علامہ ابوحیان محمد بن یوسف اندلسی لکھتے ہیں: ’’اور بنی آدم میں یتیم وہ ہے جو باپ سے محروم ہوجائے اور یہ مذکر اور مونث (یعنی بیٹا بیٹی) دونوں شامل اور بچے کے بالغ ہونے پر اس پر یتیم کا اطلاق نہیں ہوتا، اگر ہوتا بھی ہو تو مجازاً ہے۔ بالغوں پر جو یتیم کا اطلاق ہوتا ہے، وہ ماضی کے اعتبار سے ہوتا ہے (یعنی بالغ ہونے کے بعد وہ حقیقت میں یتیم نہیں رہتا)، (البحر المحیط، تفسیر سورۃ النساء، آیت:6)‘‘۔
جانوروں کی نسل کا مدار ماں (یعنی مادہ) پر ہوتا ہے، لہٰذا جانوروں کے لیے ماں کے گم یافوت ہونے پر اسے یتیم شمار کیا جاتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق باپ کفیل ہوتا ہے، اس لیے باپ کی وفات سے بچہ کفیل سے محروم ہوجاتا ہے اور ماں کی تو ہستی ہی شفقت ومحبت کا استعارہ ہے، اس لیے ماں کی وفات سے انسان مادری شفقت سے محروم ہوجاتا ہے۔ یتیم کی فقہی تعریف وہی ہے جو اوپر بیان ہوئی، البتہ ہمارے عرف میں جس کی ماں فوت ہوجائے، اسے بھی یتیم کہتے ہیں اور وہ بھی اس بات کا حق دار ہے کہ اس کے سر پر دستِ شفقت رکھا جائے۔
اللہ تعالیٰ نے یتیم کے احکام اور اُن کے حقوق کے تحفظ کے لیے قرآنِ کریم میں صریح احکام بیان فرمائے ہیں، بعض اوقات ورثاء حیلے بہانے سے یتیم کے مال کو ہڑپ کرلیتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا (1): ’’اور یتیموں کو اُن کا مال دو اور (اُن کے) عمدہ مال کو گھٹیا مال سے تبدیل نہ کرو اور اُن کے مال کو اپنے مال کے ساتھ ملا کر (حیلے بہانے سے) نہ کھاؤ، بے شک یہ بڑا گناہ ہے، (النساء: 2)‘‘۔ ہمارے دیہی معاشرے میں زیادہ تر اور کسی حد تک شہری معاشرے میں بھی یہ خرابی موجود ہے کہ یتیم کے مال پر حیلے بہانے سے ہاتھ صاف کردیا جاتا ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ نے یتیم کے سرپرست کو اس کے مال کا بھی نگہبان بنایا ہے، چنانچہ فرمایا: ’’اور جس مال کو اللہ نے تمہاری گزر اوقات کا ذریعہ بنایا ہے، اُسے تم بے سمجھ (یتیموں) کے حوالے نہ کرو، ہاں انہیں اُس میں سے کھلاؤ، پہناؤ اور دستور کے مطابق اُن سے اچھی بات کرو اور یتیموں کی سوجھ بوجھ کو جانچتے رہو، یہاں تک کہ جب وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں، تو اگر تم اُن کے اندر (مال کی حفاظت کی) اہلیت پاؤ تو اُ ن کا مال اُن کے حوالے کردو اور اس اندیشے سے کہ وہ بڑے ہوکر (اپنا پورا حق مانگیں گے)، اُن کا مال اسراف اور جلد بازی کے ذریعے ہڑپ نہ کرو اور (یتیم کا جو سر پرست) غنی ہے، وہ (یتیم کے مال سے) بچا رہے اور جو حاجت مند ہے وہ عرف کے مطابق کھائے، پھر جب تم اُن کے مال اُن کے حوالے کردو تو اس پر گواہ بنا لو اور حساب لینے کو اللہ کافی ہے، (النساء: 5-6)‘‘۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یتیم کے سرپرست کو مندرجہ ذیل ہدایات دی ہیں: (الف) ناسمجھ یتیم کا مال اُس کے تصرّف میں نہیں دینا چاہیے، البتہ اُس میں سے اُن کی ضروریات پوری کرتے رہنا چاہیے، (ب): جب یتیم بالغ اور سمجھدار ہوجائیں اور مال کی حفاظت کے اہل ہوجائیں تو اس وقت اُن کا مال اُن کے حوالے کیا جائے۔ اس کے لیے ابتداءً تھوڑا مال دے کر اُن کی جانچ پرکھ کرلینی چاہیے کہ آیا اُن میں مال کی قدر دانی اور حفاظت کی اہلیت پیدا ہوچکی ہے، (ج): اس اندیشے سے کہ یتیم بڑے ہوکر اپنے حق کا مطالبہ کریں گے، حیلے بہانے سے اُن کے مال پر ہاتھ صاف نہیں کرنا چاہیے، (د): یتیم کا سر پرست اگر غنی ہے تو وہ یتیم کا مال اپنے اوپر خرچ کرنے سے اجتناب کرے اور اگر وہ حاجت مند ہے اور یتیم کے مال کی نگرانی کر رہا ہے تو اس میں سے اپنی کفالت کے لیے معروف طریقے سے لے، (ہ): جب یتیم کا سرپرست اُس کا مال اُس کے حوالے کرے تو اس پر گواہ بنا لے تاکہ اُس کے اخلاص اور دیانت پر کوئی انگلی نہ اٹھائے، یہ دنیا میں عزتِ نفس کے تحفظ کے لیے احتیاطی تدبیر ہے، ورنہ آخرت میں تو حساب لینے کے لیے اللہ کافی ہے۔
بعض اوقات تقسیمِ وراثت کے وقت دور پار کے ایسے نادار اور یتیم وارث ہوتے ہیں، جو اسلامی قانونِ وراثت کی رو سے وارث نہیں بنتے، جیسے بیٹے بیٹیوں کی موجودگی میں یتیم پوتے پوتیاں۔ قرآنِ کریم نے اِجباری طور پر تو نہیں، لیکن فضل واحسان کے درجے میں اُن کے بارے میں بھی یہ ہدایت دی کہ ہے کہ کچھ نہ کچھ اُن کو بھی دے دیا جائے اور اس حوالے سے یہ سوچنا چاہیے کہ اگر بالفرض قضائے الٰہی سے وہ فوت ہوجاتے اور پیچھے ان کے بچے یتیم رہ جاتے تو ان پر کیا گزرتی۔ بعض لوگ حیلے بہانے سے اور بعض صریح ظلم کرتے ہوئے اپنے زیرِ کفالت یتیموں کے مال کو ہڑپ کرجاتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اُن کے لیے وعید فرمائی ہے: ’’بے شک جو لوگ یتیموں کے مال کو ظلماً ہڑپ کر جاتے ہیں، وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھر رہے ہیں اور عن قریب وہ بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونک دیے جائیں گے، (النساء: 10)‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے یتیموں اور ناداروں کے حقوق کی جانب متوجہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’سو وہ بے تامّل گھاٹی میں نہ کودا اور تو کیا جانے کہ یہ گھاٹی کیا ہے، (یہ بارِ قرض یا غلامی کے بوجھ تلے دبی ہوئی) گردن کو چھڑانا ہے یا بھوک کے عالم میں کسی قرابت دار یتیم یا خاک آلود مسکین کو کھلانا ہے، (البلد: 11-16)‘‘۔ اس آیت میں حُبِّ مال، ہوائے نفس، زر پرستی اور اتباعِ شہوات کے شیطانی جال کو دشوار گزار گھاٹی سے تعبیر فرمایا کہ ان سے بچ نکلنا ہر ایک کے لیے آسان نہیں ہے۔ ہوسِ مال کی بابت متنبہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’یوں نہیں بلکہ تم یتیم کی عزت نہیں کرتے اور تم ایک دوسرے کو مسکین کے کھلانے کی ترغیب نہیں دیتے اور تم وراثت کا سارا مال ہڑپ کرجاتے ہو اور تم مال سے بے حد محبت کرتے ہو، (الفجر: 17-20)‘‘۔
نبی کریمؐ نے اپنی درمیانی اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے بتایا: ’’میں اور یتیم کا کفیل جنت میں اتنے قریب ہوں گے، (مسلم)‘‘۔ اس حدیث مبارک میں نبی کریمؐ نے یتیم کے سرپرست کو آخرت میں اجرِ عظیم کی بشارت دی ہے۔ عبداللہ بن ابی اوفیٰ بیان کرتے ہیں: ہم رسول اللہؐ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک لڑکا آیا اور عرض کیا: میں یتیم لڑکا ہوں اور میری ایک یتیم بہن اور بیوہ ماں ہے، اللہ نے آپ کو طعام عطا کیا ہے اور جو آپ کو پسند ہے، اُس میں سے ہمیں بھی کھلائیے، آپ اکیس کھجوریں لے کر آئے اور فرمایا: (ان میں سے) سات تمہارے لیے، سات تمہاری بہن کے لیے اور سات تمہاری ماں کے لیے ہیں۔ اس دوران معاذ بن جبل کھڑے ہوئے اور اس یتیم لڑکے کے سر پر دستِ شفقت پھیرا اور کہا: اللہ تمہاری یتیمی کی تلافی فرمائے اور تمہیں اپنے باپ کا جانشین بنائے، اس لڑکے کا تعلق مہاجر خاندان سے تھا۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: اے معاذ! تم نے جو برتاؤ اس یتیم کے ساتھ کیا ہے، میں نے اسے دیکھا ہے، انہوں نے عرض کیا: میں نے اس پر شفقت کی، آپؐ نے فرمایا: تم میں سے جو یتیم کا سرپرست ہو اور وہ اس کے ساتھ حسنِ سلوک کرے اور اس کے سر پر اپنا دستِ شفقت رکھے، تو اللہ تعالیٰ (اس کے ہاتھ کے نیچے آنے والے) ہر بال کے بدلے میں اُس کے نامۂ اعمال میں ایک نیکی لکھ دے گا اور ایک گناہ مٹا دے گا اور ایک درجہ بلند فرمائے گا، (شُعَبُ الایمان)‘‘۔
عبداللہ بن عباس بیانؓ کرتے ہیں: نبیؐ نے فرمایا: جس نے مسلمانوں کے کسی یتیم بچے کو اپنے ساتھ کھانے میں شامل کیا، اللہ تعالیٰ اُسے ضرور جنت میں داخل فرمائے گا، سوائے اس کے کہ اس نے کوئی ایسا گناہ کیا ہو جس کی معافی نہیں ہے، (سنن ترمذی)‘‘۔ سیدنا ابوہریرہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: (قیامت کے دن) سب سے پہلے میرے لیے جنت کا دروازہ کھولا جائے گا، اس موقع پر ایک عورت جلدی سے میرے پاس آئے گی، میں اس سے پوچھوں گا: تم کون ہو اور تمہارا مسئلہ کیا ہے، وہ عرض کرے گی: میں یتیم بچوں کی کفالت کرنے والی عورت ہوں، (تو نبیؐ اسے اپنے ساتھ جنت میں داخل فرمائیں گے)، (مسند ابویعلیٰ)‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے حبیبِ مکرمؐ کو اُن کی اپنی یتیمی یاد دلاتے ہوئے یتیم کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم نہایت دلنشیں انداز میں فرمایا: ’’کیا اُس نے آپ کو یتیم نہ پایا تو پھر آپ کو ٹھکانا دیا اور اس نے آپ کو اپنی محبت میں سرشار پایا تو اپنی طرف راہ دی اور اس نے آپ کو حاجت مند پایا تو غنی کردیا، سو آپؐ یتیم پر سختی نہ کریں اور سائل کو نہ جھڑکیں اور اپنے ربّ کی نعمت کا خوب چرچا کریں، (الضحیٰ: 6-11)‘‘۔ چوں کہ سید المرسلین سید نامحمد رسول اللہؐ یتیمی کی ابتلا سے گزر چکے تھے، اس لیے آپ کو یتیموں کے درد اور کرب کا بخوبی احساس تھا اور آپؐ نے یتیم کی کفالت اور یتیم کے ساتھ رأفت ورحمت اور شفقت ومحبت سے پیش آنے کو جنت میں داخل ہونے اور اپنی قربت سے نوازنے کا ذریعہ بتایا۔
سانحۂ ساہیوال کے بارے میں متضاد سرکاری بیانات اور توجیہات نے پنجاب حکومت کی نا اہلی کو عیاں کردیا ہے، منظر کی بابت تو حکومت، اپوزیشن اور میڈیا سب کا اتفاق ہے، لیکن پسِ منظر کے حوالے سے شبہات موجود ہیں۔ صوبائی وزیر قانون بیک وقت ظلم کو بھی تسلیم کرتے ہیں اور آپریشن کو بھی سو فی صد درست قرار دیتے ہیں، اگر آپریشن درست ہے تو ایڈیشنل آئی جی اور ڈی آئی جی کی معزولی کی منطق سمجھ سے بالا ہے، یہ راؤ انوار سے ملتا جلتا کیس ہے، خدشہ ہے کہ آخر کار اس سے بھی کچھ برآمد نہ ہو۔