وزیر اعظم عمران خان کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالے پانچ ماہ ہونے جارہے ہیں‘ بطور وزیر اعظم وہ آئین کی رو سے انتظامیہ کے سربراہ ہیں آئین کہتا ہے کہ انتظامیہ پارلیمنٹ کو جواب دہ ہوتی ہے‘ پارلیمنٹ قانون ساز ادارہ ہے‘ لہٰذا ہر پارلیمنٹرین سمجھتا ہے کہ وہ ملک کے آئینی لحاظ سے بالا دست ادارے کا رکن ہے‘ پارلیمنٹ کی خوبی کہہ لیں یا آئینی تحفظ‘ پارلیمنٹ میں کہی گئی کسی بات پر کسی بھی رکن کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں بن سکتا‘ پارلیمنٹ میں اگر کوئی حکومتی عہدیدار غلط بیانی کرے گا تو وہ حلف سے روگردانی کا مرتکب ہوگا‘ وزیر اعظم عمران خان‘ کم و بیش ساڑھے تین ماہ کے وقفے کے بعد قومی اسمبلی پہنچے‘ تاکہ اسد عمر کی جانب سے پیش کیے گئے ضمنی بجٹ کو سن سکیں‘ اسمبلی میں اس روز ہنگامہ بھی ہوا ابتداء کس نے کی؟ یہ کھوج لگانا حکومت کا کام ہے۔ کسی وزیر خزانہ نے بجٹ پیش کرتے ہوئے اپوزیشن سے کبھی جگت بازی نہیں کی‘ بہت پریشان بھی ہو تو پانی کا ایک گھونٹ ضرور پیتا ہے مگر وزیر خزانہ اسد عمر تو اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی کا ترکی بہ ترکی جواب دیتے رہے ان کی توجہ بجٹ پر کم اپوزیشن سے حساب کرنے پر زیادہ رہی۔ جواب میں اپوزیشن بھی خوب گرجی اور وزیر اعظم کو بھی بات کرنے کا موقع نہیں ملا‘ اسمبلی کے اجلاس سے کوئی تین چار روز بعد وزیر اعظم میاں والی گئے‘ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اسمبلی میں بولنے کا موقع نہیں دیا جاتا‘ حکومت کے خود سربراہ ہیں اور اسپیکر بھی اپنا ہے تو پھر یہ گلہ کیسا؟ یہ گلہ اس لیے بنتا ہے کہ حکومت کے پاس حکمت عملی نہیں‘ اپنی ہی صفوں میں ایسے لوگ ہیں جو اس بات کا پورا بندوبست کرتے ہیں کہ اسمبلی میں ہنگامہ ہی رہے‘ ماضی کا ایک چھوٹا سا واقعہ سن لیں‘ پیپلزپارٹی کا دوسرا دور حکومت تھا‘ یوسف رضا گیلانی اسپیکر اسمبلی ہوا کرتے تھے اور نواز شریف لیڈر آف دی اپوزیشن‘ ان کے ساتھ گوہر ایواب ڈپٹی اپوزیشن لیڈر کے طور پر کام کرتے تھے‘ کہ آئین میں ڈپٹی اپوزیشن لیڈر کی کوئی گنجائش نہیں‘ بہر حال‘ اپوزیشن نے یہ انتظامی فیصلہ خود ہی کررکھا تھا‘ اسمبلی کا اجلاس بہت ہی اچھا چلتا تھا لیکن جس روز نواز شریف اسمبلی میں آتے تو ڈپٹی اپوزیشن لیڈر گوہر خان اٹھ کر پیپلزپارٹی کی لیڈر شپ پر اعتراض کرتے‘ کرپشن کے طعنے دیتے‘ بس پھر کیا تھا جواب میں پیپلزپارٹی نواز شریف پر خوب برستی‘ یوں کبھی نواز شریف تسلی سے اسمبلی میں بات کرنے سے محروم رہتے‘ آج تحریک انصاف کی قیادت کو بھی دیکھنا اور جائزہ لینا چاہیے کہ کہیں اس کے ساتھ بھی ہاتھ تو نہیں ہورہا۔ بہر حال وزیر اعظم اسمبلی میں نہ سہی‘ میاں والی میں تو بولے۔
