چین کی آمرانہ سرمایہ داری اور مغربی جمہوریت 

301

امریکا نے چین پر الزام عاید کیا ہے کہ وہ آمرانہ سرمایہ داری کو مقبول بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکی خفیہ ادارے کی عالمی خطرات کے جائزے پر مبنی رپورٹ میں ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جنس ڈان کوٹس نے کہا ہے کہ امریکا کو سپر پاورز کی مسابقت میں اب چین کی نظریاتی جنگ کا بھی سامنا ہے۔ رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ چین عالمی سطح پر آمرانہ سرمایہ کاری کو مقبول بنانے کی کوشش کر رہا ہے جب کہ یہ مغرب کی آزاد جمہوریت کے منافی ہے۔ یہ رپورٹ محض ایک رپورٹ نہیں ہے بلکہ ٹھیٹھ امریکی اور مغربی طریقہ واردات کے مطابق اس رپورٹ کے ساتھ مبصرین کا من چاہا تبصرہ بھی شامل کیا گیا ہے اور اِسے ایک ایسا رنگ دینے کی کوشش کی گئی ہے جو امریکا کے مستقبل کے عزائم میں معاون و مددگار ثابت ہوں۔ اس رپورٹ میں چین کو امریکا کا نظریاتی مخالف قرار دیا گیا ہے اور پہلے ہی سے بتا دیا گیا ہے کہ اس کے نتیجے میں امریکا کے چین مخالف موقف میں شدت پیدا ہونے کا قوی امکان ہے۔ چین جو کچھ کر رہا ہے وہ کوئی نظریہ نہیں ہے وہ عالمی معیشت پر زیادہ سے زیادہ کنٹرول کی کوشش ہے اور یہ کوشش اور اس پر عمل امریکا بھی کرتا ہے۔ برطانیہ اور سوویت یونین بھی کرتے رہے ہیں، جرمنی اور فرانس نے بھی یہی کام کیا ہے۔ یہ کوئی نظریہ نہیں لیکن مستقبل میں چین کے خلاف سرد جنگ کے میدان دوسرے تیسرے ممالک میں سجانے کے لیے ایسی رپورٹ پیش کی گئی ہے تاکہ دنیا بھر میں نظریاتی جنگ کے نام پر امریکی ٹانگ پھنسانے کا جواز موجود رہے۔ اسے چین مخالف موقف میں شدت قرار دیا گیا ہے۔ یہ ابتدائی رپورٹ امریکی ریکارڈ کا حصہ رہے گی اور کسی بھی وقت حسب ضرورت استعمال کی جا سکے گی اس کا کوئی دوسرا حصہ بھی ہو گا جو بعد میں جاری کیا جائے گا۔
اس رپورٹ کو منتخب کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ سارا ڈراما مغربی سرمایہ داروں ہی کا ہے۔ سرمایہ داری کو وہ آمرانہ سرمایہ داری کہہ رہے ہیں دوسری شاید جمہوری سرمایہ داری ہو گی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکا میں بھی یہی نظام نافذ ہے جس کے خطرے سے ان کا ڈائریکٹر انٹیلی جنس آگاہ کر رہا ہے۔ اگر آمرانہ سرمایہ داری کہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی سرمایہ داری جو آمریت کے ذریعے مسلط کی جائے۔ لیکن دنیا میں جہاں جہاں نام نہاد مغربی جمہوریت نافذ ہے اس کے ذریعے سرمایہ داری کو آمرانہ طریقے ہی سے مسلط کیا جاتا ہے۔ ایسے حالات پیدا کیے جاتے ہیں کہ لوگ اس سرمایہ داری کو قبول کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ چین جو کچھ کر رہا ہے وہی امریکا نے بھی کیا۔ عالمی بینک اور آئی ایم ایف کی مدد سے دنیا کو قرض کے جال میں جکڑا پھر ان ممالک میں حکومتوں کی تبدیلی اور اپنے پسندیدہ قوانین کا نفاذ کرنے کی کوشش۔ اب چین یہی کام کر رہا ہے اس کا قرضوں کا دینا جال ہے، چین ترقیاتی منصوبوں کے ساتھ مختلف ممالک میں داخل ہو رہا ہے اِسے امریکا کے لیے چیلنج کہا جارہا ہے۔ دراصل کام ایک ہی ہے راستے مختلف ہیں۔ امریکیوں نے جنگ اور بارود کا راستہ اختیار کیا اور طاقت سے آمرانہ سرمایہ داری مسلط کی۔ جب کہ چین کا یہ اصول رہا ہے کہ پیسہ پھینک تماشا دیکھ۔ چنانچہ دنیا کا کوئی بھی ملک ہو وہ وہاں ترقیاتی منصوبے لے کر پہنچتا ہے بھاری قرضوں کا بوجھ ان ملکوں پر لادتا ہے۔ اس کے لیے کرپٹ حکمرانوں کی جیب گرم کرتا ہے اور وہی عالمی آمرانہ سرمایہ داری مسلط کرتا ہے۔ اب تک امریکا اقتدار کی رسہ کشی میں شدت لا کر تبدیلیاں کراتا تھا اب یہ کام چین کرے گا۔
