Brexit

286

برطانیہ عظمیٰ یعنی Great Britain کسی وقت سپر پاور تھا اور کہا جاتا تھا: ’’اس کی حدودِ سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا، ایک خطے میں سورج غروب ہورہا ہوتا تو دوسرے میں طلوع ہورہا ہوتا‘‘۔ امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، برصغیر پاک وہند، ہانگ کانگ اور افریقا کے کئی ممالک اس کے زیرِ نگیں تھے۔ پھر اس کے عالمی اقتدار کا سورج بتدریج غروب ہوتا چلا گیا اور جنگ عظیم دوم کے بعد اس سمٹاؤ کی رفتار تیز تر ہوگئی۔ آج کا برطانیہ چار اکائیوں پر مشتمل ہے: انگلینڈ، ویلز، اسکاٹ لینڈ اور شمالی آئرلینڈ۔ اسکاٹ لینڈ اور شمالی آئر لینڈ میں بھی یو کے سے علیحدگی کی تحریک موجود ہے، مستقبل میں اگر یہ تحریکیں کامیاب ہوئیں تو برطانیہ انگلینڈ اور ویلز تک محدود ہوکر رہ جائے گا۔
یورپین یونین نومبر 1993ء میں قائم ہوئی، یونین کے قیام کے بعد اس کے رکن اٹھائیس ممالک الگ الگ خود مختار ریاستیں رہنے کے باوجود ایک مشترکہ منڈی میں شامل ہوگئے ہیں۔ اس میں چار چیزوں کی آزادانہ نقل وحرکت کی ضمانت دی گئی ہے: یعنی سامانِ تجارت، سرمایہ، خدمات اور لیبر، ان اٹھائیس ممالک کے درمیان کسٹم اور امیگریشن کی چیک پوسٹیں نہیں ہیں۔ برطانیہ یورپین یونین کے قیام کے باوجود کافی عرصہ الگ تھلگ رہا، مگر آخر کار 1998ء میں یونین میں شامل ہوگیا، تاہم اس نے اپنی کرنسی پاؤنڈ اسٹرلنگ برقرار رکھی۔
اس کے نتیجے میں برطانیہ میں یورپی یونین کے لوگوں کی آزادانہ آمد شروع ہوئی، پولینڈ ودیگر ممالک سے سستی لیبر کی درآمد ہونے لگی، سوشل ویلفیر کے شعبے پر بھی دباؤ پڑا۔ انگریزوں کے اندر اپنے ماضی کے اعتبار سے برتری اور تفاخر کا ایک احساس تھا، انہیں خدشہ لاحق ہوا کہ یورپ کی وسیع تر وحدت میں کہیں ان کی انفرادیت اور امتیاز گم نہ ہوجائے، سو بوجوہ یونین سے علیحدگی کی تحریک چلی اور آخر کار 23جون 2016ء کو اس مسئلے پر ریفرنڈم ہوا، جذباتی فضا میں عواقب پر نظر رکھے بغیر محض دو فی صد کی اکثریت سے علیحدگی کا فیصلہ ہوا۔ یورپین یونین سے علیحدگی کا عمل بھی کافی پیچیدہ ہے اور اسی لیے اس عمل کے مکمل ہونے کے لیے کافی وقت رکھا گیا ہے۔ اُس وقت کے مقبول وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون علیحدگی کے حق میں نہیں تھے، ریفرنڈم کا فیصلہ ان کی مرضی کے خلاف آیا تو انہوں نے وزارتِ عظمیٰ سے استعفا دے دیا تاکہ یورپین یونین سے علیحدگی کی مہم ایک نئی قیادت انجام دے۔
