جنگ صرف طاقت کی اندھی خواہش، فتح کی بے لگام تمنا، انا اور بالاستی کے مچلتے ارمانوں اور تباہی و بربادی کا نام نہیں بلکہ دنیا کے طاقتور اور بااثر طبقات کے لیے معاش اور کاروبار کا معاملہ بن کر رہ گیا ہے۔ نیم خواندہ گورکن اور تابوت سازوں کی مقامی سطح سے ملٹی نیشنل ادویہ ساز اور جنگی ساز وسامان بنانے والی کمپنیوں کی صورت عالمی سطح تک یہ طبقہ حلقہ ہائے زنجیر کی مانند مربوط اور جڑا ہوا ہے۔ ہر جگہ اس کی حیثیت کے مطابق اس کے مفادات مختلف ہیں۔ اس طبقے کو دنیا میں دنیا میں جنگی ماحول اور جنگیں درکار ہوتی ہیں۔ یہی طبقہ دنیا میں امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی صلاحیت اور قدرت کا حامل بھی ہے۔ یہی طبقہ آبادیوں کو لڑاتا، مستحکم ریاستوں میں نسلی اور لسانی تنوع کو دشمنیوں میں بدلتا، ریاستوں میں اختلافات کو ہوا دیتا، وار لارڈز کے کلچر کو گلیمرائز کرتا ہوا آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اور حقیقت میں اپنے پوشیدہ مقاصد کے حصول کے لیے ایک مخصوص ماحول بناتا ہے۔ ہمارے پہلو میں افغانستان عرصۂ دراز سے امن مخالف کاروباری طبقات کی نظروں میں آچکا ہے۔ چار عشرے ہوگئے افغانستان امن کو ترس رہا ہے۔ ایک کے بعد جنگ کا ایک اور دور اس ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور اس ملک کے وار لارڈز جنگ باز عالمی اور علاقائی طبقات کے ہاتھ مضبوط کرتے چلے جاتے ہیں۔ انہیں اس سے غرض نہیں ہوتی کہ ان کا ملک اور ہم وطن حالات کے کس بھنور کا شکار ہے؟۔ ان کا مقصد اپنی انا کا علم بلند رکھتے ہوئے جنگی ماحول کو بنائے رکھنا ہے۔
چالیس برس کی جنگ سے افغانستان جنگ کے بازوں کے لیے سونے کی کان بن کر رہ گیا۔ ان طبقات کو اب امن کے تصور اور نام سے ہول اُٹھنے لگتے ہیں۔ پاکستان نے حالات سے یہ جان لیا ہے کہ افغانستان کے پرامن ہوئے بغیر خود وہ بھی مستقل امن کی نعمت سے مستفید نہیں ہو سکتا۔ اس لیے پاکستان اپنی ضرورت کے تحت بھی افغانستان کو امن سے آشنا کرنے کے لیے سنجیدہ ہے۔ پاکستان اس حقیقت کو پا چکا ہے کہ سی پیک جیسے منصوبے اسی صورت میں فائدہ مند ہوں گے جب خطے میں امن کا ماحول ہوگا۔ اب اچانک امریکا اور طالبان کے آمنے سامنے بیٹھنے سے افغانستان میں جنگ کی بچھی طویل بساط لپٹنے کی موہوم امید بندھ چلی ہے اور اس امید میں پاکستان کا مرکزی کردار ہے۔ پاکستان جو چالیس سال افغانستان کی خانہ جنگی اور عدم استحکام کا گواہ بھی ہے اور اس جنگ کے متاثرین میں بھی شامل ہے اب اس ملک کو حقیقی امن کی نعمت سے آشنا کرنا چاہتا ہے کیوں کہ افغانستان کی خانہ جنگی نے افغانستان کے بعد جس ملک کو متاثر کیا وہ پاکستان ہے۔ طویل مدت سے چلی آنے والی اس صورت حال سے پاکستان بھی جان چھڑانا چاہتا ہے۔
یوں لگتا ہے کہ جنگ بازوں کو امن کی روشن ہونے والی چھوٹی سی شمع کا وجود ابھی سے گوارا نہیں۔ شمالی افغانستان کے شہر مزار شریف میں پاکستانی قونصلیٹ پر حملے کی کوشش اس کا پہلا ثبوت تھا جہاں قونصلیٹ میں آنے والی ایک
