عام انتخابات کے بعد نو منتخب حکومت کو قائم ہوئے ابھی چھ ماہ ہی ہوئے ہیں عموماً روایت یہی رہی ہے کہ نصف مدت گزرجانے کے بعد اپوزیشن اور پارلیمنٹ سے باہر بیٹھی سیاسی جماعتیں متحرک ہوتی ہیں لیکن ایسی کیا بات ہوگئی ہے کہ پیپلزپارٹی کے شریک سربراہ آصف علی زرداری نے حکومت گرانے کے لیے میڈیا سے مدد مانگ لی ہے۔ کہتے ہیں کہ حکومت گرانے کے لیے ہمارے کندھے سے کندھا ملائیں تو ہم آپ کا ساتھ دیں گے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جواب دیا کہ صحافیوں کا کام حکومت گرانا نہیں، صحافت کو ریاست کا چوتھا کہا جاتا ہے یا سمجھا جاتا ہے، پاکستان چوں کہ ایک جمہوری ملک ہے یہاں عوام کی مرضی سے کوئی سیاسی جماعت یا اتحاد حکومت میں آسکتا ہے پاکستانی میڈیا بھی جمہوریت کا حامی سمجھا جاتا ہے‘ میڈیا میں بہت کم ہیں جو دوسری رائے رکھتے ہیں لیکن کبھی کسی بھی میڈیا کے نمائندے یا گروپ نے کوئی ایسا دعویٰ نہیں کیا اور نہ ایسا کوئی ٹریک ریکارڈ موجود ہے کہ کسی میڈیا گروپ نے حکومت گرائی ہو یا بنائی ہو، البتہ رائے عامہ کی تشکیل میں ذرائع ابلاغ کا ایک کردار ہے اور یہ کردار اب بھی ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ ہوسکتا ہے کہ کبھی اسے کوئی اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنے میں کامیاب رہا ہو‘ لیکن اس کے باوجود میڈیا کی کبھی یہ جنگ نہیں رہی کہ ایک گروہ کو ہٹا کر کسی دوسرے کے لیے کندھا دیا جائے‘ ویسے بھی پیپلزپارٹی اور میڈیا کے تعلقات کی کہانی کے خاکے میں رنگ بھرنا ہو تو بات ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے شروع کرنا ہوگی‘ جب مدیر گرفتار کیے گئے‘ اداریے سنسر کیے جاتے رہے، مخالف رائے رکھنے اور پسند کا اداریہ نہ لکھنے پر جیل، قید اور پولیس، ایف ایس ایف کے ذریعے اذیتیں دی جاتی تھیں۔ بہت سے اخبار نویس تو آج بھی زندہ ہیں جنہیں نوکریوں سے نکالنے کے لیے مالکان پر دباؤ ڈالا گیا اور تیسرے دور حکومت میں مسعود شریف کے ذریعے گھروں کے ٹیلی فون ٹیپ کیے جاتے رہے۔ جسارت کے ایڈیٹر صلاح الدین مرحوم‘ مجیب الرحمن شامی‘ آغا شورش کاشمیری‘ اور دیگر بہت سے معتبر نام ہیں‘ جنہیں جیل بھی جانا پڑا اور اذیتیں بھی دی گئیں اب میڈیا سے کہا جارہا ہے کہ حکومت گرانے کے لیے کندھا دیا جائے‘ نا بابا ناں‘ ہم لنڈورے ہی بھلے۔
پیپلزپارٹی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے‘ سندھ کی سیاسی قوت بھی ہے، اسے سندھیوں کی نمائندہ جماعت ہونے کا بھی زعم ہے، لیکن آج تک سندھ کے لیے اس نے کیا کیا؟ صوبے میں تعلیم، صحت عامہ کے لیے کیا کچھ کیا؟، ہاریوں کی زندگیوں میں کہاں انقلاب لاسکی ہے۔ سندھ تو جعلی بینک اکاؤنٹس کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے‘ یہ وہی اکاؤنٹس ہیں جن کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی۔ حسین لوائی اور انور مجید تو بے چارے استعمال ہوئے، پیسہ تو گھوم گھوم کر ایک ہی شخصیت تک پہنچا ہے، حیرت ہے آصف علی زرداری نے میڈیا سے مدد مانگی ہے۔ حکومت بدلنے کے لیے سب سے بڑا جادو گر تو رحمن ملک کی صورت میں ان کے اپنے ہاتھ میں ہے، ان کی خدمات کیوں نہیں لی جاتیں ایسا جادو گر کہ پوری پیپلزپارٹی ایک جانب کھڑی ہے اور پارٹی میں رحمن ملک بالکل تنہا‘ لیکن پھر بھی آصف علی زرداری کے لیے قابل قبول ہیں۔ میڈیا سے مدد مانگنے کے بجائے ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں کے مصداق رحمن ملک سے مدد مانگی جائے تو کچھ فائدہ بھی ہوسکتا ہے سابق صدر، صحافیوں کو ایسا مشورہ نہ دیں، جسے بحیثیت مجموعی باضمیر صحافی ماننا تو رہا ایک طرفہ سننا بھی گوارا نہیں کرے گا، یہ کام رحمن ملک سے ہی لیا جائے تو بہتر نتائج مل سکتے ہیں کیوں کہ تقریباً تمام تر مشکلات کے باوجود صحافت اور سیاست کا بھلا اسی میں ہے کہ صحافت فریق نہ بنے۔
ہاں مگر اہل سیاست اور اہل اقتدار کو بھی سوچنا چاہیے کہ اپوزیشن میڈیا سے کوئی مدد مانگ رہی ہے تحریک انصاف کو بھی اس بات کا ادراک کرلینا چاہیے کہ عوام نے اپنے ان مسائل سے نجات اور اپنے اقتصادی حالات میں بہتری کے لیے عمران خان کو ووٹ دیا اب وہ حقیقی معنوں میں یہاں ریاست مدینہ قائم کریں ریاست مدینہ کا تصور یہی ہے کہ اس میں شہریوں کو تمام بنیادی سہولتیں فراہم کرنا اور انہیں جان و مال کا تحفظ فراہم کرنا ریاست کی ذمے داری ہوگی اور ہر قسم کے معاشی و اقتصادی استیصال کا خاتمہ کیا جائے گا آئین و قانون کی حکمرانی، میرٹ اور انصاف کی عمل داری ہوگی، اقرباپروری کا خاتمہ ہوگا۔ حکمران اشرافیہ طبقات کی عیاشیاں اور اللے تللے ختم کیے جائیں گے۔ ریاست کے ہر شہری کو قانون کی نظر میں مساوی حیثیت حاصل ہوگی اور کاروبار و روزگار کے مساوی مواقع میسر ہوں گے اس تناظر میں حکومت خود جائزہ لے کہ عوام کی فلاح کے لیے حکومت اب تک کیا کچھ کرسکی ہے۔ قومی معیشت‘ زرمبادلہ کے ذخائر اور گردشی قرضے کہاں سے کہاں تک جاپہنچے ہیں جب پی ٹی آئی کے اقتدار کا آغاز ہوا تو عوام اس کے انقلابی منشور کے باعث اپنے تئیں خوش اور مطمئن تھے کہ اب ملکی معیشت کو سابق حکمرانوں کی پیدا کردہ خرابیوں سے نجات مل جائیگی اور ان کے روٹی روزگار سمیت تمام مسائل بتدریج حل ہونا شروع ہو جائیں گے۔ تاہم پی ٹی آئی کے اقتدار کے آغاز ہی میں پٹرولیم، بجلی، گیس کے نرخوں میں اضافے اور منی بجٹ میں عائد کیے گئے نئے ٹیکسوں کے باعث مہنگائی کے نئے سونامی اٹھنا شروع ہوگئے جسے ڈالر کی بڑھتی شرح نے بھی مہمیز لگائی چنانچہ مہنگائی سے پہلے ہی عاجز آئے عوام عملاً زندہ درگور ہوگئے برادر مسلم ممالک سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ قطر اور سال ہا سال کے بے لوث دوست چین کی جانب سے حکومت کے لیے بیل آؤٹ پیکیج کے باوجود بہتری نظر نہیں آرہی عوام میں اپنے غربت، مہنگائی، بے روزگاری کے مسائل کے حل کے حوالے سے مایوسی بڑھ رہی ہے تشویش و اضطراب کی اس فضا میں وفاقی کابینہ نے حج پر سبسڈی واپس لینے کا بھی فیصلہ کرلیا جس سے حج کے اخراجات میں ایک لاکھ 76 ہزار روپے تک کا اضافہ ہوگیا ہے۔ اس سے عازمین حج اور حج کی سعادت حاصل کرنے کے خواہش مند ملک کے ہر مسلمان شہری کو جھٹکا لگا ہے ابھی چھ ماہ ہی گزرے ہیں کہ عوام وزیراعظم عمران خان کے رومانس سے باہر نکلتے نظر آرہے ہیں۔