صحت کارڈ! ہنسیے نہیں صرف مسکرائیے 

255

صاحبو! روئے سخن عمران خان کی طرف ہو تو اسٹیبلشمنٹ کا منہ کالا۔ ایک شعر یاد آگیا ہے بس وہ عرض کرنا ہے۔
میری داستان حسرت کو سنا سنا کے روئے
مجھے آزمانے والے مجھے آزما کے روئے
آزمانے والوں ہی کا نہیں عوام کا بھی یہی حال ہے۔ لوگ پہلے آرزو مند تھے ’’پیپلز پارٹی کی حکومت ہو‘‘۔ پھر اصرار کرنے لگے ’’نواز شریف کی حکومت ہو‘‘۔ اس کے بعد بولے ’’عمران خان کی حکومت ہو‘‘۔ اب صرف اتنا کہتے ہیں ’’حکومت ہو‘‘۔ ایک دھوبن نے اپنے محبوب کو لکھا جب تم بارش میں بھیگ جاؤ گے میں تمہیں نچوڑ نچوڑ کے سوکھنے ڈال دوں گی۔ چھ ماہ تک پٹخ پٹخ کر دھلائی کرنے کے بعد عمران خان کی حکومت نے بھی عوام کو سہولت دینے کی کوشش کی ہے۔ بیمار پڑ کر مرنے کی سہولت۔ بھوک، بیماری اور تجاوزات کی زد میں آنے کے بعد بے روزگاری کے سبب جو بھی حال ہو لیکن اب حکومت عوام کو طبعی موت مرنے نہیں دے گی۔ کسی اسپتال ہی سے جنازہ اٹھوا کر دم لے گی۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے پڑوسی کے بھوک اور فاقے سے بے خبر رہنا لیکن اس کی بیوی پر نظر رکھنا۔ وہ کنجوس جو 59پیسے کم ہونے کے باوجود ٹنکی فل نہیں کرواتے تھے اب ہیلتھ کارڈ سے بچ کے دکھائیں۔ بڑی ہی ناشکری قوم ہے حج کرائے میں ڈیڑھ لاکھ کا اضافہ نظر آگیا پٹرول کی قیمتوں میں 59پیسے کی کمی نظر نہیں آتی۔ کوئی یہ نہیں سوچتا خرچہ زیادہ ہوگا تو ثواب بھی زیادہ ہوگا۔ ایک صاحب رات کو جب بھی گھر آتے تو دیکھتے ان کی ماں سلائی مشین پر کچھ سی رہی ہے۔ ماں کہتی ’’پتر سوئی میں دھاگا تو ڈال دے‘‘ اور یہ ڈال دیتے۔ ایک مرتبہ تنگ آکر انہوں نے پوچھ ہی لیا ’’اماں یہ کیا جب بھی رات کو گھر آتا ہوں تم مجھے سوئی میں دھاگا ڈالنے کے لیے کہتی ہو۔ تم آخر کیا سیتی ہو‘‘۔ ماں نے کہا ’’پتر کچھ بھی نہیں سیتی میں تو تیرا ٹیسٹ لیتی ہو اتنی رات کو نشہ کرکے تو نہیں آیا‘‘۔ ہیلتھ انشورنس کارڈ سے ایک بات تو یقینی ہے کہ حکومت نشے میں نہیں ہے۔ نہ بیوی کے نہ کوکین کے۔
پہلے حکومت غریبوں کے علاج معالجے کے لیے اسپتال بنواتی تھی اب کارڈ جاری کرتی ہے۔ تاش کے نہیں صحت کے انصاف کارڈ۔ ایک مس نے بچے سے کہا ’’کل رپورٹ کارڈ پر اپنے پاپا سے سائن کرواکے لانا ورنہ رزلٹ فیس بک پر ڈال کر تمہارے پاپا کو ٹیگ کردوں گی‘‘۔ زمانہ نیا، دھمکی نئی۔ اہل پاکستان کا مزاج یہ ہے کہ میڈیکل رپورٹ ٹھیک آنے پر الحمد للہ کہنے کے بجائے کہتے ہیں ’’ایویں ڈاکٹر نے پیسے ضائع کرادتے‘‘۔ تحریک انصاف کی حکومت نے لوگوں کی برسوں کی یہ عادت چھ مہینے ہی میں چھڑوانے کا تہیہ کرلیا ہے۔ ہیلتھ انشورنس کارڈ کی صورت میں۔ اس اسکیم کے تحت ایک شہری نجی اور سرکاری اسپتال میں ہیلتھ انشورنس کارڈ کے ذریعے علاج کرواسکے گا۔ انشورنس کمپنیوں کو پریمیم حکومت ادا کرے گی۔ اب لوگوں کو پیسے ضائع ہونے پر افسوس نہیں ہوگا۔ ان کا رویہ وہی ہوگا جو باپ کمائی پر ہوتا ہے بلکہ اس سے بھی سوا۔ پرانی فلموں میں زہر اتنا غیر معیاری ہوتا تھا کہ پوری بوتل پی لینے کے باوجود بھی ہیروئن پورا گانا گا لیتی تھی۔ اب اسپتال بھی مریضوں کا یہی حال کریں گے۔ کیسا ہی سریع الاثر زہر پی کر دیکھ لیں ڈاکٹر مرنے نہیں دیں گے۔ ان کی روٹی ہی نہیں سالن اور پریمیم کا سوال ہوگا۔ ہر وہ شخص جس کی ناک بہتی ہو یا منہ سے لعاب نکلتا ہو درویش بننے کے بجائے مریض بننا پسند کرے گا۔ سیانے کہتے ہیں ڈپریشن ہوتو خیرات کرنی چاہیے۔ لگتا ہے حکومت ڈپریشن میں ہے لیکن اس خیرات کا پیسہ انشورنس کمپنیوں اور پرائیوٹ اسپتالوں کی جیب میں جائے گا۔ یہ کرپشن کی ایک نئی قسم ہوگی جو کرپشن سے پاک حکومت متعارف کروارہی ہے۔ اب اسپتال میں مرنے کا عمل گھر میں مرنے سے کہیں زیادہ طویل ہوگا۔ ہم نے ہمزاد سے کہا بھئی اب تمہیں ہمارا خیال رکھنے کی ضرورت نہیں۔ حکومت نے ہیلتھ انشورنس کارڈ جاری کردیا ہے۔ بولا ’’اونہہ ہیلتھ انشورنس کارڈ! حکومت کا حال بھی ان لڑکوں جیسا ہے جن کے پاس سموسے کھانے کے پیسے نہیں ہوتے اور مونچھیں ایسی رکھتے ہیں جیسے کسی ریاست کے راجکمار ہوں‘‘۔
