’’ افپاک ‘‘کا حقیقی راستہ

202

 

 

یہ خبر حبس زدہ ماحول میں تازہ ہوا کے ایک خوش گوار جھونکے کی مانند ہے کہ قطر کے دارالحکومت دوحا میں امریکی نمائندے اور ملا برادر کی سربراہی میں افغان وفد کے درمیان امن معاہدے کے مسودے پر عمومی اتفاق ہوگیا ہے۔ فریقین کے مطابق کچھ امور پر جزوی اختلافات باقی ہیں جو جلد دور کر لیے جائیں گے۔ مسودے کے حوالے سے سامنے آنے والی خبروں کے مطابق امریکی افواج اگلے اٹھارہ ماہ کے دوران افغانستان سے مکمل انخلا کر جائیں گے اور انخلا کے بعد طالبان اپنی سرزمین کو القاعدہ، داعش یا اس طرح کے کسی اور گروہ کو امریکا کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ امریکا افغان طالبان کا نام بلیک لسٹ سے خارج کر دے گا۔ اس مسودے کا اہم نکتہ جس پر طالبان اصرار کر ر ہے ہیں یہ ہوگا کہ انخلا کے بعد علاقائی ملکوں بالخصوص پاکستان کی سلامتی اور مفادات کو زک نہیں پہنچانے دیا جائے گا۔
زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ ماضی کی نسبت اس بار امن مذاکرات زیادہ حوصلہ افزا رہے ہیں۔ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ پاکستان نے طالبان اور امریکا کو آمنے سامنے بٹھا کر اپنا کام کر دیا ہے۔ امریکا اور طالبان کو ایک میز پر بٹھانے کا کام پاکستان نے انجام دے کر سترہ برس کے اس قضیے میں اپنی اہمیت، طاقت اور صلاحیت ثابت کر دی ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہورہا ہے کہ امریکا نے افغانستان میں بھارت کو غیر فطری کردار اور پاکستان کو اس معاملے سے قطعی غیر متعلق کرنے کی کوششوں کے ذریعے جھک ہی ماری ہے۔ اگر امریکا نے پاکستان کی صلاحیت اور طاقت کا اعتراف اور احساس بہت پہلے کر لیا ہوتا تو پورا خطہ امن سے آشنا ہوچکا ہوتا۔ جو مذاکرات آج ہو رہے ہیں برسوں پہلے ہو چکے ہوتے اور یوں امن قائم ہوئے بھی برسوں گزر چکے ہوتے۔ امریکا کو بھارت نے شیشے میں اُتار کر ایک غلط راستے پر ڈال دیا۔ امریکا یہ سمجھتا رہا کہ وہ نیپام اور ڈیزی کٹر بموں اور ڈرون حملوں سے طالبان کی مزاحمت پر قابو پالے گا اور پاکستان کو اس عمل سے الگ تھلگ اور دباؤ کا شکار بنا کر اپنے مقاصد حاصل کر لے گا۔ یہ خیال قدم قدم پر خام ثابت ہوتا رہا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ برسوں پہلے پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے اس دور کے سربراہ احمد شجاع پاشا نے امریکی اخبار ٹائم کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا افغان مسئلے کے حل کے لیے کبھی ہم سے بھی بات کر کے دیکھے۔ اس وقت امریکا ہوا کے گھوڑے پر سوار تھا اور پاکستان کے ساتھ برابری کی بنیاد پر بات کرنے کے بجائے ڈومور پالیسی اپنائے ہوئے تھا۔ پاکستان چار وناچار کوئی فرمائش تو قبول کر لیتا تھا مگر مجموعی طور پر پاکستان امریکیوں کے بارے میں ’’ہور چوپو‘‘ کی پالیسی اپنائے ہوئے تھا۔ افغانستان میں اپنے مقاصد میں ناکامی کو دیکھتے ہوئے اس سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی جوابی حکمت عملی اختیار کی گئی۔ جس سے پاکستان بدترین فساد اور دہشت گردی کا شکار رہا۔ یہ افغانستان کا جلتا ہوا کمبل پاکستان کے اوپر اُلٹنے کی جوابی حکمت عملی تھی۔ قبائلی علاقوں اور بلوچستان کے فساد اسی حکمت عملی کا شاخسانہ تھے۔ سترہ برس تک ٹامک ٹوئیاں مارنے کے بعد امریکا کو یہ احساس ہوا کہ پاکستان کو امن گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بٹھائے بغیر خطے میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ پاکستان نے بھی اپنی صلاحیت ثابت کر دی۔ ملابرادر جیسے سینئر طالبان لیڈر جو پاکستان کی حراست میں تھے اچانک رہائی پاکر مذاکراتی عمل کی قیادت کرنے لگے ہیں اور کامیابیوں کے آثار اور امکانات بھی واضح نظر آنے لگے ہیں۔
امریکا نے جس انداز میں ’’افپاک‘‘ (افغانستان اور پاکستان) کی اصطلاح متعارف کرائی تھی وہ ایک غلط راستہ اور ناقص حکمت عملی تھی۔ اس کا مقصد پاکستان کو افغانستان کی طرح خانہ جنگی کا شکار ڈولتی ہوئی ریاست ثابت کرنا تھا۔ اسی لیے پاکستان نے اس اصطلاح پر شدید ردعمل ظاہر کیا اور یہ اصطلاح تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہو گئی۔ اب امریکا افپاک کی اصطلاح استعمال کرے یا نہ کرے مگر کابل اور اسلام آباد کی ہم آہنگ حکومتوں اور ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہونے کے وعدے حقیقت میں ’’افپاک‘‘ کی اصطلاح کو بامعنی بنارہے ہیں۔ ایک دور میں افغانستان کے صدر حامد کرزئی بہت معنی خیز انداز میں پاکستان اور افغانستان کو جڑواں بھائی کہہ رہے تھے۔ حامد کرزئی تو شاید اس وقت کے ماحول میں پاکستان کو یہ باور کرارہے تھے کہ پاکستان خود کو بڑا بھائی سمجھنا چھوڑ دے مگر افغانستان کے تناظر میں یہی رویہ مناسب وموزوں ہے۔ اب افغانستان میں پاکستان مخالف حکومت کا تجربہ سترہ برس تو کیا اس سے بہت پہلے بھی ناکام ہوگیا تھا اور سترہ برس کے تجربات اور کوششوں نے دوبارہ اس تجربے کو ناکام ٹھیرا دیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ طالبان کا اصرار ہے کہ امریکی انخلا کے بعد پاکستان کی سلامتی کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ گویا سترہ برس کی طرح افغان سرزمین پاکستان مخالف قوتوں کے اڈے کے طور پر استعمال نہیں ہو گی۔ قیام امن کے بعد افغانستان میں قومی اتفاق رائے کی حامل وسیع البنیاد حکومت کا امتحان درپیش ہے۔ اس مرحلے میں بھی پاکستان کا تعاون بنیادی کردار ادا کرے گا۔ اس حقیقت کو کسی مرحلے پر فراموش کردیا گیا تو امن کی منزل ایک بار پھر دور ہو سکتی ہے۔