جہاں تک آمرانہ سرمایہ داری اور مغرب کا آزاد جمہوریت کی اصطلاحات کا ذکر ہے دراصل یہ دونوں ہی ایک ہیں۔ اس کی مثال امریکا میں یوں ہے کہ امریکیوں کی بڑی اکثریت کو ایک مخصوص حد سے زیادہ کمانے کے مواقع ہی نہیں دیے جاتے۔ یہ نام نہاد آزاد مغربی جمہوریت چلانے والے بڑی خوبصورتی سے نظام کنٹرول کرتے ہیں۔ رہائش اور ملازمت کی جگہ کے درمیان طویل فاصلہ ہوتا ہے۔ ایک معمولی تنخواہ والا امریکی 8 یا 9 بجے کی ملازمت پر پہنچنے کے لیے چھ بجے گھر سے نکلتا ہے۔ اس کے پاس موجود گاڑی اس کام کے لیے استعمال نہیں کی جا سکتی۔ اور آنے جانے میں اس کی تنخواہ ختم ہو جائے۔ چنانچہ وہ ٹرین کا سہارا لیتا ہے اس کے لیے اسے بھاگم بھاگ اسٹیشن پہنچنا ہوتا ہے۔ سات بجے تک اسٹیشن پہنچ کر اگلے چند منٹ میں اپنی مطلوب ٹرین میں بیٹھتا ہے پھر گھر سے لایا ہوا برگر یا اسٹیشن سے خریدی ہوئی کافی کے گھونٹ لیتا ہوا اپنی بقیہ نیند پوری کرتا ہوا اپنے دفتر پہنچتا ہے۔ سارا دن اس آزاد جمہوری سرمایہ داری کی خدمت کرتا ہے اور شام کو چار یا پانچ بجے اور کہیں خاص حالات میں 6 بجے نکلتا ہے اور گھر پہنچتے پہنچتے تباہ حال ہو چکا ہوتا ہے۔ فریج سے فریز کیا ہوا برگر نکالتا ہے کافی بناتا ہے، امریکی اسٹائل میں کپڑے بدلتا ہے اور بستر پر دراز ہو کر ٹی وی کھولتا ہے۔ اس حالت میں کھا پی کر تھوڑی دیر فٹبال یا رگبی یا کشتی دیکھتے ہوئے سو جاتا ہے۔ درمیان میں کوئی منصوبہ بند ’’بڑی‘‘ خبر دیکھ لیتا ہے کہ مسلمان دہشت گردوں نے دھماکا کر دیا۔ ایک گالی مسلمانوں کو دیتا ہے اور اگلی صبح آزاد مغربی جمہوریت کی خدمت کے لیے جانے کی خاطر سو جاتا ہے۔ ایسے امریکی 50 سے 70 فی صد ہیں۔ دس فی صد کوٹ پتلون ٹائی والے ہیں۔ دس فی صد کے لگ بھگ ڈاکٹر وغیرہ ہیں یا پھر بزنس کرنے والے ہیں۔ دو تین فی صد کو چھوٹ دی گئی ہے کہ وہ بل گیٹس بنیں، زگر برگ اسٹیو جاب بنیں اور انہیں بھی ایک حد تک مال بنانے کی اجازت ہوتی ہے۔ ان سے ٹیکس کا پیسہ آزاد مغربی جمہوریت کا آمرانہ نظام مختلف منصوبوں پر خرچ کراتا ہے۔ یہ ہے آزاد مغربی جمہوریت۔ اسے ہم امریکا میں دفتر خارجہ کے دورے پر مغربی جمہوری کمیونزم قرار دے کر آئے تھے۔ برا تو منایا تھا انہوں نے۔۔۔ لیکن بات تو یہی ٹھیک ہے۔
اب چین کیا کر رہا ہے اور اس کے کیا مضر اثرات ہوں گے اس پر سب کو غور کرنا چاہیے۔ خصوصاً امریکا، برطانیہ اور سوویت یونین کے تجربات کی روشنی میں دیکھیں اور چین کے نظریات کو دیکھیں تو زیادہ خوفناک تصویر سامنے آتی ہے۔ امریکا تو اپنے مقاصد کے لیے اسے نظریات کہہ رہا ہے لیکن چین کا نظریہ تو یہ ہے کہ دنیا میں کوئی مذہب نہیں وہ سب سے پہلے حملہ مذہب پر کرے گا۔ یہ کیسے ہو گا اس کے آثار ابھی سے نظر آرہے ہیں۔ 56 ارب ڈالر کے تحفظ کے لیے من پسند حکمران تو درکار ہیں اگر 50 کروڑ ڈالر اس کام پر خرچ کر دیں جس کو چاہیں حکمران بنا لیں۔ یہ بات پاکستان کے تناظر میں بہت اہم ہے یہاں اب تک امریکی عمل دخل تھا جو اسلام سے مخالفت کے باوجود ہر مسلک فرقے اور سوچ کو زندہ رکھتے ہیں تاکہ ضرورت کے وقت استعمال کیا جا سکے لیکن چین کا آمرانہ سرمایہ داری نظام مذہب بیزار ہے اور اسے پاکستان میں ایسے موزوں حکمران مل گئے ہیں جن کا اس سے دور کا بھی علاقہ نہیں۔ فی الحال تو جیسے تیسے ڈیڑھ دو درجن لوگ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں مذہبی پارٹیوں کے پہنچ گئے ہیں۔ نئی آمرانہ سرمایہ داری میں یہ تعداد بھی برداشت نہیں کی جائے گی۔ یہ سوچنے کی بات اسلامی تحریکوں کے لیے بھی ہے اور دین کا درد رکھنے والوں کے لیے بھی۔