پاک بھارت تعلقات پر جرمنی اور فرانس کے تعلقات کا اطلاق؟

368

 

 

پاک بھارت تعلقات کی تاریخ فرانس اور جرمنی کے تعلقات کی تاریخ سے قطعی مختلف ہے مگر معاصر اخبار پاک بھارت تعلقات پر جرمنی اور فرانس کے تعلقات کی تاریخ کا اطلاق کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
اس سلسلے کی تازہ ترین کہانی یہ ہے کہ اخبار نے 22 فروری 2018ء کی اشاعت میں پاکستان میں تعینات جرمنی اور فرانس کے سفیروں مارٹن گوبلر اور ماغک بفیتی کا ایک مشترکہ مضمون شائع کیا ہے۔ اس مضمون میں جرمنی اور فرانس کے سفیروں نے کہا ہے کہ جرمنی اور فرانس کے تعلقات کی تاریخ کشیدگی اور جنگ و جدل کی تاریخ تھی اور آج سے 70 سال قبل کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ جرمنی اور فرانس نہ صرف یہ کہ اچھے دوست ہوں گے بلکہ تجارت میں شراکت دار ہونے کے ساتھ ساتھ یورپی یونین کے دو اہم ملک بھی ہوں گے۔ لیکن بہرحال فرانس کے صدر جنرل ڈیگال اور جرمنی کے چانسلر کونسراڈ کی قیادت میں دونوں ملکوں نے نفرت اور دشمنی کو ختم کرنے کے کام کا آغاز کیا اور 22 جنوری 1963ء کو دونوں ممالک نے دوستی کے معاہدے پر دستخط کردیے۔ ہم یہ مضمون پڑھ کر چونکے اور خیال آیا کہ اس مضمون میں پاک بھارت تعلقات کا ذکر نہیں ہے۔ لیکن اخبار نے یہ کمی اگلے ہی دن پوری کردی۔ اگلے دن صفحہ اول پر جو تین کالمی خبر شائع ہوئی اس کا ابتدائیہ یہ تھا۔
’’جرمنی اور فرانس دوستی کے 56 سال مکمل ہوگئے اور دونوں ملکوں کے سفیروں نے اپنے خطاب میں پاکستان اور بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے تعلقات بہتر بنائیں۔ جرمن سفیر نے کہا کہ کرتارپور راہداری کھولنا ایک اچھا آغاز ہے۔ اسی طرح فرانسیسی سفیر کا کہنا تھا کہ ہماری خواہش ہوگی کہ اگر پاکستان اور بھارت درخواست کریں تو ہم ان کی معاونت کریں گے‘‘۔
امن کی خواہش بڑی نیک خواہش ہے اور پاکستان اور بھارت کے درمیان اگر امن قائم ہوجائے تو بڑی اچھی بات ہوگی لیکن اس سلسلے میں جرمنی اور فرانس کے تعلقات کی تاریخ کو پاک بھارت تعلقات کے لیے مثال بنانا درست نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فرانس اور جرمنی اور پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی تاریخ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ آئیے اس ’’فرق‘‘ کے کچھ اہم پہلوؤں کو اپنے شعور میں تازہ کرتے ہیں۔
مسلمانوں نے بھارت پر ایک ہزار سال حکومت کی ہے۔ اس بات کا مسلمانوں اور ہندوؤں دونوں کے مزاج اور رویوں پر گہرا اثر ہے۔ مسلمانوں میں اس حوالے سے ایک احساس برتری پایا جاتا ہے اور ہندوؤں میں اس تجربے کی وجہ سے ایک احساس کمتری پایا جاتا ہے۔ پاکستان مسلمانوں کے اجتماعی احساس برتری کا وارث ہے۔ اتفاق سے نہ جرمنی نے کبھی فرانس پر ایک ہزار سال حکومت کی اور نہ فرانس نے ایک ہزار سال تک جرمنی کو اپنے زیر نگیں رکھا۔
پاکستان دو قومی نظریے کا حاصل ہے اور دو قومی نظریے کی بنیاد مذہب ہے۔ مسلمانوں کا مذہب اسلام ہے۔ ہندوؤں کا مذہب ہندو ازم ہے۔ اس کے برعکس اگر مذہب کی بات کی جائے تو فرانس کا مذہب بھی عیسائیت ہے اور جرمنی کا مذہب بھی عیسائیت ہے۔
اسلام نے بحیثیت مذہب برصغیر میں جو تہذیب پیدا کی وہ اسلامی تہذیب کہلاتی ہے۔ ہندوؤں کی تہذیب ہندو تہذیب کہلاتی ہے۔ اس کے برعکس فرانس اور جرمنی دونوں کی تہذیب ایک ہے۔ یعنی جوڈو کرسچن تہذیب۔ اس تہذیب کی زبانوں کا اسکرپٹ ایک ہے، تہوار ایک جیسے ہیں، لباس اور طرزِ بودوباش ایک جیسی ہے۔ لباس بھی ایک جیسا ہے۔ اس کے برعکس اسلامی تہذیب اور ہندو تہذیب کی زبانوں کا اسکرپٹ الگ ہے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے تہوار جدا ہیں۔ ان کا طرزِ بودوباش مختلف ہے۔ یہاں تک کہ لباس بھی ایک جیسا نہیں۔
