مالیاتی خسارہ 542ارب روپے معیشت کے لیے خطرناک ہے،میاں زاہد حسین

221

مالی سال2019میں6.2فیصدہدف کے برعکس جی ڈی پی کا تخمینہ 4سے 4.5فیصد لگایا ہے

پانی کی قلت کے باعث زرعی شعبہ کی مجموعی نمو کا انحصار لائیو اسٹاک سیکٹر کی کارکردگی پر ہوگا

پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر ،بزنس مین پینل ایف پی سی سی آئی کے سینئر وائس چےئر مین اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ اسٹیٹ بینک کی مالی سال 2019کی پہلی سہ ماہی رپورٹ کے مطابق صنعتی اور زرعی دونوں شعبوں کی کارکردگی توقع کے برعکس کم رہی۔ خریف کی تمام بڑی فصلوں کی پیداوار گزشتہ سیزن سے کم رہی

۔سندھ میں پانی کی قلت کے باعث زیر کاشت رقبہ میں 7.7فیصد کمی آئی اور کھاد کی قیمتوں میں اضافہ سے پیداوار متاثر ہوئی۔ میاں زاہد حسین نے بزنس کمیونٹی سے گفتگو میں کہا کہ لارج اسکیل مینوفیکچرنگ میں 1.7فیصد کمی آئی ہے جبکہ گزشتہ سال کے اس دورانئے میں9.9فیصد نمو دیکھنے میں آئی تھی۔سرکاری ترقیاتی پروگرام میں کمی اور نان فائلرز کے لئے گاڑیوں کی خریداری پر پابندی کے باعث تعمیرات اور مینوفیکچرنگ کے شعبوں میں سالانہ بنیادوں پر کمی دیکھنے میں آئی۔مایوس کن صنعتی کارکردگی اور درآمدات میں کمی کے باعث تجارت اور سروسز کے شعبوں کے ساتھ ساتھ ٹرانسپورٹ سیکٹر بھی سست روی کا شکار ہوسکتے ہیں۔

قرضوں کی واپسی اور دفاعی اخراجات ،جاری اخراجات میں اضافہ کے باعث بنے جس سے مالیاتی خسارہ 542ارب روپے ہوگیاجو گزشتہ سال کی پہلی سہ ماہی سے تقریباً 100ارب روپے زیادہ ہے ۔میاں زاہد حسین نے کہا کہ ٹیکس ریوینیو میں پیٹرولیم مصنوعات پر جی ایس ٹی کی کمی اور معیشت میں مجموعی سست روی کے باعث گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 11فیصد کمی آئی تاہم نان ٹیکس ریوینیو میں 12فیصداضافہ ہوا۔ترقیاتی اخراجات میں کمی کے باعث ترقی کی مجموعی شرح نمو 13فیصد سے کم ہوکر 11فیصد ہوگئی ہے۔ صوبائی جاری اخراجات میں 22فیصد اضافہ ہوا ۔پاکستان کا مجموعی سرکاری قرضہ 2019کی پہلی سہ ماہی کے اختتام پر 25.8ٹریلین روپے ہوگیا جو مالی سال 2018 کے اختتام پر 25ٹریلین روپے تھا۔میاں زاہد حسین نے کہا کہ بیرونی منڈیوں میں مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے ٹیکسٹائل برآمدات میں اضافہ نہیں ہوا جس کے باعث برآمدات کی شرح نمو دو ہندسوں سے کم ہوکر4فیصد ہوئی تاہم گندم اور چینی کی وجہ سے غذائی برآمدات میں 29فیصد اضافہ ہوا۔

سرکاری ترقیاتی اخراجات میں کمی اور سی پیک کے بعض پراجیکٹس کی تکمیل کی وجہ سے غیر توانائی شعبہ کی درآمدات میں تقریباً19فیصد کمی آئی ہے تاہم توانائی کی درآمدات نے اس کمی کے اثر کو مکمل طور پر زائل کردیااور تجارتی خسارہ میں سالانہ بنیادوں پر 7فیصد اضافہ ہوا ۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کے تخمینہ کے مطابق جی ڈی پی 6.2فیصد ہدف کے برعکس 4سے 4.5فیصد رہے گااسی طرح مہنگائی کی شرح6فیصد ہدف کے برعکس 7.5فیصد تک پہنچ سکتی ہے،

مالیاتی خسارہ 5فیصد ہدف کے بجائے 6.5فیصد تک پہنچ سکتا ہے اور جاری اکاؤنٹ خسارہ 4فیصد ہدف کے برعکس 5.5فیصد ہوسکتا ہے۔میاں زاہد حسین نے کہا کہ دوست ممالک بشمول سعودی عرب ، چین اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے مالی تعاون کے باعث زرمبادلہ پر دباؤ کم ہوا ہے اور معاشی بے یقینی کی کیفیت ختم ہوئی ہے۔ برآمداتی شعبہ میں بہتری کے لئے بجلی و گیس قیمتوں ، خام مال کی درآمدی ڈیوٹییوں میں کمی اور ریفنڈز کی ادائیگی کے لئے پرامزری بانڈز کے اجراجیسے حکومتی اقدامات معاون ہونگے۔ نان فائلرز پر 1300سی سی تک گاڑیوں کی خریداری کی پابندی ختم ہونے سے LSM سیکٹر کی نمو میں بہتری آئیگی۔زرعی پیداوار کی مجموعی کارکردگی میں اضافہ کے لئے لائیو اسٹاک سیکٹر کی ترقی ناگزیر ہے ، کھاد کی قیمتوں میں 200روپے فی بوری کمی سے زرعی پیداوار میں اضافہ کا امکان ہے۔سیاحت کے فروغ کے لئے اقدامات سے بھی معاشی بہتری کے امکانات ہیں۔