دنیا میں سب سے بڑا اور خطرناک ہتھیار ارادے کی پختگی ہے۔ یہ وہ عزم مصمم ہے جس کے آگے کوئی دشمن نہ تو ٹھیر سکا ہے اور نہ ہی کوئی ٹھیر سکتا ہے۔ جب قومیں ایک کام کرگزرنے کا ارادہ کرلیں تو دنیا کی نہ تو کوئی طاقت انہیں وہ کام کرنے سے روک سکتی ہیں اور نہ راستے کی بڑی سے بڑی رکاوٹ ان کی راہیں مسدود کرسکتی ہے۔ ماضی میں امریکا نے ایک نہایت پس ماندہ ملک ویتنام میں اپنے قدم جمانے کی کوشش کی۔ ایک ایسا ملک جس کے پاس شاید روایتی ہتھیار بھی نہیں تھے، وہ من حیث القوم امریکا کے آگے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ڈٹ گیا۔ نتیجے میں امریکا کو اْن کا ملک چھوڑ کر بھاگ جانا پڑا۔ اتنی ذلت اٹھانے کے باوجود امریکا نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور دیگر ممالک میں مداخلتوں سے باز نہیں آیا لیکن وہ جہاں جہاں بھی داخل ہو چکا ہے اور جہاں جہاں بھی داخل ہونے کی خواہش رکھتا ہے، ہر جگہ اسے ذلت و رسوائی کا شدید سامنا ہے۔ اس کی خواہش ایران اور ترکی کو دبانے کی بھی ہے لیکن مسلم ممالک میں ایران یا ترکی ایسے ممالک ہیں جہاں تا حال اس کی دال نہیں گل سکی ہے۔ بیش تر عرب ممالک میں بھی اب امریکا کا یہ حال ہو چکا ہے کہ وہ اپنی جان چھڑانے کی فکر میں ہے اور کسی نہ کسی بہانے وہاں سے نکل بھاگنا چاہتا ہے۔ افغانستان میں تو اس کی یہ حالت ہوگئی ہے کہ نہ تو اس کو وہاں سے نکلتے بن پڑ رہی ہے اور نہ ہی وہاں ٹکے رہنے میں اس کو اپنی سلامتی نظر آرہی ہے۔ 17 سال کی خوں ریزی کے باوجود اب اس کا یہ حال ہو چلا ہے کہ جن جہادی گروہوں کو وہ کنجشک فروع مایہ بھی ماننے کے لیے تیار نہیں تھا اور ان کو منہ لگانا اپنی ہتک سمجھتا تھا، ان کے آگے نہ صرف جھکنا پڑ رہا ہے بلکہ عوامی زبان میں لیٹا ہوا دکھائی دے رہا ہے اور ہر قسم کی لالچ اور چالبازیوں کے باوجود جہادیوں سے اپنی بات منوانے میں بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ ایک جانب وہ طالبان کے شکنجے میں بری طرح پھنسا ہوا نظر آرہا ہے تو دوسری جانب افغانستان کی موجودہ حکومت اس کی جان کو اٹکی ہوئی ہے۔
امریکا کے لیے یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے کہ وہ کم از کم اپنی افواج کی جان بچا کر افغانستان سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوجائے۔ یہ ایک ایسا چیلنج ہے جس میں اس کی عزت اور سلامتی پوشیدہ ہے اس لیے کہ اگر افغانستان میں پھنسی افواج زندہ سلامت واپس نہ جا سکیں اور طالبان اور موجودہ حکومت کی افواج کا نشانہ بن گئیں تو ایک جانب اس کی جگ ہنسائی ہوگی تو دوسری جانب امریکی افواج میں بھی کوئی نہ کوئی بغاوت جنم لے سکتی ہے۔ صدر ٹرمپ کے حالیہ بیان کی روشنی میں کہ مہذب اقوام برس ہا برس جنگیں نہیں لڑا کرتیں اور اب امریکا مرحلہ وار اپنی افواج کو واپس بلالے گا ایک طرح کا اعتراف شکست ہے۔ وہ طالبان جن کی حیثیت مکھی اور مچھر کے برابر بھی کوئی ماننے کے لیے تیار نہیں تھا اور امریکا کی مدد کے بل پر افغانستان کی موجودہ حکومت ان کو منہ تک لگانے کے لیے تیار نہیں تھی اب اس کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ وہ اپنی جان بخشی کے لیے راہیں تلاش کر رہی ہے کیوں کہ اب اسے اندازہ ہوگیا ہے کہ امریکی افواج بیچ منجدھار اسے یکہ و تنہا چھوڑ کر کسی وقت بھی نو دو گیارہ ہوجائیں گی اور وہ کٹی پنگ بن کر رہ جائے گی اس لیے وہ طالبان کے لیے اپنا سینہ کشادہ کرتی دکھائی دینے لگی ہے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ’’افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ وہ طالبان کے ملک کے کسی بھی شہر میں دفاتر کھولنے کے لیے تیار ہیں۔ ننگرہار صوبے کا دورہ کرتے ہوئے افغان صدر نے کہا کہ وہ افغانستان میں باوقار اور دیرپا امن لانا چاہتے ہیں‘‘۔ یہ وہی اشرف غنی ہیں جنہوں نے ایک طویل عرصے سے طالبان کو اس قابل ہی نہیں سمجھا کہ وہ ان سے کسی قسم کی بات چیت روا رکھیں آج ان کے عزم و یقین کے آگے اس حد تک پسپائی اختیار کر چکے ہیں کہ وہ افغانستان کے ہر شہر میں ان کے دفاتر تک کھولنے پر رضا مند نظر آتے ہیں۔
افغان صدر تو بے شک پسپائی اختیار کرچکے ہیں لیکن بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق طالبان نے اشرف غنی کی اس پیشکش کو سختی کے ساتھ مسترد کردیا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ ماہ قطر میں امریکا اور افغان طالبان کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات ہوئے تھے جن میں امریکا کے افغانستان سے انخلا اور ڈیڑھ دہائی سے زیادہ عرصے سے جاری اس جنگ کے اختتام کے حوالے سے اہم پیش رفت تو ہوئی اور امن معاہدے کے مسودے پر اتفاق بھی ہوا تاہم کوئی حتمی امن معاہدہ ابھی تک طے نہ پا سکا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ کابل میں کچھ حلقوں میں اس حوالے سے ناراضی پائی جاتی ہے کہ افغان طالبان افغان حکومت سے بات چیت کرنے پر راضی نہیں ہیں بلکہ وہ صرف امریکا کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ مزید برآں گزشتہ ماہ بھی افغان صدر نے طالبان کو براہ راست مذاکرات کی نئی پیشکش کی تھی، لیکن انہوں نے حکومت کو ’’کٹھ پتلی‘‘ کہتے ہوئے مسترد کر دی تھی۔ دراصل طالبان اب اس پوزیشن میں آ چکے ہیں کہ امریکا کے انخلا کے بعد وہ پورے ملک پر اپنی حکومت قائم کر سکتے ہیں۔ افغان حکومت اس کو پورے افغانستان میں حکومت قائم کرنے سے روک لینے کی پوزیشن میں نہیں کیوں کہ اس کی حکومت کا انحصار صرف اور صرف امریکا پر ہے۔ امریکی افواج کے انخلا کے بعد موجودہ افغان حکومت کا اقتدار پر قائم رہنا بہت ہی مشکل ہے اس لیے وہ ایک جانب تو یہ چاہتی ہے کہ امریکی افواج فی الحال افغانستان سے نہ جائیں اور ساتھ ہی ساتھ اس کی یہ کوشش بھی ہے کہ افغان طالبان اس سے اپنی دوریاں ختم کر لیں اسی لیے وہ ان کو ہر شہر میں اپنے دفاتر تک کھولنے کی پیشکش کرتے نظر آتے ہیں۔
