پاکستان میں 20 لاکھ مرگی کے مریضوں کیلئے مہنگا علاج بڑا مسئلہ ہے، نیورولوجی اویرنس اینڈ ریسرچ فاﺅنڈیشن (نارف) کے زیر اہتمام کراچی پریس کلب میں منعقد مرگی (ایپی لیپسی) کے بین الاقوامی دن کے موقع پر ڈاکٹر محمد واسع شاکر، ڈاکٹر عبدالمالک اور ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی پریس کانفرنس

521
مرگی کے عالمی دن کے موقع پر ماہر امراض دماغ ڈاکٹر محمد واسع شاکر، ڈاکٹر عبدالمالک اور ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں

کراچی (اسٹاف رپورٹر) پاکستان میں 20 لاکھ مرگی کے مریضوں کو تکلیف دہ سماجی مسائل کا سامنا کرتا پڑتا ہے، مہنگی ادویات علاج میں تاخیر کا سبب اور متاثرہ مریض کے لواحقین کے لیے اضافی مالی بوجھ کا سبب بنتی ہیں، اس بیماری کے بارے میں ہمارے معاشرے میں موجود شدید توہمات سے مرگی کا مریض متاثر ہوتا ہے، یہ بیماری خواتین کو طلاق اورشادی کے لیے رشتوں سے انکار کا سبب بنتی ہے، مرگی کے مریض کی شادی یا علیحدگی دونوں صورتوں میں معاشرے پر مزید بوجھ پیدا کر رہی ہیں، ادویات میں سبسڈی کی منصوبہ بندی فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ ان خیالات کا اظہار دماغی امراض کے ماہرین نے نیورولوجی اویئرنیس اینڈ ریسرچ فاﺅنڈیشن (نارف) کے زیراہتمام کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ پریس کانفرنس کا مقصد ڈاکٹروں اور عوام کو مرگی (ایپی لیپسی) کے مرض سے متعلق آگاہی اور ان میں اس مرض کے متعلق توہمات کا خاتمہ کرنا ہے۔ آگاہی سیمینار سے نیورولوجی اویئرنیس اینڈ ریسرچ فاﺅنڈیشن (نارف) کے صدر پروفیسر محمد واسع شاکر، ماہر امراض مرگی اور نیورولوجسٹ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور ڈاکٹر عبدالمالک نے خطاب کیا۔

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نام ور ماہر امراض دماغ پروفیسر ڈاکٹر محمد واسع شاکر نے کہا کہ پاکستان میں مرگی کی شرح زیادہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہاں انفیکشن زیادہ ہیں، ٹی بی، ٹائی فائیڈ، گردن توڑ بخار اس کی اہم وجوہ ہیں جب کہ سر میں چوٹ، دماغ کے اندر انفیکشن، شوگر اور بلڈ پریشر، مختلف نمکیات کے کم یا زیادہ ہونے اور الکحل کے استعمال سے بھی مرگی کا مرض ہوتا ہے، یہ مرض ابتدائی عمر جوانی اور50 سال کے بعد بھی ہو سکتا ہے، بچپن میں انفیکشن یا آکسیجن کی کمی سے بھی یہ ہوتا ہے، 50 سال کے بعد مرگی ہونے کی اہم وجہ ہائی بلڈ پریشر، شوگر اور برین ٹیومر ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرگی ایک کم زور اعصابی بیماری ہے اس کے علاج کے لیے متعدد خرافات و افسانوی باتوں کو ترک کرنا انتہائی ضروری ہے، اس مرض میں مریض کے شعور میں اچانک کمی کی وجہ سے شدید جھٹکے لگتے ہیں اور جسم سخت ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں مرگی کے مریضوں کی تعداد ایک فی صد جب کہ پاکستان میں دو فی صد ہے۔ یہ مرض30سال سے کم عمر کے لوگوں میں پایا جاتا ہے، یہ مرض دیہی علاقوں میں زیادہ پایا جاتا ہے جس کا ثبوت27.5 فی صد دیہی اور2.9 فی صد شہری علاقوں میں مرگی کے مرض کا پایا جانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرگی ایک بیماری ہے جو قابل علاج ہے جس کے علاج کے لیے ڈاکٹر کے پاس جانا ضروری ہے۔ ڈاکٹر محمد واسع شاکر نے کہا کہ اس ضمن میں حکومت کی بے حسی اہم ہے کہ جہاں اتنے بڑے پیمانے پر لوگ بیمار ہیں یا مر رہے ہیں (کیوں کہ یہ بیماری مہلک بھی ثابت ہوسکتی ہے) اور حکومت کی طرف سے کوئی اقدام نہیں کیا گیا، جتنے اقدامات متعلقہ سوسائٹیز نے تجویز کیے کہ پاکستان میں اس بیماری کو روکنے کے لیے کیا اقدامات ہونے چاہئیں، ان پر عمل نہیں ہوسکا، اہم بات یہ ہے کہ اس طرح کی تجاویز دیگر ممالک میں نافذ ہو چکی ہیں، جن میں انڈیا، بنگلہ دیش اور سری لنکا بھی شامل ہیں، ان ممالک میں تو اس بیماری کے لیے باقاعدہ سرکاری سطح پر ٹاسک فورس قائم کی جا چکی ہیں جس میں اس بات کا اہتمام کیا جاتا ہے کہ بیماری کو روکنے کی کوشش کی جائے گی لیکن پاکستان میں چوں کہ وفاقی سطح پر وزارت صحت عملاً فنکشنل نہیں ہے، اس لیے کوئی اقدامات بھی نہیں کیے گئے ہیں۔

ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کہا کہ ہماری قوم میں شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ مرگی کا علاج ممکن ہے اور وزارت صحت کو اس مہم میں کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ اس مرض کے مریضوں کو علاج اور ادویات کی سہولتیں مہیا کی جا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ مرگی پاکستان میں ایک عام طبی مسئلہ ہے، زیادہ متاثر دیہی آبادی ہے، دست یاب اعداد و شمار کی بنیاد پر1.5تا 2 ملین افراد پاکستان میں مرگی کا شکار ہیں، اندازہ لگایا گیا ہے کہ ہمارے ملک میں مرگی کے شکار مریضوں کے ساتھ لوگوں کی اکثریت ناکافی یا نامناسب سلوک کرتی ہے، ہمارے ملک میں مرگی کے48200 مریضوں کے لیے صرف ایک نیورو لوجسٹ دست یاب ہے جو مرگی کے علاج کو اور بھی سخت بنا دیتا ہے، مرگی کی شکار نوجوان خواتین سے شادی نہیں کی جاتی کیوں کہ اسے بدنامی تصور کیا جاتا ہے اور بچوں کو اسکول سے نکال لیا جاتا ہے جو سماجی تنہائی اور ڈپریشن کا باعث بنتا ہے جب کہ یہ قابل علاج مرض ہے اور70 فی صد مریضوں میں مکمل صحت یابی کے ساتھ علاج ممکن ہے۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے ذرائع ابلاغ پر زور دیا کہ زندگی کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے بیداری مہم پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کریں۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کہا کہ اس مرض کے بارے میں جامع تحقیقات ہو چکی ہیں اور تمام ماہرین دماغ و اعصاب اس مرض کو قابل علاج قرار دے چکے ہیں، اس لیے ہماری بھی ذمے داری ہے کہ ہم اس حوالے سے آگاہی و شعور پھیلائیں تاکہ ایک صحت مند معاشرہ تشکیل دیا جاسکے، اس کے ساتھ ساتھ جب یہ آگاہی پیدا ہو تو اس کے نتیجے میں ایسے اقدامات کیے جائیں کہ جس میں اس بیماری کی شرح کو قابو کیا جا سکے جو بیماری بڑھ رہی ہے اس کو روکا جا سکے اور جن کو یہ بیماری ہے ان کا علاج کیا جا سکے۔ نیورولوجی اویرنس اینڈ ریسرچ فاونڈیشن کی جانب سے پاکستان میں اس مرض کی ماہر ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے اس حوالے سے قومی گائڈ لائنز برائے مرگی بھی تیار کی ہیں جو کہ ملک بھر کے تمام جنرل پریکٹیشنرز کو اس مرض کے علاج میں ہر لحاظ سے معاونت کے لیے تیار کی گئی ہیں۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے نیورولوجی اویرنس اینڈ ریسرچ فاونڈیشن (نارف) کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عبدالمالک نے کہا کہ نارف کے تحت گزشتہ دس سال سے مرگی کے علاج اور آگاہی سے متعلق ملک بھر میں مختلف مواقع پر آگاہی کے پروگرامات منعقد کیے جاتے رہے ہیں تاکہ اس معاشرے کو اس مرض کے متعلق آگاہی دے کر اس مرض پر قابو پانے میں مدد کی جا سکے جس سے وہ اس معاشرے کا ایک کار آمد فرد بن سکتا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت مرگی کی ادویات میں سبسڈی دے تاکہ ادویات اور تشخیص کی قیمتیں کم اور مریضوں کی پہنچ میں ہوں اور وہ اپنا اور اپنے پیاروں کا بروقت علاج کروا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کے کرنے کا کام یہ ہے کہ مریضوں کے لیے مرگی کی دوائیاں دست یاب ہونی چاہئیں۔ کبھی کوئی دوا کم یاب ہے کبھی کوئی، ایک مریض کو اگر دوا میسر نہ ہو تو اس کا سارا توازن بگڑ جاتا ہے، دو، تین سال دورے کنٹرول میں رہتے ہیں پھر دوبارہ شروع ہو جاتے ہیں، اس لیے کہ دوا مارکیٹ سے غائب ہو جاتی ہے، یہ ذمے داری ہے چاہے وہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی ہو یا حکومت، انہیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ جو زندگی بچانے والی ادویات ہیں وہ بآسانی دست یاب ہوں، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مرگی کے مریضوں کا نہ صرف علاج کیا جائے بلکہ ان کی ووکیشنل ٹریننگ کر کے معاشرے کا ایک کار آمد فرد بنایا جائے جو اپنی نجی زندگی کے ساتھ ملک کی بہتری میں بھی اپنا کردار ادا کرسکیں۔

ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خانزادہ نے کہا کہ ہمارے ہاں پاکستان میں لوگ اس بیماری کو لاعلاج سمجھ کر مایوس ہو جاتے ہیں لیکن اس مرض کا شکار دنیا بھر میں خود ڈاکٹرز حضرات بھی ہیں، کئی تو پی ایچ ڈیز ہیں، انجینئرز ہیں، فیکٹریوں میں کام کرنے والے ہیں، طلبہ ہیں، گھر میں رہنے والی خواتین ہیں جو بچے پالتی ہیں، یہ سب اس مرض کے ہوتے ہوئے نارمل زندگی گزار رہے ہیں، صرف اس لیے کہ ادویات کے استعمال سے انہوں نے مرگی کی بیماری کو قابو کر رکھا ہے۔