کے فور :2020 ء کے آخر تک بھی نامکمل رہنے کا خدشہ،منصوبے پر کام معطل 

146

کراچی (رپورٹ: محمد انور) کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ نے اعتراف کیا ہے کہ 260 ملین گیلن یومیہ اضافی پانی کا منصوبہ ’’کے فور‘‘ رواں سال کے آخر تک بھی مکمل نہیں ہوسکے گا بلکہ اس کے 2020ء تک بھی مکمل ہونے کے صرف امکانات ہیں کیونکہ ان دنوں پورے پروجیکٹ پر جاری کام معطل ہوچکا ہے۔ اس بات کا انکشاف واٹر بورڈ کی جانب سے وفاقی اور صوبائی حکام کو بھیجی گئی ایک رپورٹ میں اور سرکاری ذرائع نے کیا ہے۔ ایک ذریعے کے مطابق مذکورہ رپورٹ کے مندرجات کے ایک بڑے حصے کی کاپی عدالت میں بھی جمع کرائی گئی ہے۔ خیال رہے کہ فراہمی آب کا عظیم تر منصوبہ کے فورگزشتہ سال مکمل ہونا تھا مگر فنی وجوہات کی بناء پر اب غیر معمولی تاخیر ہوچکی ہے۔ اس منصوبے پر کام مارچ 2016 ء میں شروع کیا گیا تھا، منصوبے کے لیے پہلے پروجیکٹ ڈائریکٹر کی حیثیت سے انجینئر سلیم صدیقی کو تعینات کیا گیا تھا جنہیں جنوری 2018ء میں بغیر کسی واضح وجہ کے اس عہدے سے ہٹادیا گیا تھا۔ اس وقت تک سابق پی ڈی کی سربراہی میں 35 فیصد کام کیا جاچکا تھا۔ سلیم صدیقی کا دعویٰ تھا کہ وہ جون 2018 ء تک پورے پروجیکٹ کو مکمل کردیتے۔ تاہم ان کے تبادلے کے بعد اس کام کی رفتار یک دم سست ہوگئی۔ واٹر بورڈ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ موجودہ پروجیکٹ ڈائریکٹر اسد ضامن کی مبینہ طور پر ٹیکنیکل امور سے ناواقفیت کی بناء پر انہوں نے پورے پروجیکٹ کی مدت میں کنٹریکٹر فرم کے کنٹریکٹ میں 9 ماہ کی توسیع کردی۔ مدت میں اضافے کی صورت میں مذکورہ فرم سے معاہدہ کے تحت منصوبے پر تاخیر کی صورت میں جرمانہ بھی وصول کیا جانا تھا مگر پی ڈی نے ایسا کچھ کیے بغیر کے فور کے کنٹریکٹ کی مدت مارچ 2019ء تک بڑھادی۔ ذرائع نے انکشاف کیا کہ نان انجینئر پی ڈی نے ایک طرف کنٹریکٹر فرم کو کام مکمل کرنے کی مدت میں اضافہ کیا تو دوسری طرف کنسلٹنٹ فرم ’’انعام عثمانی اینڈ کمپنی‘‘ کی کنسلٹینسی کو 3 سالہ مدت پوری ہونے پر فارغ کردیا۔ کنسلٹنٹ فرم کا کام بند ہوتے ہی پروجیکٹ سے وابستہ بورڈ کے انجینئرز اور عملے نے اپنا تبادلہ کرالیا جس کے نتیجے میں اب کنٹریکٹر فرم کی رہنمائی کرنے والا کوئی نہ ہونے کے وجہ سے پورے منصوبے پر ہی کام معطل ہوچکا ہے۔ اس صورتحال کے نتیجے میں اب کے فور پروجیکٹ کا منصوبہ آئندہ سال 2020 تک بھی مکمل نہیں ہونے کا خدشہ پیدا ہوچکا ہے۔ جبکہ واٹر بورڈ کے حکام کی طرف سے گزشتہ ماہ حکام کو بھیجی گئی رپورٹ میں یہ اعتراف کیا گیا تھا کہ اصافی پانی کی فراہمی کا یہ بڑا منصوبہ مارچ 2019ء میں بھی مکمل نہیں ہوسکے گا۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اب یہ منصوبہ دسمبر 2020ء تک مکمل کیے جانے کا امکان ہے۔ پانی کے اس بڑے منصوبے میں مسلسل تاخیر کے نتیجے میں شہر میں پانی کی طلب میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے جو 2020ء تک 11 سو ملین گیلن سے ساڑھے بارہ سو ملین گیلن یومیہ ہوجائے گا۔ یادرہے کہ ان دنوں صرف 600 ملین گیلن یومیہ پانی دریائے سندھ سے کراچی کے لیے حاصل کیا جاتا ہے جو ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن (ٹی اینڈ ڈی) نقصان کے بعد صرف 470 ملین گیلن رہ جاتا ہے جو کراچی کی ضرورت کے مقابلے میں تقریباً 630 ملین گیلن یومیہ کم ہے۔ کے فور منصوبے پر کام بند ہونے کے حوالے سے جب پروجیکٹ ڈائریکٹر اسد ضامن سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے موبائل کال ریسیو کرنے سے گریز کیا جبکہ ایس ایم ایس کا بھی ہمیشہ کی طرح جواب نہیں دیا۔ کنسلٹینسی ورک کا ٹھیکا کام مکمل کیے بغیر ختم کیے جانے کے حوالے سے جب کنسلٹنٹ انعام عثمانی سے مؤقف جاننے کے لیے جب نمائندہ جسارت نے رابطہ کیا تو انہوں نے بھی کال وصول کرنے سے گریز کیا۔یادرہے کہ کنسلٹنٹ فرم کے کنٹریکٹ میں 8 ماہ کی مدت کنسلٹینسی کے لیے اور 34 ماہ کی مدت پروجیکٹ سپروائز کرنے کے لیے تھی لیکن مبینہ طور پر کنسلٹینسی ورک مکمل کرسکی اور نہ ہی رہنمائی کا کام پورا کرسکی۔