بالآخر وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ عدالت عظمیٰ نے ملعونہ آسیہ بی بی کی رہائی کے خلاف نظرثانی کی درخواست مسترد کردی۔ چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ گواہوں نے حلف پر غلط بیانی کی۔ گواہوں کے بیانات میں واضح تضادات ہیں۔ اگر عام مقدمہ ہوتا تو گواہوں کو سزا دیتے۔ انہوں نے کہا کہ اگر جرم کے دوران وکیل سوال نہ پوچھے تو کیا ملزم کو پھانسی لگادیں۔ درخواست گزار قاری اسلام کے وکیل نے کہا کہ مسئلہ اُمت مسلمہ کا ہے عدالت علما کو معاونت کے لیے طلب کرے اور لارجر بینچ تشکیل دے۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ لارجر بینچ کا کیس بنتا تو لارجر بینچ ضرور بنتا۔
پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے رسول اکرمؐ کی ناموس کے تحفظ کا ’’بوجھ‘‘ اُٹھانے سے صاف انکار کردیا ہے۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا مگر پاکستان کو اسلامی جمہوریہ قرار دلانے کے لیے علما اور مذہبی جماعتوں کو طویل اور صبر آزما جدوجہد کرنی پڑی۔ حالاں کہ پاکستان کو پہلے دن ہی سے اسلامی جمہوریہ پاکستان قرار دیا جانا چاہیے تھا۔ قائد اعظم صاف لفظوں میں کہہ چکے تھے کہ پاکستان کا آئین قرآن ہوگا اور پاکستان ’’Premier Islamic State‘‘ ہوگا۔ قائد اعظم نے ایک اور جگہ فرمایا کہ پاکستان ہماری ایک تجربہ گاہ ہوگا اور ہم دنیا کو دکھائیں گے کہ 13 سو برس پرانے اسلامی اصول آج بھی کارآمد ہیں۔ (پاکستان ٹائمز۔ 15 جنوری1948) قائد اعظم کے دست راست اور پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے راولپنڈی میں کہا تھا کہ پاکستان کا آئندہ دستور قرآن مجید کے احکامات پر مبنی ہوگا۔ (پاکستان ٹائمز۔ 17 اپریل 1948) لیکن پاکستان کے حکمران طبقے نے ملک و قوم کو 1973 میں جا کر ایک اسلامی آئین فراہم کیا۔ بدقسمتی سے پاکستان کے حکمرانوں نے 1973 سے آج تک اسلام کو 1973 کے آئین سے نکلنے نہیں دیا۔ کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ سوشلسٹ آئین رکھنے والے سوویت یونین میں معیشت غیر سوشلسٹ یا سرمایہ دارانہ ہو سکتی تھی۔ مگر اسلامی آئین رکھنے والے پاکستان میں معیشت سود پر کھڑی ہے اور سود کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ سود اللہ اور اس کے رسولؐ کے خلاف جنگ ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ پاکستان کے فوجی اور سول حکمران عملاً اللہ اور اس کے رسولؐ کے خلاف جنگ کررہے ہیں۔ ملک کا آئین اسلامی ہے مگر ہمارے پورے تعلیمی نظام میں کہیں اسلام موجود نہیں۔ ہمارا آئین اسلامی ہے مگر ہمارے ذرائع ابلاغ عریانی و فحاشی سے بھرے ہوئے ہیں۔ ان تمام باتوں کا مطلب بھی یہی ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے نے معیشت، تعلیم اور ذرائع ابلاغ میں اسلام کا ’’بوجھ‘‘ اُٹھانے سے صاف انکار کردیا ہے۔ اس تناظر میں اگر عدالت عظمیٰ نے رسول اکرمؐ کی ناموس پر حملہ کرنے والی عورت کو آزاد کردیا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ عدالت عظمیٰ نے رسول اکرمؐ کی ناموس کے تحفظ کا ’’بوجھ‘‘ اُٹھانے سے انکار کردیا ہے۔