ٹرِسامَے نئی وزیر اعظم منتخب ہوئیں اور ان کی قیادت میں بریگزٹ کا عمل شروع ہوا۔ بریگزٹ British کے مخفَّف BR اور Exit کا مرکب ہے، اس کے معنی ہیں: ’’یورپین یونین سے برطانیہ کا خروج‘‘۔ عربی کا محاورہ ہے: ’’قَدِّمِ الْخُرُوجَ قَبْلَ الْوُلُوْج‘‘ یعنی داخل ہونے سے پہلے نکلنے کی بابت سوچو کہ اگر کہیں اس کی نوبت آگئی تو تدبیر کیا ہوگی، اس کو ہم یوں بھی تعبیر کرسکتے ہیں: ’’کسی کام کے آغاز سے پہلے انجام کی سوچو‘‘۔ انگریزوں کی بابت ہمارے ہاں مشہور ہے کہ سو سال بعد کی سوچتے ہیں، شاید یورپین یونین میں شمولیت کے وقت وہ یہ نہ کرسکے۔
ٹرِسامَے کو آج یہی مشکل درپیش ہے، انہوں نے طویل اور صبر آزما مذاکرات کے بعد یورپین یونین کے ساتھ یونین سے علیحدگی کا جو معاہدہ ’’بریگزٹ ڈیل‘‘ کے عنوان سے طے کیا، برطانوی پارلیمنٹ نے اس کی منظوری دینے سے انکار کردیا۔ پھر اس میں چند ترمیمات پیش ہوئیں، مگر پارلیمنٹ نے انہیں بھی رد کردیا، آخر میں صرف ایک ترمیم کی منظوری ہوئی: ’’No Brexit with out deal‘‘، یعنی ڈیل کے بغیر بریگزٹ نہیں ہوگی، جبکہ بظاہر تاحال No Deal کے آثار زیادہ ہیں۔ ٹرِسامَے ہاتھ پاؤں مار رہی ہیں، ان کی حالت قابلِ رحم ہے، لیکن یورپین یونین ڈیل پر نظرثانی کے لیے تیار نہیں ہے۔ انگریزوں نے سوچا نہیں ہوگا کہ ایسی بند گلی میں بھی پھنس سکتے ہیں۔
دراصل دو ایسے تضادات ہیں، جن میں بیک وقت تطبیق آسان نہیں ہے۔ ایک تو یہ کہ یورپین یونین سے نکلنے کے بعد برطانیہ اور یونین کے دیگر ممالک کے درمیان کسٹم ڈیوٹی اور امیگریشن چیک پوسٹ کے روایتی اصول لاگو ہوں گے، افراد اور سامان کی بلا روک ٹوک اور آزادانہ نقل وحمل کی سہولت ختم ہوجائے گی، الغرض برطانیہ یونین کے دوسرے ممالک کے لیے اجنبی ہوجائے گا۔ دوسرا یہ کہ برطانیہ اور جمہوریہ آئر لینڈ کے درمیان 2003 میں ’’Good Friday Agreement‘‘ کے نام سے یہ معاہدہ طے پاچکا ہے کہ جمہوریہ آئر لینڈ اور شمالی آئر لینڈکے درمیان ہارڈ کسٹم اور امیگریشن چیک پوسٹ نہیں ہوگی اور لوگوں کی دونوں طرف آمد ورفت اور سامان کی نقل وحمل آزادانہ رہے گی۔ آئرش قوم کے یہ دونوں حصے خشکی پر ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں، جبکہ برطانیہ اور شمالی آئرلینڈ کے درمیان سمندر ہے۔ آئر لینڈ کے دونوں حصوں کی صورت ایسی ہی ہے جیسے ہمارے قبائلی علاقہ جات میں افغانستان کے لوگوں کی آمد ورفت کسٹم اور امیگریشن کے بغیر جاری رہتی ہے، کیوں کہ دونوں طرف ایک ہی قبائل کے لوگ رہتے ہیں۔ واضح رہے کہ جمہوریہ آئر لینڈ آزاد ملک ہے اور بدستور یورپین یونین کا رکن ہے اور شمالی آئر لینڈ برطانیہ کے زیرِ اقتدار ہے۔
