جھانسا…..!

163

سرائیکستان کا مطالبہ کرنے والوں کا تحریک انصاف کے جھانسے میں آنا سمجھ میں آتا ہے مگر بہاولپور صوبے کے طلب گاروں کا دوسری بار ایک ہی سوراخ سے ڈسا جانا سمجھ سے بالاتر ہے۔ اہل بہاولپور اس تجربے سے گزر چکے ہیں۔ بہاولپور کے معروف ڈینٹل سرجن عبدالرؤف لودھی صاحب نے بتایا تھا کہ بھٹو مرحوم بہاولپور صوبہ بنانے پر آمادہ تھے، انہوں نے اسلم افغان کی رہائش گاہ پر وعدہ کیا تھا کہ اسمبلی میں بہاولپور صوبے کے قیام کے لیے تحریک آئی تو ان کی پارٹی مخالفت نہیں کرے گی، مگر اسمبلی کے اجلاس میں بہاولپور صوبے کی تحریک ہی پیش نہ ہوسکی، کیوں کہ بہاولپور صوبے کے نام پر کامیاب ہونے والے اسمبلی سے دور رہے۔ ہم نے بہاولپور کے ممتاز وکیل اسلم افغان سے اس واقعے کا ذکر کیا تو انہوں نے تصدیق کردی تھی۔ اسلم افغان تو مرحوم ہوچکے ہیں، لودھی صاحب سے اس واقعے کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ بہاولپور جنوبی پنجاب کے سیاست دان پنجاب کی تقسیم کے حق میں نہیں کیوں کہ ان کے مالی مفادات مجروح ہوتے ہیں۔
طارق بشیر چیمہ بہاولپور صوبے کے زبردست حامی اور سرگرم رکن ہیں اور ان کے بھائی طاہر بشیر چیمہ جنوبی پنجاب صوبے کے حق میں ہیں۔ شنید ہے، ان کے والد محترم بشیر چیمہ بہاولپور صوبے کے سخت مخالف تھے، کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ وہ بہاولپور صوبے کے حامیوں کے بارے میں ایسے ایسے خیالات کا اظہار کرتے تھے جو ناقابل سماعت اور ناقابل اشاعت ہیں۔ اس پس منظر میں سوچنے کی بات یہ ہے کہ بہاولپور صوبہ کیسے بن سکتا ہے۔ المیہ یہ بھی ہے کہ بہاولپور اور جنوبی پنجاب کے دیگر سیاست دان پنجاب کی وحدت پر وحدانیت کی حد تک یقین رکھتے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے بہت پہلے کہا تھا کہ تحریک انصاف بہاولپور صوبہ بنانے کے لیے مخلص نہیں یہ تو جنوبی پنجاب سے ووٹ حاصل کرنے کا جھانسا تھا اور وہ اس جھانسے میں آگئے۔ صدر مملکت جناب عارف علوی بھی جنوبی پنجاب اور بہاولپور صوبے کے قیام کو ناممکن قرار دے چکے۔ مسلم لیگ نواز اور پیلز پارٹی زرداری نے تحریک انصاف کو بارہا یقین دہانی کرائی ہے کہ پنجاب کی تقسیم کے لیے اسمبلی میں بل پیش کیا گیا تو وہ اس کی حمایت کریں گے مگر تحریک انصاف اسمبلی میں بل پیش کرنے کے بجائے پیشانی پر بل لے آئی اور عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی عوام کو تحریک انصاف سے بدگمان کرنے کے لیے ایسے بیانات دے رہی ہیں۔
خدا جانے! حکمران طبقہ اس حقیقت کے ادراک سے کیوں محروم ہے کہ اہل بہاولپور کسی بھی قیمت پر ملتان کا حصہ نہیں بنیں گے، ملتان والے تو یہ بھی گوارا نہیں کرتے کہ لودھراں کے وکلا بہاولپور ہائی کورٹ میں پیش ہوں۔ یادش بخیر! لودھراں کے وکلا کی خواہش پر انہیں بہاولپور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنے کی اجازت دی گئی تھی کیوں کہ لودھراں ملتان سے بہت دور ہے اور بہاولپور سے بہت قریب ہے مگر ملتان کے وکلا نے اپنے گرو ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے لودھراں کے وکلا کو دھمکی دی تھی کہ اگر وہ بہاولپور ہائی کورٹ گئے تو ان کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ گویا! ملتان کا بااثر طبقہ بہاولپور ہائی کورٹ کو تسلیم ہی نہیں کرتا، اگر بہاولپور کو ملتان سے نتھی کردیا گیا تو وہ لوگ اہل بہاولپور کے تمام حقوق پر ناگ بن کر بیٹھ جائیں اور تخت لاہور سے زیادہ خطرناک ثابت ہوں گے۔ بہاولپور صوبے کے حوالے سے ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ بہاولپور صوبے کی بحالی کا مقصد ریاست بہاولپور کی بحالی ہے جو ممکن نہیں۔ اس لیے بہاولپور صوبے کی بحالی کا نعرہ ترک کرکے بہاولپور کو صوبہ بنانے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