تھری ڈی پرنٹنگ کو ٹیکنالوجی کی دنیا میں انقلاب کہا جاتا ہے۔ مختلف دھاتوں سے تیار کردہ مصنوعی دانت ہوں یا سونے کے زیورات، ان کا بنانے والا کوئی انسان نہیں بلکہ ایک تھری ڈی پرنٹر ہوتا ہے۔کہتے ہیں کہ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے ترقی پذیر ریاستیں بھی یکدم تین عشرے آگے آ سکتی ہیں۔
مصنوعی اعضا:
اُردن میں اعضا سے محروم ہونے والے شامی اور عراقی مہاجرین کے لیے مصنوعی اعضا کی پروڈکشن جاری ہے۔ ان اعضا کی تیاری میں تھری ڈی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ طبی امداد فراہم کرنے والی غیرسرکاری تنظیم ڈاکٹرز ودآوTٹ بارڈرز اُردن میں مقیم ایسے شامی اور عراقی مہاجرین کو مصنوعی اعضا فراہم کررہے ہیں160جو اپنے اپنے ملکوں کے جنگی حالات کے دوران معذور ہو چکے ہیں۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ تھری ڈی ٹیکنالوجی نے انسانی جسم کے اوپری دھڑ کے بعض اعضا کی مصنوعی پروڈکشن میں خاصی مدد کی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے استعمال سے ایک عضو کو مصنوعی طور پر تیار کرنے کی لاگت میں بھی خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔ مصنوعی طور پر اعضا کی پروڈکشن میں پروستھین کا استعمال کیا گیا ہے۔
طیارہ:
برلن میں160بین الاقوامی ائر شو میں ایک ایسا جہاز نمائش کے لیے پیش کیا گیا، جو تھری ڈی پرنٹر کا شاہ کار ہے۔ گزشتہ برس منظر عام پر لایا جانے والا یہ ہوائی جہاز یورپی طیارہ ساز کمپنی ائر بس نے تیار کیا ہے۔ اِس کا نام تھور ہے۔ جہاز نے نمائش میں ہر شخص کی توجہ حاصل کی۔ ائر بس کے منی ہوائی جہاز کا وزن محض 21 کلوگرام یا 45 پاوTنڈ ہے۔ یہ بغیر پائلٹ کے پرواز کرنے والا ڈرون 4میٹر یا 13فیٹ لمبا ہے۔ اِس میں کوئی کھڑکی نہیں رکھی گئی ہے۔ طیارہ ساز کمپنی نے ابھی اِس کو سفید رنگ سے تیار کیا ہے۔
دفتر:
تھری ڈی یا سہ جہتی پرنٹر سے مختلف مشینوں کے پرزے اور یہاں تک کہ موٹر کار تک پرنٹ کی جا چکی ہے۔ مگر اب اس شعبے میں ایک اور حیران کُن پیشرفت سامنے آئی ہے اور وہ ہے تھری ڈی پرنٹر سے تعمیر شدہ مکمل کام کرتا ہوا دفتر۔ دبئی میں ایک ایسے دفتر نے باقاعدہ کام شروع کر دیا ہے جو مکمل طور پر تھری ڈی پرنٹر کے ذریعے تیار کیا گیا ہے۔ یہ دنیا کا پہلا ایسا کام کرتا ہوا دفتر ہے جو اس ٹیکنالوجی کے ذریعے تیار کیا گیا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہ پیشرفت دراصل اس خلیجی سیاحت اور کاروباری حب میں اس ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کی کوششوں کا حصہ ہے جو کم قیمت بھی ہے اور وقت کو بھی بچاتی ہے۔
بسکٹ:
جرمن شہر میونخ میں بیکری مصنوعات کے میلے میں ایسے تھری ڈی پرنٹر بھی مرکز نگاہ تھے جن کے ذریعے کھانے کی مختلف رنگا رنگ چیزیں 25پرنٹ24 کی جا سکتی ہیں۔ تھری ڈی پرنٹر سے عینک کا فریم بنانا یا چائے کافی کی پیالی بنانا تو اب کوئی نئی بات نہیں رہ گئی یہاں تک کہ چین میں160تو اس ٹیکنالوجی کے ذریعے چھوٹے پل بھی بنانا شروع کردیے گئے ہیں تاہم نیا یہ ہے کہ اب اس طرح کے پرنٹر کے اندر سے آلو کا ملیدہ یا پھر بسکٹ بھی برآمد ہو سکتے ہیں۔ آلو کے ملیدے سے بنا ہوا کوئی آکٹوپس، کلیجی کے ساسیج سے تیار کیا ہوا کوئی پھول یا پھر چاکلیٹ سے بنی کوئی کشتی یہ سب آپ کھا سکتے ہیں۔