شمالی آئر لینڈ برطانیہ کا حصہ ہے، لہٰذا اب بریگزٹ کے بعد یونین قوانین کا تقاضا ہے کہ جمہوریہ آئر لینڈ اور شمالی آئر لینڈ کے درمیان باقاعدہ ہارڈ کسٹم اور امیگریشن چیک پوسٹیں ہوں، سامان کی آزادانہ نقل وحمل اور دونوں طرف کے لوگوں کی آزادانہ آمد ورفت موقوف ہوجائے، جب کہ شمالی آئر لینڈ کے لوگ اس پر کبھی آمادہ نہیں ہوں گے، ماضی میں فسادات ہوتے رہے ہیں۔ اور اگر آئر لینڈ کے دونوں حصوں کے درمیان سامان اور لوگوں کی آزادانہ نقل وحمل اور آمد ورفت جاری رہتی ہے تو یورپین یونین کا مطالبہ ہے کہ برطانیہ اور یونین کے درمیان ہارڈ کسٹم اور امیگریشن چیک پوسٹ کے لیے کوئی بیک اپ لائن ہونی چاہیے، جبکہ ٹرسامَے کہتی ہیں کہ ہم سمندر میں لائن کیسے کھینچ سکتے ہیں، کیوں کہ ایک ہی ملک ہے۔ سو اس مسئلے کا حل آسان نہیں ہے اور ٹرِسامے مشکل میں ہے۔ پس آج ماضی کی سپر پاور کا المیہ یہ ہے کہ بریگزٹ اُس کے گلے کا چھچھوندر بنا ہوا ہے، نہ نگلا جارہا ہے اور نہ اگلا جارہا ہے۔ ان مذاکرات کے بارے میں گارڈین اخبار نے لکھا: ’’یہ مذاکرات بے خبر لوگوں کے لیے کسی تیاری کے بغیر نامعلوم ایجنڈے کے تحت نامعلوم نتائج حاصل کرنے کے لیے کیے جارہے ہیں‘‘۔
ہمارا الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا جہل کو فروغ دینے کے لیے شہباز شریف، عبدالعلیم خاں، شیخ رشید اور فواد چودھری ایسے اہم موضوعات میں اتنا مصروف ہے کہ نئی نسل کو عالمی مسائل کے بارے میں آگہی دینے کے لیے ان کے پاس وقت ہی نہیں ہے اور شاید ہمارے کالج اور یونیورسٹی سطح کے نوجوان طلبہ بھی عالمی امور کی ان نزاکتوں سے آگاہ نہیں ہوں گے۔
فطرت سے بغاوت: کیتھولک مسیحیت میں ان کے مذہبی پیشوا مرد وزن تجرد کی زندگی گزارتے ہیں، شادی نہیں کرتے، وہ اس سے استدلال کرتے ہیں کہ سیدنا عیسیٰ ؑ نے شادی نہیں کی تھی، یہ لوگ رُہبان (راہب کی جمع) اور راہبات (راہبہ کی جمع) کہلاتے ہیں اور انگریزی میں انہیں Monks اور Nuns کہتے ہیں، یہ فطرت کے خلاف ہے۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نبی کریمؐ کے امتی کی حیثیت سے قیامت سے پہلے زمین پر اتریں گے اور علامہ ابن حجر عسقلانی نے لکھا ہے: ’’شادی بھی کریں گے‘‘، آپؐ کا فرمان ہے: ’’یہ تمہارے لیے کیسا مقامِ افتخار ہوگا کہ مسیح ابن مریم ؑ تمہارے درمیان اتریں گے اور تمہارا امام تم ہی میں سے ہوگا، (مسند احمد)‘‘۔ بالفرض شادی کی روایت سے کسی کو اختلاف بھی ہو تو وہ نبی ہیں اور نبی معصوم ہوتے ہیں۔ سیدنا زکریا نے جب سیدہ مریم کے حجرۂ عبادت میں اُن کے پاس بے موسم کا تازہ پھل دیکھا، تو اُن کے دل میں امنگ پیدا ہوئی کہ جو قادرِ مطلق بے موسم کا تازہ پھل عطافرما سکتا ہے، وہ بڑھاپے میں اولاد بھی عطا فرما سکتا ہے، سو انہوں نے اولاد کے لیے دعا کی اور اس کی قبولیت کی بابت قرآنِ کریم میں ہے: ’’بے شک اللہ تمہیں یحییٰ کی بشارت دیتا ہے جو کلمۃ اللہ (سیدنا عیسیٰ) کی تصدیق کرنے والے ہوں گے، سردار ہوں گے، عورتوں سے رغبت نہ رکھنے والے اور نیک لوگوں میں سے نبی ہوں گے، (آل عمران: 39)‘‘۔ پس غیرِ نبی کو چاہیے کہ اپنے آپ کو انبیائے کرام علیہم السلام کی خصوصیات پرقیاس نہ کرے۔ سیدنا محمد رسول اللہ ؐ کی بھی بہت سی خصوصیات وامتیازات ہیں جو امت کے لیے واجب الاتباع نہیں ہیں، جیسے: ایک وقت میں چار سے زیادہ ازواجِ مطہرات کا نکاح میں ہونا، افطار کیے بغیر پے در پے روزے رکھنا اور تہجد کی نماز کا اضافی ہونا شامل ہے۔ اس لیے سنت صرف آپؐ کے اُن اقوال، افعال اور احوالِ مبارکہ کو کہتے ہیں جو امت کی اتباع کے لیے ہیں۔
عیسائی مذہبی پیشواؤں کا تجرُّد کا شِعار فطرت کے خلاف ہے اور ان کے منفی نتائج کا برآمد ہونا ناگزیر ہے۔ چنانچہ اب کیتھولک عبادت گاہوں میں بچوں اور خود ان کی راہبات (Nuns) کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات منظر عام پر آرہے ہیں۔ پہلے تو کیتھولک چرچ ان جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا تھا، لیکن کچھ عرصے سے مغربی پریس نے ان واقعات کو بہت زیادہ اچھالنا شروع کردیا ہے۔ لہٰذا اب کیتھولک مسیحیت کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے متحدہ عرب امارات کے دورے کے موقع پر اعتراف کیا ہے کہ راہبات کو جنسی غلام بنا لیا جاتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ مسیحی چرچ اس پر غور کرے اور اپنے راہبوں (Monks) اور راہبات (Nuns) کو شادیوں کی اجازت دے تاکہ چرچ میں بچوں اور عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا سدِّباب ہوسکے۔ قانون فطرت سے انحراف منفی نتائج کو جنم دیتا ہے، آپ پانی کے فطری بہاؤ کو روکیں گے تو وہ کسی اور جانب سے اپنا راستہ بنالے گا۔
الحمد للہ علیٰ احسانہٖ! میرے فتاویٰ کا مجموعہ ’’تفہیم المسائل‘‘ کے عنوان سے دس مجلّدات پر مشتمل شائع ہوچکا ہے، گیارہویں جلد زیرِ ترتیب ہے اور میرا کالموں کا مجموعہ ’’آئینہ ایام‘‘ کے نام سے پانچ مجلدات پر مشتمل شائع ہوچکا ہے اور ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور/کراچی سے دستیاب ہے، تفہیم المسائل کا مجموعہ خواجہ بک ڈپو جامع مسجد دہلی کے زیرِ اہتمام انڈیا سے بھی شائع ہوچکا ہے۔ الحمد للہ! ہمارے کالموں اور تحریروں کے قارئین دیگر ممالک کے علاوہ بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں بھی کافی تعداد میں ہیں، ان کے ساتھ برطانیہ کے دوست علماء کے توسط سے ہمارا بالواسطہ رابطہ ہے۔