کیسی بلندی کیسی پستی

260

منگل 5فروری کی شام امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی کانگریس کے توسط سے پوری قوم کے سامنے ’’اسٹیٹ آف دی یونین‘‘ خطاب کیا۔ انہوں نے کئی بلند بانگ دعوے کیے، جن میں امریکا کے دنیا کی سب سے بڑی معیشت اور سب سے بڑی دفاعی اور فوجی قوت ہونے کا دعویٰ کیا۔ انہوں نے کہا: ’’آج امریکی تاریخ میں سب سے زیادہ تعداد میں یعنی تقریباً سولہ کروڑ لوگ برسرِ روزگار ہیں، ہماری اقتصادی پالیسیوں کے کامیابی کے ثمرات سامنے آرہے ہیں، ہم نے مڈل کلاس کو تقویت دی ہے اور معیشت کی بہتری کے سبب مڈل کلاس کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، پچاس لاکھ افراد نے سوشل سیکورٹی سے فوڈ اسٹمپ یعنی حکومتی اعانت لینا چھوڑ دیا ہے۔ چینی درآمدات پر ہم نے دو سو پچاس ارب ڈالر کے ٹیکس عائد کیے ہیں، جس کے نتیجے میں ہمارے خزانے میں اربوں ڈالر وصول ہورہے ہیں۔ چین ہماری صنعت کو نقصان پہنچاتا رہا ہے، وہ ہماری دولتِ دانش، جسے Intellectual Property کہا جاتا ہے، چراتا رہا ہے، یعنی جن ایجادات وتحقیقات پر امریکا کروڑوں اربوں ڈالر خرچ کرتا ہے، چین مفت میں چرا کر اُن سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ میں چینی صدر کا احترام کرتا ہوں اور زی جن پنگ کے ساتھ مل کر نئے تجارتی معاہدے پر بات کروں گا۔ انہوں نے NAFTA معاہدے کو ایک تاریخی غلطی اور تباہی قرار دیا اور اُس کے متبادل معاہدے پر غور کرنے کا وعدہ کیا۔ روس سے درمیانی فاصلے کے ایٹمی میزائلوں کی تحدید کے معاہدے آئی این ایف سے امریکا پہلے ہی علیحدگی اختیار کرچکا ہے اوراب ہم اسٹیٹ آف دا آرٹ میزائل بنائیں گے اور اس سال ہمارے خلاباز نئی بلندیوں پر جائیں گے‘‘۔ الغرض صدر ٹرمپ نے انتہائی تعلّی اور قومی تفاخر سے معمور خطاب کیا، اس میں لفاظی اپنی انتہا پر تھی، نوے منٹ کی تقریر کے اختتام پر انہوں نے کہا:
’’آج یہاں اس عظیم الشان جمہوریہ کے قانون ساز جمع ہیں، مختلف ریاستوں کا نام لیتے ہوئے انہوں نے کہا: آپ مین (Maine) کی چٹانوں والے ساحل، ہوائی کی آتش فشاں چوٹیوں، وسکونسن کی برفانی لکڑیوں، ایریزونا کے سرخ صحراؤں، کنٹکی کے سبزہ زاروں اور کیلی فورنیا کے سنہری ساحلوں سے آئے ہیں۔ ہم سب متحد ہوکر انسانی تاریخ کی غیر معمولی قوم کے نمائندہ ہیں۔ اس لمحے ہمیں کیا کرنا ہے، ہم کیسے یاد رکھے جائیں گے، میں کانگریس کی خواتین وحضرات سے سوال کرتا ہوں۔ ذرا اُن مواقع کی جانب دیکھیے جو ہمارے سامنے ہیں، عظیم تر مقاصد جو ابھی ہم کو حاصل کرنے ہیں، ترقی کے پرجوش سفر جو ابھی ہمارے منتظر ہیں، ہماری عظیم فتوحات جو ابھی آنی ہیں، ابھی ہمیں اور بلندیوں کے خواب دیکھنے ہیں۔ ہمیں انتخاب کرنا ہے کہ ہم اختلافات والی قوم کے طور پر یاد کیے جائیں گے یا ہمیں ارتقا کی حدوں کو عبور کرنا ہے۔ ہمیں دیکھنا ہے کہ کیا ہم اپنے عظیم ورثے کو فضا میں تحلیل کر دیں گے یا ہم فخر کے ساتھ یہ اعلان کریں گے کہ ہم امریکی ہیں۔ ہمیں ناقابلِ یقین کامیابیاں حاصل کرنی ہیں اور ناممکن کو ممکن بنانا ہے، ہم کو نامعلوم دنیا کو فتح کرنا ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم امریکی تخیّلات کو پرجوش بنائیں، ہمیں بلند ترین چوٹیوں کو سر کرنا ہے اور روشن ترین ستاروں پر نظر رکھنی ہے، ہمیں محبت کے عہد اور وفا کی شمع کو دوبارہ جلانا ہے اور اُن یادوں کو جِلا بخشنا ہے جو ہمیں بطور شہری، بطور پڑوسی اور بطورِ محب وطن متحد رکھیں۔ یہ ہمارا مستقبل ہے، ہماری تقدیر ہے اور وہ انتخاب ہے جو ہمیں حاصل کرنا ہے، میرا آپ سے مطالبہ ہے کہ ہم عظمتوں کا انتخاب کریں، خواہ کیسی ہی مشکلات کا ہمیں سامنا کرنا پڑے،کیسے ہی چیلنج در پیش ہوں، کسی مشکل کی پروا کیے بغیر ہمیں آگے بڑھتے چلے جانا چاہیے۔ ہمیں اپنے دلوں میں امریکا کو مقدم رکھنا ہے، ہمیں اپنی روحوں میں آزادی کی شمع کو روشن رکھنا ہے اور ہمیں ہمیشہ امریکا کی بلندئ تقدیر پر یقین رکھنا ہے، یعنی ایک اللہ کی بندگی میں ایک قوم بن کر رہنا ہے، ہمیں اقوامِ عالَم کے درمیان امید، امنگ، روشنی اور عظمت کا مینار بن کر رہنا ہے‘‘۔
ایک طرف امریکا کے یہ بلند بانگ دعوے، یہ تعلّی، یہ تفاخر، یہ عُجب واستکبار اور موجودہ دنیا میں کسی حد تک اس کا جواز بھی موجود، لیکن اللہ کی شان دیکھیے اور اس بلندی کے مقابل ذرا پستی کا نظارا کیجیے۔ نائن الیون کے بعد افغانستان پر حملے کا اعلان کرتے وقت اُس وقت کے امریکی صدر جارج واکر بش نے کہا تھا: ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ جنگ ہم ہی جیتیں گے‘‘۔ پھر امریکا اپنے اٹھائیس اتحادی ممالک کی تقریباً ایک لاکھ چالیس ہزار افواج اور جدید ترین سامانِ حرب کے ساتھ افغانستان پر حملہ آور ہوا اور بے سروسامان مجاہدین کے خلاف سترہ سال تک ایک بے نتیجہ جنگ لڑی اورآج جب موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے قطر میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا: ’’وہ لڑتے لڑتے تھک چکے تھے اور دراصل ہم سب ہی تھک چکے تھے‘‘۔ یعنی دنیا کی واحد سپر پاور کو اُن بے سروساماں مجاہدین نے طویل جنگ کے بعد تھکا دیا۔ اپنے اسٹیٹ آف دا یونین ایڈریس میں ٹرمپ نے کہا: ’’ہمارے سات ہزار فوجی لقمۂ اجل بنے اور باون ہزار سے زائد شدید زخمی ہوئے اور کوئی بھی قوم نہ ختم ہونے والی جنگ نہیں لڑ سکتی‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ طالبانِ افغانستان نہ ختم ہونے والی جنگ لڑنے کی جرأت وہمت، حوصلہ اور استعداد رکھتے ہیں، اس لیے سپر پاور کو طالبان سے مذاکرات کے لیے پاکستان کی مدد لینی پڑی اور اُن کی شرائط پر اُن کے مذاکرات کاروں کو دہشت گردوں کی لسٹ سے نکالنا پڑا۔
اس کے برعکس طالبان کے نمائندے شیر محمد عباس استانکزئی نے کہا: ’’ہمارے لیے امن جنگ سے مشکل کام ہے‘‘۔ میں نے ایک باخبر شخص سے پوچھا: ’’قطر میں چھ دن تک مذاکرات میں کیا ہوتا رہا، کیوں کہ جو خبریں باہر آئیں، اُن میں تین باتیں سامنے آئیں: (۱) افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کا نظام الاوقات، (۲) افغانستان کی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ کرنے کی یقین دہانی، (۳) طالبان اقتدار میں تمام طبقات کو شامل کریں گے‘‘۔ تو مجھے بتایا گیا: ’’طالبان کے نمائندے تو با اختیار تھے، لیکن زلمے خلیل زاد اور امریکی وفد با اختیار نہیں تھا، انہیں بار بار مذاکرات کے سیشن ملتوی کرنے پڑتے تاکہ وہ واشنگٹن سے ہدایات لے سکیں‘‘۔