کچھ عرصہ پہلے ایک بیان دیا کہ ٹی وی پر ظلم ہوتا ہوا کوئی منظر دیکھ رہا تھا تو میں نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ دیکھو کتنا ظلم ہورہا ہے تو اہلیہ نے کہا کہ وزیر اعظم بھی آپ ہی ہیں‘ لیکن لگ رہا ہے کہ ابھی اہلیہ کی بات پر یقین نہیں آرہا کہ وہ اس ملک کے وزیر اعظم ہیں‘ انہیں چاہیے کہ اسمبلی میں آئیں‘ بات کریں اور دنیا کو دکھائیں سکھائیں کہ سلجھی ہوئی بات کیسے کی جاتی ہے‘ وزیر اعظم چوں کہ کھلاڑی رہے ہیں‘ ہماری قومی ٹیم ہاکی کی ہو یا کرکٹ کی‘ اس کے ساتھ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے‘ جو جیت کر آتے ہیں تو ساری ٹیم اکٹھی وطن واپس آتی ہے‘ لیکن جب ہار جائیں تو کھلاڑی ایک ایک کرکے چھپ چھپا کر وطن واپس آتے ہیں‘ وزیر اعظم بھی پانچ ماہ میں کوئی دو تین بار ہی اسمبلی میں آئے ہیں‘ کہیں ایسا تو نہیں کہ حکومت چوں کہ کچھ ڈیلیور نہیں کر پائی لہٰذا سوچا ہو کہ اسمبلی جا کر کرنا کیا ہے ویسے بھی وہاں بولنے کا موقع بھی نہیں ملتا‘ لہٰذا ٹویٹ سے کام چلاؤ‘ وزیر اعظم نے نمل یونیورسٹی کے کانووکیشن میں خطاب کے دوران کہا کہ پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں ہے ہم اپنی غلطیوں اور سستی کی وجہ سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ بہت ہی اچھی بات کرنے کے بعد وہ پھر یوٹرن لے گئے اور یونیورسٹی کے کانووکیشن میں وہ سیاست پر شروع ہوگئے‘ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی تعریفوں کے وہ پل باندھے کہ دنیا حیران رہ گئی اور پھر ایوب خان کے دور سے شروع ہوئے‘ ضیاء الحق تک پہنچے فیکٹریاں‘ شوگر ملز تک کا ذکر کرگئے‘ یہ بھول گئے کہ کرکٹ ڈپلومیسی کے لیے ضیاء الحق نے ان کا ہاتھ تھاما تھا‘ بہر حال چھوڑیے ماضی میں کیا رکھا ہے‘ آگے بڑھتے ہیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ شہباز شریف نے جو زبان استعمال کی وہ یقیناًقابل اعتراض ہے‘ غالبا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ انہیں اوئے۔۔۔۔۔۔ کہنا چاہیے تھا حکومت کے لیے صرف ایک مشورہ ہے کہ وہ بطور انتظامیہ‘ پارلیمنٹ کی اہمیت کو سمجھے‘ اور پارلیمنٹ بھی بطور مقننہ اپنا کردار نبھائے‘ یہ دونوں کام نہ ہوئے تو مستقبل میں سانحہ ساہی وال جیسا المیہ سیاست دانوں کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے، پھر ماضی کو یاد کرکے پچھتانا بھی کام نہیں آئے گا صرف بجلی کے نادھندہ اداروں کی فہرست دیکھ لی جائے تو حکومت کہاں ہے؟ سب کچھ واضح ہوجاتا ہے سرکاری دستاویزات اطلاع دے رہی ہے کہ مرکزی حکومت کے علاوہ چاروں صوبائی حکومتیں اور آزاد کشمیر ایک کھرب 52 ارب روپے کی بجلی کی نادہندہ ہیں۔ پہلے نمبر پر آزاد جموں وکشمیر حکومت112 ارب، دوسرے نمبر پر وفاقی حکومت 10 ارب اور اس کے بعد سندھ حکومت 7 ارب روپے کی مقروض ہے کیسی عجیب بات ہے کہ حکومت خود ہی نادہندگان کی فہرست میں ہے سرکار میں عجیب انارکی پھیلی ہوئی ہے کہ کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے جب سرکار خود ہی نادہندہ ہوگی تو کس منہ سے نادہندگان کے خلاف کوئی مہم چلاسکتی ہے۔