آج کل پوری دنیا اور خاص طور پر ہمارے وطنِ عزیز اور گردوپیش کے خطے میں یہ سوال زیرِ بحث ہے کہ آیا ’’افغانستان کا مسئلہ حل ہونے کے قریب ہے‘‘۔ اس کا حقیقت پسندانہ جواب یہ ہے: ’’ہنوز دلی دور است‘‘۔ انگریزی کا محاورہ ہے: ’’There are many slips between the cup and the lips‘‘۔ کسی نے اس کا خوب ترجمہ کیا ہے: ’’ہزاروں لغزشیں حائل ہیں لب تک جام آنے میں‘‘۔ غالب نے کہا ہے:
دامِ ہر موج میں ہے حلقہء صد کام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
اگرچہ ہماری مخلصانہ دعا ہے کہ کل کے بجائے آج اور آج کے بجائے ابھی یہ مسئلہ حل ہوجائے، کیوں کہ یہ مسئلہ امریکا اور اس کے اتحادیوں اور افغانستان کے لیے جتنا اہم ہے، اتنا ہی پاکستان کے لیے اہم ہے۔ 1979 میں افغانستان میں سوویت یونین کی دراندازی سے لے کر اس کے انخلا اور پھر امریکا اور اس کے اتحادیوں کی دراندازی سے لے کر آج تک پاکستان نے اس کی بھاری قیمت چکائی ہے، دوستوں کے اعتماد کو زک پہنچائی اور جن کے لیے یہ سب کچھ کیا، اُن کی طرف سے بے اعتمادی، دھوکا دہی، منافقت اور دروغ گوئی کے طعنے ملے۔
یہ ایسا کمبل ہے، جس سے جان چھڑانا ہمارے لیے آسان نہیں ہے، ہم الگ تھلگ ہوکر گوشۂ عافیت میں بیٹھنا بھی چاہیں، تو تب بھی ہمارے لیے جائے امان نہیں ہے، کیوں کہ اس مسئلے میں افغانستان، امریکا اور اس کے اتحادیوں سمیت، روس، ایران، ہندوستان اور گردوپیش کے دیگر ممالک بھی ملوث ہیں اور اب سی پیک کی وجہ سے پرامن افغانستان چین کی بھی ضرورت ہے، کیوں کہ جب تک افغانستان میں امن قائم نہیں ہوجاتا، اس وقت تک گوادر پورٹ کو سینٹرل ایشیا کے راستے یورپ سے منسلک کرنے کے خواب کو تعبیر نہیں مل سکتی۔ گوادر پورٹ اگر منصوبے کے مطابق فعال اور متحرک ہوجاتی ہے تو اس کے دبئی کی مرکزیت پر بھی اثرات مرتب ہوں گے، لہٰذا اُن کی بھی اس پر گہری نظر ہے۔ چین کے صوبۂ سنکیانگ میں اویغور مسلمانوں کا مسئلہ بھی جہادی فکر سے جڑا ہوا ہے اور چین سمجھتا ہے کہ اگر افغانستان میں حقیقی معنی میں امن قائم ہوجائے تو پھر اس خطے میں جہادیوں کے لیے کوئی محفوظ پناہ گاہ نہیں رہے گی اور چین کی مشکلات آسان ہوجائیں گی۔
یہ درست ہے کہ امریکا سترہ سالہ جنگ، جدید سامانِ حرب اور اپنے اتحادیوں کی پوری حمایت کے باوجود افغانستان میں اپنے مقاصد پورے کرنے میں ناکام رہا، جب کہ اس عرصے میں اس کے جنگی اخراجات کا تخمینہ ٹریلینز یعنی سیکڑوں ارب ڈالر میں ہے، اب امریکا کو اس جنگ سے نکلنے کے لیے کوئی آبرومندانہ راستہ چاہیے۔ صدر ٹرمپ کی خواہش اپنی جگہ، لیکن امریکا کے انٹیلی جنس ادارے اور پینٹا گون افغانستان سے مکمل طور پر اپنے اڈے ختم کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔
تحریکِ طالبانِ افغانستان ماضی میں حامد کرزئی اور اب اشرف غنی کی حکومت کو اپنا حریف ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں، وہ انہیں امریکا کا کٹھ پتلی قرار دیتے ہیں اور یہ کہ امریکا کی آشیر باد کے بغیر ان کو افغانستان میں قرار ودوام نہیں مل سکتا اور ان کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ تحریکِ طالبانِ افغانستان کا بنیادی مطالبہ غیر ملکی قابض افواج کا انخلا ہے، کیوں کہ قانونِ بین الاقوام اور مسلّمہ جمہوری اقدارکی رو سے ان کے لیے یہاں رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے، لیکن خود امریکا کے اندر بھی افواج کے مکمل انخلا اور اپنے فوجی اڈے ختم کرنے کے حوالے سے کوئی اتفاقِ رائے موجود نہیں ہے۔