عورت سے دستی بم برآمد کیا گیا۔ جس کے بعد مزارشریف کا پاکستانی قونصل خانہ غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیا۔ پاکستان نے افغان حکومت سے سفارت کاروں کے تحفظ کا مطالبہ کیا۔ ابھی مزار شریف کے قونصل خانے پر حملے کی ناکام کوشش کی گونج فضاؤں میں ہی تھی کہ بلوچستان کے علاقے لورا لائی میں ڈی آئی جی پولیس کے دفتر پر حملہ کیا گیا جس میںآٹھ اہلکاروں سمیت نو افراد شہید اور اکیس زخمی ہوئے۔ حملے کے وقت دفتر میں جونیئر کلرک اور درجہ چہارم کے ملازمین کی بھرتی کے لیے ٹیسٹ انٹرویو ہو رہے تھے۔ صوبائی وزیر داخلہ نے دعویٰ کیا کہ اس حملے میں افغانستان سے آنے والے دہشت گرد ملوث تھے۔ ان دو حملوں کے ساتھ ہی سابق ا فغان صدر حامد کرزئی کی ایجاد کردہ فوٹو اسٹیٹ مشین اپنا کام دکھانے لگی۔ صدر اشرف غنی دوحا مذاکرات میں امریکیوں اور طالبان کو ایک میز پر بیٹھے دیکھ کر جل بھن کر رہ گئے۔ حالاں کہ مذاکرات گاہ کی لابی میں افغان حکومت کا نمائندہ بھی امریکی وفد سے پیش رفت کی تفصیل جاننے کے لیے موجود تھا۔ شاید اس صورت حال میں افغان حکومت کو اپنا وجود بارہواں کھلاڑی کی طرح بے وقعت محسوس ہونے لگا کہ الزامات کی فوٹو اسٹیٹ مشین سابق صدر کرزئی کے الزامات کی کاپیاں صدر اشرف غنی کے ان بیانات کی صورت میں اُگلنے لگی کہ دہشت گردی کے مراکز سر حد پار ہیں۔ طالبان کسی اور کے مفادات کے نگہبان ہیں، امن کی کنجی پاکستان کے پاس ہے۔ یوں یہ بیانات بتا رہے تھے کہ افغان
صدر کا بیانیہ پاکستان کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے بجائے نریندر مودی سے قریب تر ہے۔ یہ پاکستان کو کبیدہ خاطر کرنے کی دانستہ کوشش ہے۔ افغان صدر یہ بھول گئے کہ امریکا نے پاکستان پر حملے کی خواہش میں سترہ برس ضائع کر دیے۔ امریکا اب افغانستان میں ڈوبتا سورج ہے وہ پاکستان پر ایک حد تک ہی دباؤ ڈال سکتا ہے۔ شاید یہی وجہ کے طالبان کے نمائندے کو پہلی بار کھل کر کہنا پڑا پروسی ملک افغانستان میں امن کا مخالف نہیں۔ یہی نہیں افغان حکمرانوں کے مزاج آشنا اور کابل میں امریکا کے سابق سفیر ریان سی کروکر نے بھی طالبان کے مطالبات کی منظوری کو امریکا کا مکمل سرینڈر قرار دیا۔
یہ سب افغانستان میں امن مخالف خودکار نظام ہے جو ماضی میں بھی امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرتا رہا ہے۔ ایک طرف پاکستان افغانستان میں امن کی گزشتہ سترہ سال کی سب سے مضبوط کوشش کر رہا ہے تو دوسری طرف افغانستان کی طرف سے پاکستان میں حملے اور پاکستان کے قونصل خانوں کو نشانہ بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان حرکتوں کا مقصد پاکستان کو کبیدہ خاطر کرنا ہے۔ یہ حرکتیں امن دوستی کے بجائے جنگ پسندی کی خواہش کی آئینہ دار ہیں۔ بھارت، بھارت نواز افغان وار لارڈز اور حکومتی افراد اور سی آئی اے کا ایک زخم خوردہ حلقہ، را کے زیر اثر افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس امن کے اوپر لٹکتی ہوئی تلوار ہیں۔ انہی عناصر اور اجزا پر مشتمل افغانستان میں امن دشمنی کا ایک خودکار نظام ہے۔ جونہی اس ملک میں امن کی سنجیدہ کوشش ہونے لگتی ہے یہ خودکار نظام حرکت میں آجاتا ہے۔