جب سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان سے اپنی فوج یک طرفہ طور پر واپس بلانے کا اعلان کیا ہے کابل کی ڈولتی اور ڈوبتی ہوئی حکومت پر عذابِ جانکنی طاری ہے۔ امریکا صرف افغانستان سے فوجیں نکالنے کے اعلان پر ہی قائم نہیں بلکہ اس نے کابل حکومت کو نظر انداز کرتے ہوئے طالبان کے ساتھ خوش گپیوں کے کئی دور بھی گزار دیے۔ اس سے طالبان جنگ زدہ ملک کے مستقبل کے حوالے سے مرکزی اسٹیک ہولڈر کے طور پر اُبھر کے سامنے آئے ہیں۔ یہی نہیں دوسری طرف روس نے بھی افغان حکومت کو نظر انداز کرتے ہوئے ماسکو میں کابل حکمرانوں کی مخالف سیاسی قوتوں اور طالبان کو ایک میز کے گرد بٹھا دیا۔ جہاں حامد کرزئی اور یونس قانونی طالبان نمائندوں کے ساتھ ایک میز پر بیٹھے ہوئے دیکھے گئے۔ اس سے کابل کی اشرف غنی حکومت کی اہمیت مزید کم ہو کر رہ گئی۔ طالبان نے افغانستان میں نئے آئین کا مطالبہ دہرانے کے علاوہ وہ تمام ضمانتیں دینے کی یقین دہانی کرائی ہے جس پر بین الاقوامی برادری کو کبھی تشویش رہی ہے۔ مثلاً یہ کہ وہ پورے افغانستان پر تنہا راج نہیں کرنا چاہتے۔ داعش اور اس قبیل کے گروہوں کا قلع قمع کر سکتے ہیں۔ ایک ماہ میں منشیات کا خاتمہ کر سکتے ہیں اور یہ کہ خواتین کو ملازمتوں اور تعلیم کی آزادی فراہم کر سکتے ہیں۔ ماضی کے برعکس یہ طالبان کے موقف اور سوچ میں آنے والی ایک ایسی تبدیلی ہے جو انہیں وقت کے دھارے کے ساتھ بہنے اور عالمی برادری میں قبولیت فراہم کرنے اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ جوں جوں طالبان کی سفارتی کامیابیاں بڑھ رہی ہیں اور امریکیوں کی رخصتی کے اعلانات میں تسلسل پیدا ہورہا ہے اشرف غنی حکومت احساس یتیمی کا شکار دکھائی دے رہی ہے۔ ماسکومیں اپوزیشن اور طالبان کے مذاکرات نے اس تاثر کو گہرا کیا کہ
کابل کے ’’بیل‘‘ کو سینگوں سے پکڑنے کا ہر ممکن حد تک انتظام کیا جا رہا ہے۔ صدارتی انتخابات ملتوی ہوتے دکھائی دے رہے ہیں اگر یہ انتخابات وقت پر منعقد ہوتے بھی ہیں تو بھی اشرف غنی کے لیے اقتدار کی دوسری مدت حلوہ نہیں بلکہ افغانستان کی سیاسی اور انتخابی حرکیات تغیر پزیر ہیں۔
آج کا کابل دو واضح کیمپوں میں بٹ چکا ہے یہ طالبان اور افغان حکومت نہیں بلکہ اس کی بنیاد امریکا نوازی اور روس وچین دوستی ہے۔ ماسکو مذاکرات نے اس تقسیم کو اور گہرا کر دیا ہے۔ حامد کرزئی امریکی کیمپ سے اُچھل اور نکل کر مخالف کیمپ میں پہنچ چکے ہیں۔ معروف جہادی کمانڈر گل بدین حکمت یار حکومت کے راستے کابل میں داخل ہوئے ان کی راہ میں مشکلات ہیں مگر وہ ماضی کے جہادی کمانڈروں میں آج بھی سب موثر ہیں انہوں نے خود کو صدارتی امیدوار کے طور پر پیش کرکے اشرف غنی کی مشکلات بڑھا دی ہیں۔ حکومت کے حامی جہادی کمانڈر اُستاد عبدالرب رسول سیاف کو حکمت یار سے معانقہ کرتے بھی دیکھا گیا ہے۔ حکمت یار حال ہی میں حکومت کی دعوت پر چین کا ایک اہم دورہ کرچکے ہیں اور روسی سفیر نے کابل میں ان سے اہم ملاقاتیں کی ہیں۔ امریکا سے ان کی کم ہوتی مخاصمت اور چین وروس سے بڑھتی ہوئی قربت حکمت یار کی صدارت متحارب فریقین کے لیے ’’وِن وِن سچویشن‘‘ یعنی درمیانی راستہ ثابت ہو سکتی ہے۔ حکمت یار کے معاملے میں پاکستان حد درجہ محتاط ہے مگر پاکستان اور ترکی میں ان کے دوستوں کی کمی نہیں سو پاکستان میں ان کے چاہنے والوں کا ایک حلقہ اپنے طور پر ان کی اصل شبیہہ کو بحال کرنے اور لوحِ حافظہ پر تازہ کرنے میں مصروف ہو چکا ہے۔ امریکا جو کابل کے حکمرانوں کی آخری امید اور ماویٰ وملجا ہے بوریا بستر باندھے کھڑا ہے بلکہ رقیبوں یعنی طالبان کے ساتھ راز ونیاز میں مشغول ہو کر کابل کے صدارتی محل والوں کا دل جلا رہا ہے۔ بھارت جو اس حکومت کا امریکا کے بعد دوسرا سرپرست تھا پیار ومحبت کے دعوؤں اور قسموں کے باوجود کابل کے حکمرانوں کے تحفظ کے لیے فوج بھیجنے سے انکاری ہے۔ جس کا صاف مطلب ہے کہ بھارت ان کے لیے روپے پیسہ تو خرچ کر سکتا ہے مگر خون اور جان نہیں۔
حامد کرزئی امریکا سے پاکستان پر حملہ کرانے کے شوق میں ماسکو جا پہنچے اور اب اشرف غنی یہی مطالبہ کرتے کرتے تنہا ہوتے جا رہے ہیں۔ اشرف غنی کے مطالبات پر حملہ تو کیا ہونا تھا امریکا رخت سفر باندھ کر چلنے کو تیار ہو گیا۔ یوں خوف اور ہیجان کی ایک کیفیت طاری ہے اس عالم میں اشرف غنی پاکستان کے خلاف اپنے تمام کارڈ کھیلنا چاہتے ہیں جن کا خیال ہے کہ تیس لاکھ افغان پناہ گزینوں کی صورت میں ان کے پاس پاکستان کے خلاف ایک ’’ٹرمپ کارڈ‘‘ موجود ہے۔ جلد از جلد سارے کارڈ کھیلنے کے اس شوق میں تیزی سے اُبھرتی ہوئی پی ٹی ایم کو وہاں لاکھڑا کیا جہاں سے اجمل خٹک جیسی نامور سیاسی شخصیت کا سفرِ انقلاب تمام ہوا تھا۔ وہ طویل جلاوطنی اور جلاؤ گھیراؤ کی حمایت کے بعد حالات وتجربات کے بعد اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ انہیں اپنی سرگرمیوں کو پاکستان کی حدود اور ڈھانچے کے اندر واپس منتقل
کرنا چاہیے۔ اپنی سرگرمیوں کو پاکستان کی حدود سے باہر منتقل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ملکی حدود میں اپنے ممکنہ وسیع حلقہ ہمدرداں اور حامیاں کو ایک موہوم امید اور بے نام تمنا کی بنا پر محدود کرتے ہیں۔ پی ٹی ایم اور ریاست کی آنکھ مچولی تو چل ہی رہی تھی کہ اچانک اشرف غنی نے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی ٹھانی اور دو ٹویٹس کے ذریعے کہا کہ ان کی حکومت کو خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں پرامن کارکنوں کے خلاف پرتشدد اقدامات پر تشویش ہے۔ سول اور پرامن حقوق کا تحفظ ہر حکومت کی اخلاقی ذمے داری ہے۔ تشدد کی پالیسی کے نتائج اچھے برآمد نہیں ہوں گے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اشرف غنی کے ٹویٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا افغان حکومت پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے بجائے اپنے مسائل پر توجہ دے۔ افغان صدر کا اشارہ پی ٹی ایم کی حالیہ سرگرمیوں اور پکڑ دھکڑ کی جانب تھا۔ پی ٹی ایم کے بارے میں ریاستی وسرکاری اسٹیریو ٹائپ بیانیہ یہ ہے کہ تنظیم افغان حکومت کا ایک پروجیکٹ ہے اور صرف افغان حکومت ہی نہیں کابل میں اس کے عالمی اور علاقائی دوست بھی پشتون علاقوں میں اس تحریک کو ہوا دینے میں پیش پیش ہیں۔ ایک سال قبل جب یہ تنظیم نقیب محسود کی لاش کو اوون کرتے ہوئے ایک لانگ مارچ کر رہی تھی تو افغان صدر اشرف غنی نے یہ تبصرہ کرنا ضروری سمجھا تھا کہ پاکستان میں پختونوں کے حقوق کے لیے ایک لانگ مارچ ہو رہا ہے۔ اشرف غنی کی اپنی مجبوریاں اور عجلت کی اپنی وجوہات ہیں۔ پی ٹی ایم ہمارے اپنے، زخم خوردہ اور حالات سے ناراض ونالاں نوجوانوں کا اکٹھ ہے۔ اس تنظیم کی قیادت سے گزارش یہی ہے کہ وہ اجمل خٹک کی بصیرت اور تجربے کی روشنی میں اپنی سیاست کو واپس طورخم کے اِس جانب منتقل کرے۔