تاہم سترہ سال بعد پہلی مرتبہ امریکا کا طالبان کو اپنا حقیقی حریف مان کر چھ روز تک اُن سے براہِ راست سنجیدہ مذاکرات کرنا اور کسی حد تک انہیں خوش آئند قرار دینا، یہ طالبان کی بہت بڑی کامیابی ہے، کیوں کہ ماضی میں امریکا طالبان کو صرف ایک دہشت گرد گروپ قرار دیتا رہا ہے، مگر اب وہ انہیں مسئلۂ افغانستان کا اصل اسٹیک ہولڈر ماننے کے لیے عملاً آمادہ ہوگیا ہے، یہ امریکا کی طرف سے اپنے سابق موقف میں لچک اور جھکاؤ کا واضح ثبوت ہے۔ بھارت اور ایران اس صورتِ حال پر متفکر اور جِزبِز ہوں گے اور وہ بھی اپنے مہرے تیار کرنے اور نئی چالیں چلنے کے لیے کوئی نہ کوئی منصوبہ بندی یقیناًکر رہے ہوں گے۔ روس کی بھی خواہش ہوگی کہ امریکا افغانستان میں اُس جیسے انجام سے دوچار ہو اور اس حوالے سے امریکا کی برتری کا تاثّر ختم ہوجائے، لہٰذا اُس کا بھی طالبان سے یقیناًکسی نہ کسی سطح پر رابطہ ہوگا اور کوئی بعید نہیں کہ وہ انہیں کسی نہ کسی طریقے سے سامانِ حرب بھی فراہم کرتا ہو، چین بھی طالبان کے ساتھ روابط قائم کیے ہوئے ہے، کیوں کہ اب اس خطے میں اُس کے اقتصادی مفادات اور مستقبل کے امکانات بہت زیادہ ہیں، لہٰذا وہ بھی اپنے آپ کو ایک اہم اسٹیک ہولڈر سمجھتا ہے۔ لیکن اُسے جنگ میں مبتلا افغانستان کے بجائے ایک پر امن افغانستان زیادہ مطلوب ہے، اُسے سینٹرل ایشیا اور آگے روس اور یورپ تک پر امن تجارتی راہداری درکار ہے، وہ اُس پورے خطے کو اپنی تجارتی منڈی بنانا چاہتا ہے۔ اس وقت چین جدید سائنس اور ٹیکنالوجی میں ارتقا کے مرحلے سے گزر رہا ہے، وہ اپنے آپ کو فضاؤں میں اور عالمی سمندروں میں امریکا کے مقابل فوجی قوت بنانے میں مصروف ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے آپ کو ایک برتر عالمی اقتصادی قوت بھی بنارہا ہے، کیوں کہ سوویت یونین کے زوال سے اُس نے یہ سبق حاصل کیا کہ اقتصادی قوت کے بغیر محض سامانِ حرب کے بل پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔
امریکا کی خواہش ہے کہ اگلے مرحلے میں طالبان اشرف غنی حکومت کے ساتھ بھی براہِ راست مذاکرات کریں، افغانستان کے واحد اسٹیک ہولڈر نہ بنیں، بلکہ آئین وقانون یعنی امریکا کے قائم کردہ نظمِ اجتماعی اور ہیئتِ مقتدرہ کو تسلیم کرتے ہوئے اُس میں حصہ بقدرِ جُثّہ کے مطابق حصے دار بنیں۔ اس مطالبے پر اترنا طالبان کے لیے آسان نہیں ہے، کیوں کہ اس صورت میں انہیں اپنی بالادستی اور برتر حیثیت کو قربان کرنا پڑے گا اور یہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف طویل جنگ کے مقاصد اور جواز کی نفی کے مترادف ہوگا۔ حزبِ اسلامی کے سربراہ انجینئر گلبدین حکمت یار نے یہی حکمتِ عملی اختیار کی، لیکن ظاہر ہے کہ اب اُن کی وہ حیثیت نہیں ہے، امریکا تحریکِ طالبان کو افغانستان کا بالادست اسٹیک ہولڈر اور اپنا حریف ماننے پر مجبور ہوگیا ہے، اُس نے گلبدین حکمت یار کو یہ حیثیت کبھی نہیں دی، جنابِ حکمت یار اشرف غنی حکومت کے ساتھ براہِ راست معاہدہ کر کے افغانستان میں منظر عام پر آئے اور اب آنے والے ممکنہ صدارتی انتخابات میں اُن کی حیثیت کا تعین ہوگا، جبکہ طالبان شاید ہی اُن کے دستوری ڈھانچے کو قبول کرنے پر آمادہ ہوں، اُن کا موقف یہ ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان سے نکل جائیں، بعد میں افغانوں کے تمام فریق اپنے معاملات کو خود طے کریں۔
