ممکن اور ناممکن اقدامات کی بازگشت !

207

عدالت عظمیٰ کے اقدامات بلا شبہ بہت مثبت ہیں لیکن رہائشی عمارتوں کے تجارتی استعمال کو ختم کرنے کے واضح احکامات اگرچہ قانون کے مطابق ہے مگر اس پر عمل درآمد کے حوالے سب ہی شدید پریشان ہیں۔ اس حکم پر عمل درآمد کی ذمے داری سندھ بلڈنگز کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کنٹونمنٹ بورڈز اور ڈیفنس آفیسرز ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کی ہے۔ ان احکامات پر عمل درآمد ہوا تو قومی شاہراہ سے سپر ہائی وے، ابراہیم حیدری سے حب چوکی اور منوڑہ و کیماڑی سے گلشن معمار تک پھیل جانے والا کراچی مزید سنگین مسائل کا شکار ہوجائے گا کیوں کہ شہر کے تمام اطراف ہی عمارتوں کی تعمیرات اور اس کے استعمال کی خلاف ورزیاں نظر آتی ہیں۔ دلچسپ امر تو یہ ہے کہ کراچی کی بیش تر کچی اور پکی آبادیاں تو ایسی اراضی پر قائم ہیں جہاں زیر زمین پانی، سیوریج، ٹیلی فون اور بجلی کا نظام ہے۔ بعض کچی آبادیوں کے سیکڑوں گھر اور دکانیں ایسے مقامات پر بن چکی ہیں جہاں 25 فٹ سے اوپر بجلی کے ہائی ٹینشن لائینیں گزر رہی ہیں۔ ان بستیوں میں کرنٹ لگنے کے متعدد واقعات ریکارڈ پر بھی ہیں۔ یہاں کے مکانات کو ختم کرنا ہر دور میں ضروری رہا مگر نظر انداز بھی ہر دور میں کیا گیا۔
کراچی کے گنجان آباد اور قانون کے مطابق رہائشی علاقوں میں عدالت عظمیٰ کا حکم اپنی جگہ سو فی صد درست ہے لیکن اس پر عمل درآمد ناممکن حد تک مشکل نظر آتا ہے۔ اس لیے کہ اگر الاٹ شدہ اور منظور شدہ رہائشی علاقوں میں تجارتی سرگرمیاں ممنوع قرار دے کر ختم کی گئیں تو پورے کراچی میں صرف چند مارکیٹیں ایسی رہ جائیں گی جو کمرشل بنیادوں پر بسائی گئیں ہیں۔ ان میں ایشیاء کا سب سے بڑا بازار ’’بابر مارکیٹ لانڈھی‘‘ بھی شامل ہے۔ بابر مارکیٹ طرز پر نیو سبزی منڈی سپر ہائی وے اور لی مارکیٹ مچھی میانی مارکیٹ ہے۔ ان
کے سوائے کوئی مارکیٹ ایسی نہیں ہے جو مکمل تجارتی بنیادوں پر قائم کی گئی تھیں۔ شہر کے متعدد بازار تو ایسے ہیں جو کئی سال قبل خلاف قانون لیکن ضرورت کے تحت رہائشی علاقوں میں قائم ہوئے یا کیے گئے جن میں فیڈرل بی ایریا بلاک 16 کا بازار قابل ذکر ہے۔ اس بازار میں موجودہ تمام دکانیں خلاف قانون ایک سو 20 مربع گز کے الاٹ شدہ مکانات اور رہائشی پروجیکٹ یوسف پلازہ اور اطراف کی عمارتوں میں قائم ہوچکے ہیں۔ یہ بازار بلاشبہ شہر کے ضلع وسطی کا سب سے بڑا بازار ہے۔ مگر کوئی دوسری متبادل جگہ دیے بغیر انہیں اچانک ہی ایک حکم کے تحت ختم کرنا آسان نہیں ہے۔ اس لیے کہ ایسی غیر قانونی مارکیٹوں کے قیام میں تمام متعلقہ اداروں کی چشم پوشی یا پشت پناہی شامل رہی ہے۔
