چین کے ہاتھ کون روکے گا؟

324

روس میں کمیونسٹ انقلاب کے بعد جب اس نظریے نے پیش قدمی کی اور وسطی ایشیا کی مسلمان ریاستوں پر اپنا تسلط قائم کیا تو وہاں اس کا ٹارگٹ اسلام تھا۔ کمیونسٹ انقلاب اِن ریاستوں میں پوری قوت اور سفاکی کے ساتھ اسلام پر حملہ آور ہوا۔ اذان دینے، نماز پڑھنے، روزہ رکھنے، قرآن پڑھنے، قرآن اور دیگر اسلامی کتب رکھنے اور اسلامی شعائر اختیار کرنے پر پابندی لگادی گئی اور جاسوسی کا ایک سخت گیر نظام قائم کیا گیا جس میں ہر شخص دوسرے پر شک کرنے لگا، حتیٰ کہ ایک گھر اور ایک خاندان میں بھی اعتماد کی فضا قائم نہ رہی۔ میاں بیوی پر اور بیوی میاں پر اور نوجوان بہن بھائی ایک دوسرے کو شک کی نظروں سے دیکھنے لگے لیکن ان حالات میں بھی مسلمانوں نے ہمت نہ ہاری، وہ چھپ چھپا کر قرآن بھی پڑھتے رہے اور نماز بھی ادا کرتے رہے، بلکہ قرآن منہ زبانی سینوں میں منتقل ہوتا رہا۔ مسلمانوں نے جبر و تشدد کا ہر وار سہا لیکن وہ اپنے دین سے رشتہ توڑنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ روس نے ان مسلمان ریاستوں کے اردگرد آہنی دیوار کھینچ رکھی تھی اور بیرونی دنیا ان کے حالات سے بڑی حد تک بے خبر تھی۔ ابھی انفارمیشن ٹیکنالوجی کا سیلاب بھی نہیں آیا تھا اور دنیا ابھی گلوبل ویلیج نہیں بنی تھی اس لیے روس وسط ایشیائی ریاستوں میں جو ظلم ڈھا رہا تھا اور اسلام کو جس طرح اس نے اپنے انتقام کا نشانہ بنا رکھا تھا اس پر بڑی حد تک پردہ پڑا رہا لیکن اب زمانہ بدل گیا ہے۔ یہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے، دنیا واقعی سمٹ کر عالمی گاؤں بن گئی ہے، اس کے کسی کونے میں بھی کوئی واقعہ رونما ہو پل کی پل میں پورے ’’گاؤں‘‘ کو اس کی خبر ہوجاتی ہے اور اس واقعے کی متحرک تصویریں (ویڈیوز) بھی منظرعام پر آجاتی ہیں۔ پھر اس واقعے کی تردید کرنا اور اس کے وقوعہ سے انکار کرنا آسان نہیں رہتا۔ آج کل چین کو ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے لیکن وہ بڑی ڈھٹائی سے حالات کو نیا رُخ دینے کی ناکام کوشش میں مصروف ہے۔ یہ ذکر ہے چین کے صوبے سنکیانگ کا جہاں چین کی حکومت نے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ سنکیانگ دو تین عشرے پہلے مسلمانوں کی واحد اکثریت کا صوبہ تھا جہاں 95 فی صد مسلمان آباد تھے، انہیں اویغور کہا جاتا ہے، اویغور مسلمانوں میں اپنے دین سے وابستگی کا جذبہ شدت سے پایا جاتا ہے۔ یہی وابستگی چین کی کمیونسٹ حکومت کے نزدیک ان کا جرم بن گئی اور اس نے صوبے میں مسلمان اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی منظم کوششیں شروع کردیں۔ پہلے ایک منصوبے کے تحت یہاں بڑے پیمانے پر ترقیاتی کام کیے گئے، سڑکیں پل اور بڑی بڑی عمارتیں بنائی گئیں، پھر ان عمارتوں میں چینی باشندوں کو لا کر آباد کیا گیا۔ اس طرح سنکیانگ میں اویغور مسلمانوں کی واحد اکثریت کے تصور کو ختم کردیا گیا، اب صوبے میں 55 فی صد مسلمان ہیں تو 45 فی صد چینی باشندے، چینی حکومت جس طرح مسلمانوں کا صفایا کررہی ہے اس سے یہ اندازہ کرنا بعیداز قیاس نہیں کہ یہ ترتیب جلد ہی اُلٹ جائے گی اور مسلمان معمولی اکثریت کے بجائے اقلیت میں ہوجائیں گے، اگر ان کی اقلیت بھی گوارا نہ ہوئی تو انہیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے گا اور دُنیا یہ سارا عمل خاموشی سے دیکھتی رہے گی جیسا کہ وہ اس وقت اویغور مسلمانوں پر ڈھائے گئے مظالم کو خاموشی سے دیکھ رہی ہے۔ آئی ٹی کے انقلاب نے پوری دنیا میں کوئی آہنی پردہ نہیں رہنے