ہمارے ہاں کے صحافتی و دانشور حلقے اور تجزیہ نگار تحریکِ طالبانِ افغانستان کی حقیقی قوت کا ادراک کرنے میں شاید غلط فہمی کا شکار ہیں، کیوں کہ اُن کے نزدیک یہ ایک مذہبی طبقہ ہے اور یہ ملک کو ماضی کی طرف لے جانا چاہتے ہیں، یہ قدامت پسند اور دقیانوسی ہیں، یہ جدید عہد کے ساتھ چلنے کے اہل نہیں ہیں۔ اُن کی خدمت میں گزارش ہے کہ اگرچہ طالبان کی قیادت علماء کے پاس رہی ہے، لیکن اس کے اثرات پورے معاشرے پر محیط ہیں، اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ایک پختون اسلامک موومنٹ ہے، جس میں تقریباً سارے پشتون قبائل شامل ہیں اور یہ اُن کی قومی آزادی کی تحریک ہے۔ یہی سبب ہے کہ انہیں وسیع پیمانے پر مقامی آبادی کی حمایت حاصل ہوتی ہے، وہ انہیں محفوظ پناہ گاہیں بھی فراہم کرتے ہیں اور شاید ان کی ضروریات بھی پوری کرتے ہیں۔ نیز یہ تیر و کمان اور تلوار سے جنگ نہیں کر رہے، بلکہ جدید سامانِ حرب سے دنیا کی جدید ترین حربی طاقت کا مقابلہ کر رہے ہیں، ان کے پاس جدید اسلحے کو استعمال کرنے کی تکنیک بھی ہے۔ امریکا کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنے جدید ترین حساس سیٹلائٹ کیمروں کے ذریعے زمین پر چند سینٹی میٹر کی چیز کو بھی تلاش کرلیتے ہیں، لیکن اس کے باوجود طالبان ایسی جنگی چالیں اور تدابیر اختیار کرنے میں کامیاب ہیں کہ اُن سے بچ بچا کر اپنے ہدف کو نشانہ بنا لیتے ہیں۔ نیز جنگِ افغانستان نے ثابت کیا ہے کہ جدید سائنسی اسلحہ وتکنیک بہت کچھ ہے، لیکن سب کچھ نہیں ہے اور بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی یہ جذبۂ قربانی کا متبادل نہیں ہے۔
گوریلا جنگ لڑنے والوں کی برتری کا مدار ہی اس پر ہے کہ وہ آمنے سامنے کی میدانی جنگ نہیں لڑتے کہ میدانِ جنگ میں آر یا پار کی طرح فتح وشکست کا فیصلہ ہوجائے، اس جنگ میں پہل کا موقع اُن کے پاس ہوتا ہے، وہی ڈرائیونگ سیٹ پر ہوتے ہیں، وہ اپنی سہولت کے مطابق اپنے ہدف کا تعیّن کرتے ہیں، اُس کے لیے موقع ومحل کی مناسبت سے تیاری کرکے اچانک حملہ آور ہوجاتے ہیں، گویا یہ دشمن کو تھکا تھکا کر مارتے ہیں، یہ بھاری جانی قیمت بھی چکاتے ہیں، جب کہ دشمن کے لیے یہی سب سے مشکل کام ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادی زیادہ سے زیادہ موت سے ڈرا سکتے ہیں، لیکن جو لوگ موت کو اپنی آرزو بنا لیں، انہیں کس چیز سے ڈرائیں گے۔ قرآنِ کریم نے موت کے خوف کو ہی بنی اسرائیل کی سب سے بڑی کمزوری قرار دیا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (اے رسول!) کہہ دیجیے! اگر دارِ آخرت دوسرے لوگوں کے بجائے خالص تمہارے لیے ہے، تو اگر اپنے اس دعوے میں تم سچے ہو تو موت کی تمنا کرو، اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے، وہ اپنے پچھلے کرتوتوں کے سبب ہرگز موت کی تمنا نہیں کریں گے، اور آپ انہیں ضرور سب لوگوں اور مشرکوں سے بھی زندگی کازیادہ حریص پائیں گے، ان میں سے ہر ایک کی آرزو ہے : ’’کاش کہ وہ ہزار سال تک جیے‘‘ اور یہ (ہزار سالہ زندگی) بھی انہیں عذاب سے نہیں بچا سکے گی اور اللہ اُن کے تمام کرتوتوں کو خوب دیکھ رہا ہے، (البقرہ: 94-96)‘‘۔ اسی مضمون کو سورۂ جمعہ آیات: 6تا 8 میں بھی بیان کیا گیا ہے۔