عیسائی دنیا اسلام اور پیغمبر اسلام کی توہین کی طویل تاریخ رکھتی ہے۔ اس حوالے سے عیسائی دنیا کی تاریخ جرائم پیشہ افراد کی تاریخ ہے۔ بدقسمتی سے ان جرائم پیشہ افراد میں عیسائیوں کی سب سے بڑی شخصیت ’’پوپ‘‘ تک ملوث رہی ہے۔ اربن دوم 1095 میں عیسائیوں کا پوپ تھا۔ اس نے ایک گرجا میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اسلام معاذاللہ ایک شیطانی مذہب ہے اور عیسائیوں کا فرض ہے کہ وہ اس شیطانی مذہب اور اس کے ماننے والوں کو صفحہ ہستی سے مٹادیں۔ پوپ اربن نے اس ’’نیک کام‘‘ کے لیے یورپی اقوام سے ایک ’’صلیبی جھنڈے‘‘ کے نیچے جمع ہونے کی اپیل کی۔ یہ اپیل موثر ثابت ہوئی اور 1099 میں تمام عیسائی اقوام اور تمام عیسائی ملک ایک صلیبی جھنڈے کے نیچے جمع ہوئے اور ان صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا جو دو سو سال جاری رہیں۔ اس سانحے کے تقریباً ایک ہزار سال بعد ایک اور پوپ جس کا نام بینی ڈکٹ شش دہم تھا 2009 میں آگے آیا اور اس نے کہا کہ کوئی مجھے بتائے کہ محمدؐ کیا نیا لائے ہیں سوائے اس کے کہ انہوں نے اپنی تعلیمات کو تلوار کے زور سے آگے بڑھایا۔ یہ وہی پوپ ہے جس نے 2009 میں ملعونہ آسیہ کی ہر ممکن حمایت کی اور اس کی رہائی کے لیے مہم چلائی۔ اگر عیسائیت کی تاریخ کی سب سے بڑی شخصیتیں یہ سب کچھ کرسکتی ہیں تو ملعونہ آسیہ مسیح سے اس کی توقع کیوں نہیں کی جاسکتی؟۔
اہم بات یہ ہے کہ آسیہ کا مقدمہ ماتحت عدالت میں چلا اور مکمل آزادی کے ساتھ چلا۔ ماتحت عدالت نے آسیہ کو توہین رسالت کا مرتکب قرار دیا اور کہا کہ اسے پھانسی دی جانی چاہیے۔ یہاں سے آسیہ کا کیس لاہور ہائی کورٹ گیا اور لاہور ہائی کورٹ میں ملعونہ آسیہ کو اپنے دفاع کے تمام مواقعے فراہم کیے گئے مگر یہاں بھی آسیہ اپنا دفاع نہ کرسکی اور لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیتے ہوئے ملعونہ آسیہ کو توہین رسالت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے قرار دیا کہ وہ واقعتاً سزائے موت کی مستحق ہے۔
یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ آج سے ایک سال پہلے یورپی یونین کی ویب سائٹ پر ایک خبر نمودار ہوئی۔ خبر میں دھمکی دی گئی تھی کہ اگر پاکستان نے آسیہ مسیح کو رہا نہ کیا تو پاکستان ٹیکسٹائل کی درآمدات پر محصول لگادیا جائے گا۔ خبر میں ’’اطلاع‘‘ دی گئی تھی کہ چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے یورپی یونین کو یقین دلایا ہے کہ وہ جلد ہی آسیہ کے مقدمے کا فیصلہ کرائیں گے۔ بس یہاں سے مسئلہ پیدا ہوا اور عدالت عظمیٰ کو آسیہ اچانک ’’مظلوم‘‘ نظر آنے لگی اور بالآخر عدالت عظمیٰ نے آسیہ کو رہا کردیا۔ اب عدالت عظمیٰ نے اس کی رہائی کے خلاف نظرثانی کی درخواست کو مسترد کردیا ہے اور کہا کہ عدالت عظمیٰ کو آسیہ کے خلاف شہادت دینے والوں کی گواہیوں میں ’’تضادات‘‘ نظر آئے ہیں اور اس کے نزدیک گواہوں نے حلف پر جھوٹ بولا ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے ججوں کا ’’ضمیر‘‘ بھی بیدار ہے اور ان کی ’’نظر‘‘ بھی بہت تیز ہے۔ اتنی تیز کہ وہ گواہوں کے باطن میں اُتر کر دیکھ لیتی ہے کہ انہوں نے جھوٹی گواہیاں دی ہیں۔ لیکن عدالت عظمیٰ میں ’’ضمیر‘‘ اور ’’نظر‘‘ کی صورتِ حال کیا ہے یہ بات عدالت عظمیٰ کی تاریخ سے صاف ظاہر ہے۔ سپریم کورٹ کی شرمناک تاریخ یہ ہے کہ اس نے ایک بار نہیں تین بار فوجی آمروں کے غیر آئینی اقدامات کو تحفظ مہیا کیا ہے۔ ان تینوں موقعوں پر نہ عدالت عظمیٰ کا ضمیر بیدار ہوا نہ اسے یہ نظر آیا کہ فوجی آمروں کے اقدامات آئین سے کتنے متصادم ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف چلنے والا مقدمہ جنرل ضیا کا انتقام تھا مگر اس موقع پر بھی نہ عدالت عظمیٰ کا ضمیر بیدار ہوا نہ اسے ذوالفقار علی بھٹو کی مظلومیت نظر آئی نہ اسے یہ گمان گزرا کہ اس مقدمے کے گواہان جھوٹی گواہیاں دے رہے ہیں۔ ہر صاحب علم کو معلوم ہے کہ میاں نواز شریف نے عدالت عظمیٰ کے ججوں کی وفاداریاں خریدیں مگر اس مرحلے پر بھی عدالت عظمیٰ کے ضمیر کا سراغ لگانا ممکن نہیں۔ چلیے ماضی کے قصوں کو رہنے دیجیے۔ لاپتا افراد کا مقدمہ برسوں سے عدالت عظمیٰ میں موجود ہے۔ ملک کے خفیہ ادارے ایک بار لاپتا افراد کو عدالت عظمیٰ میں پیش کرکے ثابت کرچکے ہیں کہ لاپتا افراد انہی کے پاس ہیں۔ مگر اس حوالے سے بھی نہ کبھی عدالت عظمیٰ کا ضمیر جاگا اور نہ اس کو ہزاروں لاپتا افراد اور ان کے لاکھوں متعلقین کی ’’مظلومیت‘‘ دکھائی دی۔ اصغر خان کیس کا شرمناک تجربہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ اس کیس میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل درانی حلفیہ بیان دے چکے ہیں کہ انہوں نے اس وقت کے آرمی چیف کے کہنے پر سیاست دانوں اور صحافیوں میں کروڑوں روپے تقسیم کیے، مگر عدالت عظمیٰ نے ابھی تک اس مقدمے میں نہ ابھی اپنے ضمیر کو آشکار کیا اور نہ اسے اس حوالے سے قوم کی مظلومیت نظر آئی۔ مگر توہین رسالت کی مرتکب ملعونہ آسیہ کے حوالے سے عدالت عظمیٰ کا ضمیر پوری طرح بیدار ہے اور اسے آسیہ کی مظلومیت صاف نظر آرہی ہے۔ عدالت عظمیٰ کے ’’ضمیر‘‘ اور ’’شعور مظلومیت‘‘ کے لیے تالیاں۔
توہین رسالت کا مسئلہ کتنا سنگین ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید صاف کہتا ہے کہ اپنی آوازوں کو رسول اکرمؐ کی آوازوں سے بلند نہ کرو، کیوں کہ ایسا نہ ہو کہ تمہارے سارے اعمال ضائع ہوجائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔ ظاہری معیارات کے اعتبار سے دیکھا جائے تو رسول اکرمؐ کی آواز سے اپنی آواز کو بلند کرنے میں بے ادبی تو ہے توہین نہیں ہے مگر اللہ کے نزدیک یہ بھی اتنا بڑا جرم ہے کہ مسلمانوں کے سارے اعمال ضائع ہوسکتے تھے۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ رسول اکرمؐ کی بے ادبی اتنی سنگین چیز ہے تو آپؐ کی توہین کتنی بڑی بات ہوگی۔ عہد رسالتؐ کا یہ واقعہ بھی مشہور ہے کہ آپؐ کے دور میں ایک مسلمان اور ایک یہودی میں جھگڑا ہوگیا۔ یہودی اپنا مقدمہ لے کر حضور اکرمؐ کے پاس پہنچا۔ آپؐ نے یہودی کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ مسلمان منافق تھا اس نے دل سے رسول اکرمؐ کا فیصلہ قبول نہ کیا۔ اسے خیال آیا کہ سیدنا عمرؓ یہودیوں کے لیے سخت ہیں شاید وہ میرے حق میں فیصلہ کریں۔ چناں چہ وہ شخص یہودی کے سیدنا حضرت عمرؓ کے پاس پہنچا۔ سیدنا عمرؓ نے پوچھا تم لوگ اس سے پہلے بھی کسی کے پاس گئے ہو؟ مسلمان نے کہا کہ ہاں ہم رسول اکرمؐ کے پاس گئے تھے اور آپؐ نے یہ فیصلہ دیا۔ سیدنا عمرؓ نے یہ سنا، گھر کے اندر گئے، لوٹے تو ان کے ہاتھ میں تلوار تھی۔ انہوں نے ایک ہی وار میں منافق مسلمان کا سر قلم کردیا۔ بظاہر اس مسلمان نے لفظوں سے توہین رسالت کاانکار نہیں کیا تھا مگر نبی کے فیصلے کے بعد کسی اور مسلمان سے فیصلے طلب کرنا آپؐ کے فیصلے کا ارتکاب کرنا تھا۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر رسول اکرمؐ کے فیصلے پر فیصلے طلب کرنا ہولناک بات ہے تو آپؐ کی توہین کتنی بڑی بات ہوگی۔ مگر پاکستان کا حکمران طبقہ اور عدالت عظمیٰ یہ بات سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کوئی شخص توہین عدالت کرتا ہے تو اسے توہین عدالت کی سزا دی جاتی ہے۔ الطاف حسین نے جرنیلوں کی توہین کی تو ان کی سیاست پر پابندی لگادی گئی، لیکن توہین رسالت پاکستان میں اتنی ’’معمولی بات‘‘ ہے کہ آج تک توہین رسالت کے کسی مجرم کو سزا نہیں دی جاسکی ہے۔ ملعونہ آسیہ کو سزا ہوئی تو عدالت عظمیٰ نے اسے باعزت بری کردیا ہے۔ اس طرزِ عمل کے ذریعے پاکستان کا حکمران طبقہ معاشرے کو بہت خوفناک پیغام دے رہا ہے۔ وہ قوم سے کہہ رہا ہے کہ اگر تمہارے سامنے کوئی توہین رسالت کا ارتکاب کرے تو ملک کے قانون اور ملک کے نظام انصاف پر بھروسا نہ کرو۔ تم خود بھی کچھ کرسکتے ہو کر ڈالو۔