بھارت نے کبھی قیام پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا اور اس نے موقع ملتے ہی 1971ء میں پاکستان کو دولخت کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ کیا جرمنی نے کبھی فرانس کو دو ٹکڑے کیا؟ یا فرانس نے کبھی جرمنی کو دو حصوں میں تقسیم کیا؟
بھارت کے حکمران اکھنڈ بھارت کے تصور پر یقین رکھتے ہیں اور وہ پورے جنوبی ایشیا کو اکھنڈ بھارت کا حصہ سمجھتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اکھنڈ بھارت کو انڈونیشیا تک پھیلا ہوا قرار دیتے ہیں۔ کیا جرمنی نے کبھی فرانس کو ’’اکھنڈ جرمنی‘‘ کا یا فرانس نے جرمنی کو ’’اکھنڈ فرانس کا حصہ سمجھا ہے؟
بھارت نے اپنے یہاں آباد 25 کروڑ مسلمانوں کو دیوار سے لگایا ہوا ہے اور بھارت میں مسلمان کی حیثیت گائے سے بھی کم ہے۔ کیا فرانس نے کبھی فرانس میں آباد جرمن باشندوں کو دیوار سے لگایا ہے اور انہیں کسی جانور مثلاً گائے سے کمتر سمجھا ہے؟ یا جرمنی نے کبھی اپنے یہاں موجود فرانسیسیوں کو دیوار سے لگایا ہے اور انہیں اپنی گاؤ ماتا سے کمتر گردانا ہے؟
برصغیر کی تقسیم کے فارمولے کی رو سے کشمیر پاکستان کا حصہ تھا مگر بھارت نے طاقت کے زور پر کشمیر کو ہتھیا لیا۔ اس مسئلے پر پاکستان اور بھارت کے درمیان تین جنگیں ہوچکی ہیں۔ کیا فرانس نے جرمنی کے کشمیر پر قبضہ کیا ہوا ہے؟ یا جرمنی نے فرانس کے کشمیر کو شیر مادر کی طرح ہڑپ کیا ہوا ہے؟ کیا دونوں ملکوں کے درمیان کسی مسئلہ کشمیر پر تین جنگیں ہوچکی ہیں؟
بھارت وہ ملک ہے جو اپنی تفریحی فلموں کو بھی پاکستان کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ سونیا گاندھی ایک بار کہہ چکی ہیں کہ ہمیں پاکستان پر حملے کی کیا ضرورت ہے ہماری فلموں نے تو اسے پہلے ہی فتح کیا ہوا ہے؟ کیا جرمنی نے بھی کبھی فلموں کو فرانس کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے؟ یا کبھی فرانس نے اپنی فلموں کے ذریعے کبھی جرمنی کو فتح کرنے کی سازش کی ہے؟
یہ پاک بھارت تعلقات کی تاریخ کی دیگ کے ’’چند چاول‘‘ ہیں اور یہ چاول چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ پاک بھارت تعلقات کی تاریخ کا فرانس اور جرمنی کے تعلقات کی تاریخ سے کوئی علاقہ ہی نہیں۔
پاکستان کے حکمران جتنے ’’مسلمان‘‘ ہیں سب کو معلوم ہے مگر بہرحال پاکستان کے حکمران نام ہی کے سہی مسلمان ہیں اور محض نام کا بھی ان پر اثر ہے۔ اصل میں ہم کہنا یہ چاہ رہے ہیں مسلمان مزاج اور طبیعت کے اعتبار سے امن کو پسند کرتا ہے اور محاذ آرائی سے گریز کرتا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان کے ہر فوجی اور سول حکمران نے پوری سنجیدگی اور خلوص کے جذبے سے بھارت کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کی ہے مگر بھارت نے کسی کوشش کو کامیاب نہ ہونے دیا۔ بھارت کہتا ہے کہ پاک بھارت تعلقات کی خرابی کے ذمے دار پاکستانی جرنیل ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے فوجی حکمرانوں نے ہمیشہ بھارت کے ساتھ مصالحت کی کوشش کی ہے۔ سندھ طاس معاہدہ جیسا بھی ہے جنرل ایوب کے دور کی یادگار ہے۔ جنرل ضیا الحق کے زمانے میں پاک بھارت خارجہ سیکرٹریوں کے درمیان مذاکرات کے ایک دو نہیں 9 دور ہوئے تھے۔ بلاشبہ کارگل جنرل پرویز مشرف کی ایجاد تھی مگر یہ جنرل پرویز مشرف ہی تھے جنہوں نے آگرہ میں واجپائی کے ساتھ مذاکرات کیے اور مذاکرات بھی ایسے جن کا مسئلہ کشمیر کے اصولی حل سے کوئی تعلق نہ تھا۔ مگر بھارت نے نہ جنرل ایوب کے ساتھ بامعنی مذاکرات کیے نہ جنرل ضیا کے ساتھ۔ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ مذاکرات میں سبھی کچھ طے پا گیا تھا مگر بھارت نے مذاکرات کی بساط اُلٹ دی اور بتادیا کہ وہی ہے جو خطے میں امن نہیں چاہتا۔ جنرل پرویز مشرف بھارت کے ساتھ جو ’’ڈیل‘‘ کرچکے تھے وہ کسی طرح بھی پاکستان اور کشمیریوں کے مفاد میں نہ تھی اسی لیے جنرل پرویز مشرف اور سید علی گیلانی کے درمیان دہلی میں ملاقات بڑی تلخ ہوگئی تھی مگر بھارت جنرل پرویز مشرف کی اس لچک پر بھی خوش نہ ہوا جس میں ریڑھ کی ہڈی کا سراغ لگانا دشوار تھا۔
یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ خطے کا ہر مسئلہ بھارت کا پیدا کردہ ہے۔ بھارت سے پہلے پاکستان نے ایٹم بم بنانے کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا۔ بھارت نے ایٹم بم بنایا تو پاکستان کو بھی ایٹم بم بنانا پڑ گیا۔ بھارت نے خطے میں میزائلوں کی دوڑ شروع کی، بھارت نے کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرئن وضع کیا تو پاکستان کو چھوٹے ایٹم بم بنانے پڑے۔ سارک علاقائی ملکوں کے درمیان قربت پیدا کرنے کے لیے بنائی گئی تھی مگر بھارت نے سارک کو ’’بھارت کی شارک‘‘ بنادیا۔ پاکستان امریکی کیمپ میں گیا تو اس کا ایک سبب بھی بھارت ہی تھا۔ بھارت پاکستان کی سلامتی کے درپے نہ ہوتا تو شاید پاکستان امریکی کیمپ سے دور رہتا۔ بھارت خود کو غیر وابستہ تحریک کا رکن کہتا رہا، حالاں کہ وہ سوویت یونین سے بھی ’’وابستہ‘‘ تھا اور امریکا اور یورپ سے بھی ’’وابستہ‘‘ تھا۔ ایسا نہ ہوتا تو بھارت کے ایٹمی پروگرام کے سلسلے میں مغرب کبھی تعاون نہ کرتا۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ 1962ء میں بھارت چین جنگ میں امریکا نے نہرو کی درخواست پر بھارت کو خفیہ طریقے سے ہتھیار مہیا کیے۔ بھارت کے مزاج میں غیر وابستگی ہوتی تو آج بھارت خطے میں امریکا اور یورپ کے آلہ کار کا کردار ادا نہ کررہا ہوتا۔ اس تناظر میں بھی دیکھا جائے تو پاک بھارت تعلقات کا فرانس اور جرمنی کے تعلقات سے کوئی تعلق نہیں۔
پاک بھارت تعلقات اپنی اصل میں دو مذاہب، دو تہذیبوں، دو تاریخوں اور دو قوموں کے تعلقات ہیں۔ جو عناصر ان حقائق کو نظر انداز کرتے آگے بڑھیں گے وہ اس خطے میں موجود 60 کروڑ مسلمانوں کے مستقبل سے کھیلیں گے۔ قومیں اپنی امیدوں اور مایوسیوں کے برابر قوی اور کمزور ہوتی ہیں۔ نائن الیون کے بعد امریکا نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ افغانستان پر حملہ کیا تو بہت سے احمقوں کو طالبان کی شکست یقینی نظر آرہی تھی مگر جن لوگوں کو اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی تاریخ اور خود افغانوں کی مزاحمتی قوت سے امید تھی انہیں معلوم تھا کہ افغانستان میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کو شکست ہونے والی ہے۔ یہ مزاحمتی قوت بروئے کار نہ آتی تو خود پاکستان وجود میں نہیں آسکتا تھا۔ چوں کہ ہمیں بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش ضرور کرنی چاہیے مگر طے شدہ اصولوں کی بنیاد پر اپنے مذہب، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ کے تقاضوں کے مطابق۔ جس طرح ’’کاغذی پھول‘‘ اصل پھولوں کا متبادل نہیں ہوسکتے اسی طرح ’’مصنوعی دوستی‘‘ اور ’’تھوپا ہوا امن‘‘ ’’حقیقی دوستی‘‘ اور ’’فطری امن‘‘ کی جگہ نہیں لے سکتے۔