حال ہی میں حکومت نے بیرون ملک سے آنے والوں کے لیے ویزا پالیسی میں تبدیلی کی ہے جس کے مطابق پچاس ممالک کے باشندوں کو ائر پورٹ پر ویزا جاری کردیا جائے گا۔ اس کے علاوہ 175 ممالک کے لیے الیکٹرونک ویزا کی پالیسی بنائی گئی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس سے غیر ممالک سے آنے والوں کا پاکستان آنا آسان ہوگا اور پاکستان کے سیاحتی مراکز کی تفریح کے لیے باآسانی ویزا حاصل کرسکے گا۔ اس طرح پاکستان میں سیاحت کو فروغ ہوگا اور ملکی معیشت پر اس کا مثبت اثر پڑے گا، اس کے جواب میں مسلم لیگ (ن) کے احسن اقبال اور شاہد خاقان عباسی کا یہ کہنا ہے کہ یہ تمام پالیسیاں ہم نے وضع کی تھیں لیکن ہم سے حکومت چھین لی گئی اور اس طرح ہمیں ان پالیسیوں پر عملدرآمد کا موقع نہیں ملا اور ہم نے بھی بھارت، اسرائیل، افغانستان اور بنگلا دیش کے سوا دیگر ممالک کے لیے ائر پورٹ پر ویزا جاری کرنے کا پروگرام فائنل کرلیا تھا لیکن وقت نہیں ملا کہ اس پر عملدرآمد کیا جائے۔
ویزا پالیسی کے ساتھ سیر و سیاحت اور اس کے نتیجے میں معاشی ترقی کا جو ذکر آج کل ہورہا ہے وہ بہت اہم ہے۔ کسی ملک میں سفر و سیاحت میں بہتری اور اضافے کے نتیجے میں معاشی ترقی لازم و ملزوم ہے۔ اس سلسلے میں علم معیشت میں ’’معاشی ترقی بذریعہ سیاحت‘‘ (Tourism led Growth) کے نام سے کئی نظریات معیشت کے ماہرین نے وضع کیے ہیں اور مختلف ممالک کی ترقی نے ان نظریات (Theories) کو صحیح ثابت کیا ہے۔ عالمی سفر و سیاحت کی کونسل نے سال 2018 کی رپورٹ میں بیان کیا ہے کہ ’’عالمی مجموعی قومی پیداوار (GDP) کا دس فی صد سفر و سیاحت کی وجہ سے ہے، دنیا میں 31 کروڑ ملازمتیں اور دس فی صد روزگار اور 4.5 فی صد سرمایہ کاری سفر و سیاحت ہی کے باعث ہے۔ سفر و سیاحت کی سہولتوں کی بہتری طویل عرصے کی معاشی سرگرمیوں کا باعث ہے۔ دنیا میں اسپین، یونان، مصر، میکسیکو، مالدیپ، ترکی اور تھائی لینڈ اور دبئی کی معیشت میں سیر و سیاحت کا اہم کردار ہے۔ بھارت کی مجموعی قومی پیداوار میں سیر و سیاحت کا حصہ 9.6 فی صد ہے اور یہ دنیا کا ساتواں بڑا سیاحتی مرکز ہے۔ اسی طرح یو اے ای کی مجموعی قومی پیداوار میں سیر و سیاحت کا 8.7 فی صد حصہ ہے اور ہر سال 64 ارب ڈالر سیاحوں سے یہ ممالک کماتے ہیں۔
سیر و سیاحت کے نقطہ نظر سے پاکستان میں دلچسپی کے بے شمار مقامات ہیں جن میں ہر طرح کے سیاحوں کے لیے دلچسپی اور کشش کا سامان موجود ہے۔ ایک طرف تاریخی اور ثقافتی ورثے کے لحاظ سے مقامات ہیں جن میں وادی سندھ کی تہذیب پر مشتمل موہنجو داڑو اور ہڑپا جیسی جگہیں ہیں جہاں کی سیر سے ہزاروں سال پرانی تہذیب و تمدن، رہن سہن اور بودوباش کا پتا چلتا ہے تو دوسری طرف تاریخی مقامات و عمارات ہیں جن میں سیاحوں کے لیے بڑی کشش ہے۔ ان میں سب سے نمایاں تاریخی اور ثقافتی شہر لاہور ہے جس کے بارے میں مختلف کہاوتیں اور کہانیاں مشہور ہیں۔ مگر ان میں زیادہ اہم شاہدرہ میں جہانگیر کا مقبرہ، لاہور میں بادشاہی مسجد اور اس کے سامنے لال قلعہ، آگے جا کر شالا مار باغ، تاریخی دریائے راوی، یادگار پاکستان یا مینار پاکستان اور لاہور ہی میں داتا گنج بخش کا مقبرہ مشہور تاریخی اور قدیم انارکلی بازار جہاں ابھی بھی قدیم طرز تعمیر نظر آتا ہے لیکن یہ سلسلہ لاہور تک موقوف نہیں ٹھٹھہ کی جامع مسجد، مکلی کا قبرستان اور اگر آپ کراچی آجائیں تو یہاں بھی قدیم اور تاریخی عمارتوں کا ایک سلسلہ سیاحوں کو حیران کردیتا ہے، جس میں ایمپریس مارکیٹ، فریئر ہال، ڈینسو ہال، مزار قائد، قائد اعظم کا جائے پیدائش، کینٹ ریلوے اسٹیشن، تاریخی عمارات کے علاوہ کراچی میں قدرتی حسن سی ویو، کلفٹن، ٹرٹل بیچ، ہاکس بے، پیراڈائز پوائنٹ، کیماڑی اور منوڑہ کی شکل میں موجود ہے۔ پاکستان میں قدرتی حسن کا دوسرا سلسلہ شمالی علاقہ جات میں سیاحوں کی دلچسپی کا سامان رکھتا ہے۔ اسلام آباد سے ایک سلسلہ مری، نتھیا گلی، ایوبیا اور کشمیر پوائنٹ تک جاتا ہے۔ دوسرا سلسلہ کاغان، ناران، جھیل سیف الملوک، ہنزہ، بابو سرٹاپ سے ہوتا ہوا چین کی سرحد یا خنجراب تک پہنچتا ہے۔ تیسرا راستہ سوات کا ہے جو آگے جا کر چترال اور پھر قراقرم ہائی وے تک جاتا ہے۔ یہ تمام علاقے قدرتی حسن و خوبصورت ماحول اور پُرفضا مقامات سے مالا مال ہیں جہاں کہیں کہیں سڑکیں بن گئیں ہیں اور ہوٹل و ٹرانسپورٹ موجود ہے۔ لیکن وہ تمام سہولتیں جو غیر ملکی سیاحوں کو چاہئیں وہ ناپید ہیں۔ کراچی میں جہاں ایک طویل ساحل سمندر ہے وہاں سیاحوں کے لیے کسی دلچسپی کا سامان موجود نہیں۔ ساحل کے ساتھ ہر جگہ واٹر اسپورٹس کی تفریح موجود ہوتی ہے، دنیا کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں جہاں ساحل سمندر ہے وہاں گزشتہ 25 سال سے طرح طرح کے واٹر اسپورٹس دستیاب ہوتے ہیں، مگر کراچی کے ساحلوں پر ایسی کوئی چیز نہیں۔ ٹرٹل بیچ پر تھوڑی بہت سہولت نظر آتی ہے، کیماڑی اور منوڑہ کا آج بھی وہی منظر ہے جو آج سے تیس سال پہلے تھا۔
سیر و سیاحت کے میدان میں دنیا کے 136 ممالک میں پاکستان کا نمبر 125 واں ہے۔ سال 2016 میں پاکستان میں 9 لاکھ سیاح سیاحت کے لیے آئے اور پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار میں سیاحت کا حصہ 2.7 فی صد ہے۔ جو موثر منصوبہ بندی، انفرا اسٹرکچر کی ترقی اور امن وامان کی بہتری سے بڑھ سکتا ہے۔ اس سلسلے میں PIA کو بھی اپنی کارکردگی بڑھانا ہوگی اور سیاحوں کی تفریح طبع کے لیے موزوں سہولتوں کی فراہمی بھی ضروری ہے۔ اس سے غریب علاقوں کی معاشی اور کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا اور غریب و مفلس آبادی کے حالات بہتر ہوسکیں گے۔