ایک مہینے میں ایک کروڑ ہیلتھ انشورنس کارڈ کا اجرا۔ اب عوام یہ نہ کہہ سکیں گے ’’اٹھ گئی دنیا سے راہ ورسم یاری ہائے ہائے‘‘ لیکن سوال یہ ہے کہ ایک مہینے میں حکومت ایک کروڑ ’’جینوئن‘‘ مریض کہاں سے لائے گی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پورے ملک میں صحت کے اسٹرکچر کو تبدیل کیا جاتا۔ بڑے اور معیاری اسپتال بنائے جاتے لیکن چوں کہ ’’اس میں ہوتی ہے محنت زیادہ‘‘ لہٰذا حکومت نے عوام کی صحت کے مسئلے کو پرائیوٹ اسپتالوں اور انشورنس کمپنیوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا۔
اسے کہو جو بلاتا ہے گہرے پانی میں
کنارے سے بندھی کشتی کا مسئلہ سمجھے
حکومت کا ہر کام اور ہر کھیل مغربی ہے۔ حکومت آنکھیں بند کرکے امریکی سرمایہ دارانہ نمونے پر عمل کررہی ہے جس کی ناکامی کی خود امریکا میں دہائی دی جارہی ہے۔ 2007 میں ایک امریکی صارف رپورٹ ’’کیا آپ کا مکمل احاطہ کیا گیا‘‘ میں بتایا گیا تھاکہ چالیس فی صد سے زائد افراد کا یہ کہنا ہے کہ ان کی انشورنس پالیسی ان کی ضروریات کا مکمل احاطہ نہیں کرتی۔ اس قسم کی تمام رپورٹیں ایک ہی حقیقت بیان کرتی ہیں کہ انشورنس کی پالیسی امریکی عوام کی عمومی صحت کو بہتر بنانے میں ناکام رہی ہے۔ یہ سرمایہ داریت کا مخصوص کردار اور انداز ہے جس میں عوام کے مفاد کے نام پر فائدہ بالآخر چند سرمایہ داروں ہی کو پہنچتا ہے۔ کیسر فیملی فاؤنڈیشن کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہیلتھ انشورنس کی لاگت میں صرف صحت کی انشورنس فراہم کرنے والی کمپنیوں کے منافع کی وجہ سے اضافہ نہیں ہوتا بلکہ انشورنس کی وجہ سے صحت اور انتظامی اخراجات میں ہونے والا اضافہ بھی انشورنس کی رقم میں اضافہ کرتا ہے۔ ایم آئی ٹی اور ہارورڈ اسکول آف پبلک ہیلتھ کی مشترکہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جن افراد کے پاس انشورنس ہوتی ہے ان کی اسپتال کی سہولتیں استعمال کرنے اور اسپتال میں وقت گزارنے کی شرح میں تیس فی صد اور مختلف مراحل میں 45فی صد اضافہ ہوگیا ہے۔ اسٹین فورڈ یونیورسٹی اور وہارٹن اکنامسٹ کے 2019 کے پیپر کے مطابق امریکی حکومت کی امداد سے چلنے والی صحت کی انشورنس پالیسی نے اسپتالوں کے اخراجات اور منافع میں کافی اضافہ کیا ہے۔
اسلام صحت کے حصول کو معاشرے کی بنیادی ضرورت قرار دیتا ہے اور ایک اسلامی حکومت کے لیے لازم قرار دیتا ہے کہ وہ بلا امتیاز رنگ نسل اور مذہب شہریوں کو صحت کی سہولت مفت فراہم کرے۔ غزوہ خندق کے دوران آپؐ کا گزر زخمی سپاہیوں کے پاس سے ہوا تو رسالت مآبؐ نے ایک خیمہ نصب کرنے کا حکم دیا۔ بیمارستان (بیمار کا گھر) ایک انسٹی ٹیوٹ کی صورت پورے دور خلافت میں لوگوں کے لیے صحت کی بہترین سہولتوں کا ذریعہ تھا۔1283ء میں المنصوری اسپتال قاہرہ میں 8ہزار مریضوں کا علاج کیا جاتا تھا۔ ہر مریض کو مفت ادویات، خوراک، بستر اور کھانے کے برتنوں کے علاوہ دو خدمت گار بھی مفت فراہم کیے جاتے تھے۔ عہد خلافت میں گشتی دواخانے معذور اور دور دراز علاقوں میں رہنے والوں کو معیاری طبی سہولتیں فراہم کرتے تھے۔ سرکاری اخراجات صرف مریضوں کو سہولت پہنچانے میں خرچ کیے جاتے تھے۔ سرمایہ داریت کی طرح یہ رقوم نجی اسپتالوں اور انشورنس کمپنیوں کے چند مالکان کی جیبوں کو دولت سے بھرنے کے کام نہیں آتی تھیں۔