جب امریکا نے اُن سے یہ رعایت مانگی کہ افغانستان میں ہمارا ایک اڈا رہنے دیا جائے تو انہوں نے جواباً کہا: ’’ہمیں بھی امریکا میں ایک اڈا رکھنے کی اجازت دی جائے‘‘۔ امریکا فوری جنگ بندی چاہتا تھا، طالبان نے کہا: ’’جنگ بندی اور انخلا ساتھ ساتھ ہوگا اور امریکا کو پرامن واپسی کی ضمانت دی جائے گی‘‘۔ طالبان کا موقف اصولی اور اخلاقی اعتبار سے قوی ہے کہ وہ اپنے وطن کی آزادی اور غیر ملکی قابض افواج کے انخلا کے لیے لڑ رہے ہیں، جب کہ امریکا کے پاس اس طرح کا کوئی اصولی اور اخلاقی جواز نہیں ہے۔ اس کے بعد طالبان نے ماسکو میں مختلف افغان گروپوں سے بھی ملاقات کی اور انہیں خواتین کی تعلیم اور بعض دیگر معاملات کی یقین دہانیاں کرائیں اور آپس کے روابط کو جاری رکھنے کا عندیہ دیا۔
سی این این پر لوگوں سے ٹرمپ کے خطاب پر رائے مانگی جارہی تھی تو بعض دلچسپ تبصرے دیکھنے کو ملے، ایک صاحب نے لکھا: ’’یہ تقریر نویس اور ٹیلی پرومپٹر کا کمال تھا کہ ٹرمپ بااعتماد دکھائی دے رہے تھے اور گفتگو میں ربط تھا‘‘۔ واضح رہے کہ ٹیلی پرومپٹر وہ آلہ ہے جو بولنے والے کے سامنے رہتا ہے اور اُس کی تقریر کی رفتار سے متن جلی حروف میں سامنے چلتا رہتا ہے، آج کل ٹیلی ویژن پر خبریں پڑھنے والوں کے سامنے بھی ٹیلی پرومپٹر ہوتا ہے۔ اس شخص نے مزید لکھا: ’’یہ تشخص و تاثر مصنوعی اور عارضی ہے، یہ اگلے دن ٹرمپ کے ایک ٹویٹ کی مار ہے، پھریہ مصنوعی شخصیت تحلیل ہوجائے گی اور اصل ٹرمپ سے لوگوں کی ملاقات ہوجائے گی‘‘۔
جہاں تک امریکا کی معاشی ترقی اور روزگار کے مواقع کی بہتری کا تعلق ہے، اس کا سلسلہ 2016 میں سابق صدر اوباما کے آخری سال میں شروع ہوچکا تھا۔ دراصل سرمایہ دارانہ معیشت میں ایک شیطانی چکر وقفے وقفے سے آتا ہے کہ اچانک معیشت بلندی کی جانب محو پرواز ہوجاتی ہے، جسے ٹرمپ نے بوم سے تعبیر کیا ہے اور کچھ عرصے کے بعد پھر مائل بہ زوال ہوجاتی ہے، جیسے 2008 سے 2015 تک کا عرصہ ہم نے دیکھا ہے۔ چوں کہ امریکا سرمایہ دارانہ معیشت کا صفِ اول کا قائد ہے، اس لیے وہ اٹھتا ہے تو سب کو لے کر اٹھتا ہے اور ڈوبتا ہے تو سب کو ساتھ لے کر ڈوبتا ہے، کیوں کہ سرمایہ دارانہ معیشت میں سب کچھ حقیقی نہیں ہوتا، بہت سی چیزیں مصنوعی ہوتی ہیں، جیسے اسٹاک ایکسچینج یا رِیَل اسٹیٹ کی مارکیٹ کا اتار وچڑھاؤ، جس میں سٹے کا دخل ہوتا ہے۔ مثلاً: حال ہی میں جب ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت اچانک غیر معمولی شرح سے گری، تو کسی کو پتا نہیں کہ راتوں رات کس نے اربوں کما لیے اور کس کے اربوں روپے ڈوب گئے۔ ان معاشی دیووں (Giants) کے آگے حکومتیں بھی بے بس ہوتی ہیں۔
امریکا کے نزدیک نارتھ کوریا اور ایران کا جرم ایک ہی ہے، لیکن نارتھ کوریا کو شروع میں صفحۂ ہستی سے مٹانے کی دھمکیاں دیں، مگر پھر صدر کِم جونگ سے مذاکرات شروع کیے اور اب اگلا دور اسی مہینے میں ویتنام میں منعقد ہوگا۔ اس کے برعکس ایران کے بارے میں ٹرمپ نے کہا: ’’یہ یقینی بنانا ہے کہ بدعنوان ڈکٹیٹر شپ کو کسی صورت میں ایٹمی اسلحہ رکھنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، یہی وجہ ہے کہ امریکا نے ایران کے ساتھ تباہ کن ایٹمی معاہدے سے اپنے آپ کو الگ کرلیا اور اس پر ایسی سخت پابندیاں عائد کیں جو امریکا نے کبھی کسی ملک پر عائد نہیں کیں، ہم ایسی حکومت کو ہمیشہ نظر میں رکھیں گے جو ’’مرگ بر امریکا‘‘ کے نعرے لگائے اور یہودیوں کو نسل کشی کی دھمکی دے، ہم یہود دشمنی پر مبنی گھٹیا زہریلی سوچ کو کبھی نظر انداز نہیں کریں گے ‘‘۔