صدر ایوب خان کے دور 1960 سے 1967 تک کراچی میں جو ترقیاتی کام ہوئے ان میں لانڈھی کورنگی، نئی کراچی فیڈرل بی ایریا ناظم آباد کا قیام شامل تھا۔ اس دور میں کے ڈی اے نے ہر علاقے میں مخصوص چند پلاٹ کمرشل بنیادوں پر مختص کیے تھے لیکن وہ پلاٹس وقت گزرنے کے ساتھ ضرورت کے مقابلے میں ناکافی ہوگئے کیوں کہ ان کے ساتھ یا ان کے اوپر دیگر غیر قانونی تعمیرات کرلی گئیں۔ ضرورت تو تھی کہ ’’بابر مارکیٹ‘‘ لانڈھی کی طرز پر مزید بڑے بازار تخلیق کیے جاتے جہاں کسی بھی قسم کی دیگر سرگرمیاں آج بھی نہیں ہوتیں۔ بابر مارکیٹ کے آس پاس سیکڑوں گز تک رہائشی عمارتیں بھی موجود نہیں ہیں اگر نصف کلو میٹر یا اس سے کم فاصلے پر کچھ ہے تو وہاں ایک طرف مسجد اس کے مخالف سمت میں امام بارگاہ دیگر دو اطراف سرکاری اسپتال اور ٹیکنکل کالج موجود ہے۔ مگر ایسا کسی دوسرے علاقے کے بازار کو تخلیق ہی نہیں کیا گیا جس کے نتیجے میں اب ہر عمارت میں چند دکانیں اور دفاتر تجارتی بنیادوں پر نکالے گئے اور نکالے جارہے ہیں لیکن باقاعدہ بازار کی طرز پر صرف کھلے رفاعی پلاٹوں پر اتوار بازار، جمعہ بازار، منگل بازار اقسام کے اسپیشل عارضی بازار ہیں جہاں سے لوگ اپنی ضرورت کی اشیاء خریدتے ہیں اور ہزاروں تاجر یہاں کاروبار کرتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق رفاہی پلاٹوں کے تجارتی استعمال پر سخت پابندی کے بعد رفتہ رفتہ یہ تمام خصوصی بازار بھی ختم کیے جارہے ہیں۔ جو بہرحال شہریوں کی ضرورت ہیں۔
عدالت عظمیٰ کے حکم یا احکامات پر عمل درآمد سے تقریباً ہر رہائشی علاقے اور ہر رہائشی عمارت میں قائم کی جانے والی دکانیں، بیوٹی پارلرز، اسپتال، کلینکس ختم کرنا پڑیں گی۔ ایسی صورت میں لوگوں کو اپنی روز مرہ کی ضروریات زندگی کی اشیاء خریدنے میں جو پریشانی ہوگی اس کا حل کیا ہوگا؟ یہ شاید کسی نے اب تک نہیں غور کیا!۔ عدالت کے حکم پر عمل درآمد ترجیحی بنیادوں پر کھیل کے میدانوں پارکوں میں ہر طرح کی غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کارروائی کی جانی تو ضروری ہے۔ مگر الاٹ شدہ قانونی رہائشی پلاٹوں پر قائم تعمیرات میں تجارتی سرگرمیان خلاف قانون ہونے کے باوجود اس پر عمل درآمد کرانے سے شدید عوامی ردعمل بھی سامنے آسکتا ہے کیوں کہ اس سے لوگوں کے مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھ جائیں گے۔ لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ’’چائنا کٹنگ‘‘ اور ’’لاڑکانہ کٹنگ‘‘ کے ذریعے کھیل کے میدانوں، پارکوں، مساجد، اسکول اور کالجوں کے پلاٹوں پر تعمیر کیے جانے والی غیر قانونی رہائشی و دیگر تعمیرات کو بھی رعایت دی جائے یا ضرورت کے تحت چھوٹ دی جائے۔ ایسے تمام پلاٹوں کے ساتھ ان تمام اراضی کو بھی فوری خالی کرانا ناگزیر ہے جہاں سے زیر زمین یا بالائی یوٹیلیٹی اداروں کا نیٹ ورک موجود ہے۔ کیوں کہ ان سے کسی بھی وقت بھاری جانی و مالی نقصان ہوسکتا ہے۔ عدالت عظمیٰ کی جانب سے دفاعی ادروں کی زمینوں پر سینما شادی ہالز وغیرہ کا نوٹس لیا جانا بھی قابل اطمینان بات ہے مگر ساتھ ہی متعدد سرکاری عمارتوں پر سیکورٹی اداروں کی موجودگی کا نوٹس لیکر انہیں بھی خالی کرانا ناگزیر ہے۔ ایسا ہوگا تو قانون پر بلا امتیاز عمل درآمد کا ’’ڈنکا بجے گا‘‘ ورنہ اس معاملے میں امتیازی سلوک کی ممکنہ بازگشت کو کوئی نہیں روک سکے گا۔ چالیس سال والا کراچی بحال کرنے کے لیے عمارتوں سمیت آبادی کو بھی کم کرنا پڑے گا جو ناممکن ہے۔ ضرورت چالیس سال پہلے والے کراچی کو بحال کرنے کی نہیں ہے بلکہ ناگزیر یہ ہے کہ ہر سطح پر اور شعبے میں قانون کی حکمرانی ہو۔