موجودہ طالبان بھی بظاہر پہلے والے طالبان کی طرح منتقم المزاج نظر نہیں آتے۔ چنانچہ امریکا کے ساتھ امن مذاکرات میں طالبان کی ٹیم کی سربراہی کرنے والے رہنما شیر محمد عباس ستنکزئی نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ طالبان افغانستان پر بزورِ طاقت قبضہ کرنے کی خواہش نہیں رکھتے۔ ماسکو میں بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’’ہم پورے ملک پر قبضہ کرنا نہیں چاہتے۔ اس سے افغانستان میں امن نہیں آئے گا‘‘۔ تاہم شیر محمد عباس ستنکزئی کا یہ بھی کہنا تھا کہ طالبان جنگ بندی پر اس وقت تک رضامند نہیں ہوں گے جب تک کہ تمام بیرونی افواج افغانستان سے نہیں چلی جاتیں۔ یاد رہے کہ افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے کہا تھا کہ طالبان کے ساتھ بات چیت بالکل ابتدائی مرحلے میں ہے تاہم ہماری کوشش ہے کہ افغانستان میں طالبان کے ساتھ جولائی سے پہلے امن معاہدہ ہو جائے۔ واشنگٹن میں یو ایس اے انسٹیٹیوٹ آف پیس میں جمعہ کی رات خطاب کرتے ہوئے زلمے خلیل نے کہا کہ ایک لمبے سفر کے آغاز کے ابھی دو تین قدم ہی اٹھائے ہیں۔ موجودہ صورت حال کی روشنی میں افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا کسی حد تک پاکستان کے لیے بھی باعث تشویش ہے شاید اسی لیے پاکستان بھی چاہتا ہے کہ امریکا جلد بازی میں افغانستان خالی نہ کرے۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہو کہ اس کے جانے کے بعد جن طالبان کو وہ افغانستان میں آتا اور حکومت کرتا دیکھ رہا ہے وہ پاکستان دوست نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ مذاکرات تک میں پاکستان کی شرکت کو ناپسند کرتے رہے ہیں۔
پوری دنیا بشمول پاکستان،کے لیے یہ ایک لمحہ فکر ہے کہ اگر عزائم پختہ ہوں اور ہمتیں توانا تو پھر دنیا کی بڑی سے بڑی جنگ بھی جیتی جاسکتی ہے اور وہ بھی بے تیغ۔ اگر پاکستان امریکا کے سامنے مصلحت کا شکار نہ ہوا ہوتا تو بظاہر پاکستان کو امریکی مزاحمت اور جارحیت کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب بنا ہتھیار افغان امریکا اور روس کی جارحیتوں کو شکست دے سکتے ہیں تو دنیا کی ایک ایٹمی طاقت ایسا کیوں نہیں کرسکی اور وہ امریکا کے آگے کیوں جھکتی چلی گئی۔ یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ کیا امریکا کے آگے جھک جانے سے پاکستان خطروں سے محفوظ رہا۔ جنگ کے بادل نہ صرف اب تک پاکستان پر چھائے ہوئے ہیں بلکہ اب اور بھی زیادہ گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ وہ جن کو دبانے کے لیے پاکستان سمیت امریکا نے پوری توانائی کھپادی اب وہی گروہ سر ابھارتا نظر آرہا ہے۔ مجھے یہ نہیں معلوم کہ وہ پاکستان یا افغانستان کے لیے کتنا خطرے یا امن کا باعث ثابت ہو سکتا ہے لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
دعا یہی ہے کہ جن کو اب ’’اپنی منزل آسمانوں میں‘‘ نظر آنے لگی ہے وہ عقاب بن کر افغانستان پر سایہ فگن رہیں، ماضی کی طرح بھیڑیا صفتی کا مظاہرہ کرتے نظر نہ آئیں اور حکومت مل جانے کے بعد خود بھی پر امن رہیں اور افغانستان کو بھی امن و امان کا گہوارہ بنا دیں۔