دیا، چین اویغور مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ کررہا ہے وہ کھل کر پوری دنیا کے سامنے آگیا ہے، اس وقت ایسی ویڈیوز سوشل میڈیا پر عام ہیں جن میں چینی فوجی قرآن کریم کے نسخوں اور دیگر اسلامی کتب کے ڈھیر کو نذر آتش کررہے ہیں۔ ایک ویڈیو میں ایک مسلمان کو برہنہ کرکے چینی فوجی اس پر کوڑے برسا رہا ہے اور اس کی چیخیں آسمان کو لرزا رہی ہیں، جب کوڑے برسانے والا تھک جاتا ہے تو دوسرا فوجی اسے ٹھڈے مارنے لگتا ہے۔ ویڈیو میں بتایا گیا ہے کہ اس مسلمان کا قصور یہ ہے کہ وہ قرآن پڑھتا پایا گیا تھا۔ مسلمان آبادیوں پر چھاپے کے دوران جن گھروں سے قرآن، حدیث اور دیگر اسلامی کتابیں برآمد ہوتی ہیں ان کے مکینوں کو حراستی کیمپوں میں پہنچا دیا جاتا ہے جہاں اس وقت لاکھوں مسلمان قید ہیں اور ان سے جانوروں سے بدتر سلوک کیا جارہا ہے۔ البتہ چینی حکام کا کہنا ہے کہ ان مسلمانوں کی ’’ری ایجوکیشن‘‘ کی جارہی ہے اور ان کے اسلام کو چینی اقدار سے ایڈجسٹ کیا جارہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ چین دین محمدیؐ پر مبنی اسلام کو کسی صورت بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے اور اس نے سنکیانگ کے اویغور مسلمانوں کے لیے کمیونسٹ اقدار کے مطابق ’’چینی اسلام‘‘ تیار کیا ہے جسے انہیں قبول کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے، اگر وہ اسے قبول نہیں کریں گے تو ان کی زندگی کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ یوں تو دنیا کے تمام مذاہب کی اسلام کے ساتھ حریفانہ کشمکش جاری ہے لیکن ان میں خدا اور کسی نہ کسی شکل میں آخرت اور جزا و سزا کا تصور ہونے کی وجہ سے اسلام اور دیگر مذاہب کے درمیان پُرامن بقائے باہمی کا امکان باقی رہتا ہے لیکن کمیونزم ایک ایسا نظریہ (جسے آپ ’’مذہب‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں) ہے جس میں خدا کا تصور ہی سرے سے موجود نہیں ہے اور نہ ہی اس کی کوئی اخلاقی اقدار ہیں اس لیے وہ اسلام کے خلاف سراسر انتقام اور دشمنی سے بھرا ہوا ہے۔ چین میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو کچھ ہورہا ہے وہ اس نظریے کا شاخسانہ ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سنکیانگ کے مسلمانوں کے خلاف چین کے ہاتھ کون روکے گا؟ یہ کام پاکستان اور دوسرے مسلمان ممالک نہایت موثر انداز میں کرسکتے تھے کیوں کہ ان ملکوں سے چین کے بہت سے مفادات وابستہ ہیں۔ پاکستان واحد ملک ہے جس نے چین کو عالمی تنہائی سے نکالا ہے اور اب وہ سی پیک کے ذریعے چین کو پوری دنیا سے جوڑنے کا سبب بن رہا ہے لیکن پاکستان سمیت تمام مسلمان ممالک اس اسلامی حمیت سے عاری ہیں جو اویغور مسلمانوں پر ظلم و ستم سے انہیں بے چین کرسکتی ہے۔ رہی غیر مسلم دنیا، اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے تو وہ مسلمانوں کے معاملے میں پہلے ہی بے حسی کا شکار ہیں۔ پاکستان میں صرف جماعت اسلامی نے اویغور مسلمانوں کے حق میں آواز اُٹھائی ہے یا ’’جسارت‘‘ نے اس معاملے پر ادارتی نوٹ لکھا ہے۔ جسارت میں اس موضوع پر کچھ تحریریں بھی شائع ہوئی ہیں، ورنہ پورا میڈیا خواہ وہ پرنٹ ہو یا الیکٹرونک خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ چین اپنی زبردست اقتصادی قوت کے سبب نئے عالمی استعمار کا روپ دھار رہا ہے۔ پاکستان اس کے قرضوں کے جال میں بُری طرح پھنس چکا ہے اور کہا جارہا ہے کہ ان قرضوں کی شرائط منظر عام پر آئیں تو پاکستان کے ہوش اُڑ جائیں گے۔ بہرکیف یہ الگ موضوع ہے۔ اہل پاکستان کو اسلامی اخوت کے ناتے اویغور مسلمانوں کی حمایت میں بھرپور آواز اُٹھانی چاہیے تا کہ حکمران بھی چین سے اس مسئلے پر بات چیت کرنے پر مجبور ہوں۔ ورنہ ہم چین سے دوستی کا راگ الاپتے رہیں گے اور وہ سنکیانگ سے مسلمانوں کا صفایا کردے گا۔