میڈیا کو کنٹرول کرنے کی چالیں !

234

صحافت، پرنٹ میڈیا کی ہو یا الیکٹرونک میڈیا کی دونوں ہی پر حملے ہورہے ہیں۔ دس بیس افراد کی بات تو پرانی ہوئی اب تو سیکڑوں افراد کو بیک جنبشِ قلم فارغ کیا جارہا ہے۔ حکومت تو پہلے ہی ’’سونامی‘‘ سے ’’متاثر‘‘ ہے۔ اسے متاثرین میڈیا سے کیا غرض ہوگی۔ دل چاہتا ہے کہ چِلّا کر کہوں کہ ’’چَلا نہیں سکتے تو نکالتے کیوں ہو؟‘‘۔ سوال یہی ہے کہ جب چینل اور اخبارات چلانے کی صلاحیت اور ہمت نہیں ہے آخر انہیں کیوں شروع کیا جاتا ہے۔ بات بول بچن تک تھی مگر اب تو ’’چل چلاؤ‘‘ تک پہنچ چکی ہے۔
موجودہ حکومت کے بارے میں تاثر ہے کہ یہ اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور جمہوریت کا آملیٹ ہے۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ یہ تو حکومت نہیں بلکہ ’’گڑ بڑ گھٹالا‘‘ ہے جس کا مرکز بنی گالا ہے۔ بیک وقت صحافت اور صحافیوں پر ’’ڈرون‘‘ حملے شاید پہلی بار کیے جارہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حملہ آور غیر نہیں اپنے ہیں۔ یہ وہی اپنے ہیں جب 1999 اور 2000 تک اخبارات میں مالی بحران کا رونا روتے ہوئے ٹی چینلز شروع کرچکے تھے۔ میرے ہم پیشہ دوست تو اس قدر مایوس ہوگئے کہ انہوں نے ’’ہٹو بچو‘‘ کی بازگشت میں صحافت ہی کو خیرباد کہہ دیا۔ یہ ذکر صرف اخگر انور، نعیم طاہر اور اختر شاہین رند، ساجد عزیز ہی کا نہیں بلکہ بہت سے اور دوسروں کے حوالے سے کررہا ہوں۔ اختر شاہین کا کہنا ہے کہ الیکٹرونک میڈیا کے بحران کا بانی تو ’’بول‘‘ ہے مگر اندازہ نہیں تھا کہ یہ بحران پھیل کر کم و بیش چار ہزار صحافیوں کو اپنے دائرے سے دور کردے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس جاری معاشی بحران کے نتائج اچھے نہیں لگ رہے۔ میرا خیال ہے کہ اس بحران سے پریشان حال با صلاحیت صحافی تو بہت احتیاط سے ’’سوشل میڈیا‘‘ کی طرف رخ کرگئے ہیں۔ صحافت ہی کرنی ہے تو یہ بہت اچھا ذریعہ ہے۔ نامور صحافی طلعت حسین پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کا تجربہ رکھنے کے باوجود آج یوٹیوب کے ذریعے اپنا چینل چلا رہے ہیں تو اس کی وجہ بھی صحافت کا بحران ہے۔
میں نو سال سے فالج کا مریض ہوں لیکن الحمدللہ میں برسر روزگار ہوں، میں سمجھتا ہوں کہ ’’بیروزگاری‘‘ سب سے بڑی بیماری ہوتی ہے شاید فالج سے بھی بڑی۔۔۔ اللہ کسی کو بھی کسی بیماری میں مبتلا نہ کرے آمین۔ موجودہ حکومت کے اقتدار میں آتے ہی صحافت کو کنٹرول کرنے کے جو چالیں چلی جارہی ہیں وہ کسی طور پر قابل برداشت نہیں ہوسکتیں۔ وزیراعظم عمران خان اور ان کے مشیران کو سوچنا چاہیے کہ کسی بھی ملک کی ترقی اور استحکام کے لیے آزاد صحافت یا میڈیا کا بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کو الیکٹرونک میڈیا کو ملک میں فروغ دینے کا کریڈٹ دیا جاتا اور دیا جانا بھی چاہیے۔ ٹی وی چینل اور ویب سائٹس کے آنے سے جس قدر روزگار کے نئے ذرائع پیدا ہوئے تھے، ایسا لگتا ہے کہ اب ان ذرائع کو ختم کرنے کے لیے منظم سازش کا آغاز کردیا گیا ہے۔ اس سازش سے کسی چینل اور اخبارات کے مالکان کو ذاتی طور پر کوئی نقصان نہیں ہورہا بلکہ انہیں فائدہ پہنچایا جارہا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ کسی مالک نے ذاتی استعمال کی گاڑیاں پرانی گاڑیوں سے تبدیل کی ہیں اور نہ ہی کوئی گاڑی فروخت کی ہے۔ کسی میڈیا مالک کے طرز زندگی میں رتی برابر بھی فرق نہیں آیا ہے۔ جو دبئی میں تھا وہ وہاں مزید آگے بڑھ چکا ہے۔ اگر نقصان ہوا ہے تو اخبارات اور چینل کے غریب اور محنت کش ملازمین کا۔ ممتاز صحافی طلعت حسین کا کہنا ہے کہ ’’اس وقت میڈیا کے اندر جو بحران نظر آرہا ہے اس کا مرکز اور ہدف مالکان نہیں ہیں بلکہ خاموش ورکرز ہیں جن کی نوکریاں جا رہی ہیں، اگرچہ اس سے چلاتے ہوئے مالکان نظر آتے ہیں، آنے والے دنوں میں یہی میڈیا مالکان ہوں گے انہیں آسائشیں فراہم کی جائیں گی‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ میڈیا ورکرز کی بیروزگاری اس صنعت کے لیے بڑا سانحہ ہے۔ یہ اس وقت مالکان کے گلے پڑے گا جب مالکان کو ورکرز کی ضرورت ہوگی جب انہیں صحافتی اصولوں کے علم بردار بننے کی ضرورت ہوگی تو اس وقت یہی ورکرز دور کھڑے ہوکر مالکان کی پریشانیوں کا تماشا دیکھ رہے ہوں گے۔ طلعت حسین کا کہنا ہے کہ میڈیا مالکان کو اس وقت سے ڈرنا ہوگا اور کارکنوں کی چھانٹی کا سلسلہ بند کرنا ہوگا کیوں کہ اس عمل سے انہیں ہی مستقبل قریب میں شدید نقصان ہوسکتا ہے۔
ادھر پیر سے کراچی کی تمام صحافی تنظیموں اور کراچی پریس کلب کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے تحت میڈیا ہاؤس سے جبری برطرفیوں، تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور کٹوتی کے خلاف کراچی پریس کلب میں مستقل احتجاجی کیمپ لگایا جارہا ہے جہاں برطرف ملازمین کے کوائف جمع کرنے کے لیے پریس کلب میں ہیلپ ڈیسک قائم کی گئی ہے جبکہ بدھ 6 فروری کو نوائے وقت اور آج ٹی وی کے باہر احتجاجی کیمپ قائم اور دھرنا دیا جائے گا۔ صحافی اور میڈیا ورکرز کی یہ خوش فہمی ہے کہ اس طرح کے احتجاج سے ان کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ اللہ کرے ایسا ہی کچھ ہو۔ صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے رہنماؤں کو چاہیے کہ احتجاجی کیمپوں کے ساتھ بیروزگار ہونے والے افراد کی فوری مدد کے لیے بھی ’’کچھ نہ کچھ کریں‘‘ تاکہ اس سے ان کے خلوص کا ثبوت بھی مل سکے۔