آئی ایم ایف سے معاہدہ رحمت یا زحمت؟

300

وزیر اعظم عمران خان نے دبئی میں آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹین لیگارڈ سے ملاقات کی ہے۔ ملاقات میں عمران خان نے انہیں پاکستان میں معاشی اصلاحات کے ایجنڈے پر بریفنگ دی اور کرسٹین لیگارڈ نے پاکستان کی معاشی مشکلات کو کم کرنے کی بھرپور یقین دہانی کرائی۔ صاف دکھائی دے رہا تھا کہ بیل آؤٹ پیکیج کے حوالے سے کئی ماہ کے مذاکرات کے بعد آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان اتفاق ہوگیا ہے۔ وزیر خزانہ اسد عمر نے آخر کار اس بات کی تصدیق کر دی کہ فریقین معاہدے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ انہوں نے یہ تاثر بھی دیا کہ اس عرصے میں آئی ایم ایف نے پاکستان کے موقف اور اعتراض کو سمجھ لیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں پاکستان کی شرائط کو تسلیم کر لیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شرائط صرف دینے والے اور اوپر والے ہاتھ کی ہوتی ہیں نیچے والا ہاتھ تو حالات سے مجبور ہوتا ہے اور مجبور ی کی کوئی شرط نہیں ہوتی اور اگر ہو بھی تو اس کی پرکاہ برابر اہمیت نہیں ہوتی۔ اس کھینچا تانی میں شرائط تو آئی ایم یف ہی کی تھیں اور حکومت ان شرائط کو نرم کرانے کے لیے کوشاں رہی۔ حکومتی نمائندوں کی طرف سے یہ کہا جا رہا تھا کہ آئی ایم ایف سے قرض لینا کوئی مسئلہ نہیں بلکہ اصل مسئلہ آئی ایم ایف کی شرائط ہیں۔ ظاہر ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط اس قدر کڑی تھیں جن پر عمل کرنے سے حکومت کی عوامی ساکھ کو بری طرح نقصان پہنچ سکتا تھا۔
پاکستان کی ماضی میں ریت رسم تو یہ تھی کہ قرض کی ایک اور قسط سے ماضی کے قرض کی قسطیں ادا کی جاتی تھیں۔ اس طرح ملک قرض در قرض کے گھن چکر کا شکار تھا۔ حد تو یہ کہ اب ہر بچہ مقروض پیدا ہوتا تھا۔ گویا معصوم نسلوں کو بھی ناکردہ جرم کی سزا مل رہی تھی۔ قرض کے پیسوں سے بڑے بڑے منصوبے لگ رہے تھے، عیاشیاں اور اللے تللے جار ی تھے۔ غیر ترقیاتی اخراجات کے نام پر جاری عیاشیاں اسی قرض سے چل رہی تھیں۔ آئی ایم ایف بھی ہماری ان حرکتوں سے تنگ آچکا تھا۔ رہی سہی کسر سی پیک نے پوری کر دی تھی۔ مغربی ممالک کی آنکھوں میں یہ منصوبہ خار کی طرح کھٹک رہا ہے اور اس منصوبے کی وجہ سے مغربی ملکوں کا رویہ سخت سے سخت تر ہو رہا تھا چوں کہ عالمی مالیاتی ادارے مغربی ممالک بالخصوص امریکا کے زیر اثر ہیں اس لیے یہ ادارے کچھ اور ناز نخرے دکھانے لگے تھے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اس معاملے پر یہ کہہ کر مداخلت ضروری سمجھی تھی کہ آئی ایم ایف چینی قرضوں کی ادائیگی کے لیے پاکستان کو قرض نہ دے۔ رخصت ہونے والی حکومت کو اس معاشی مشکل کا بخوبی اندازہ تھا۔ اسی لیے جب بیتے کل کی حکومت اپوزیشن بنی تو اسے یقین تھا کہ عمران خان کی حکومت چند ہی ماہ میں اس معاشی دلدل میں دھنس کر رہ جائے گی اور یوں اس کے متبادل آپشنز پر غور شروع ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت ابتدا ہی میں ڈولتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔
حکومت نے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط سے بچنے اور اپنی سودے بازی کی پوزیشن کو مضبوط بنانے کے لیے دوست ملکوں سے قرض لینے کی حکمت عملی اختیار کی۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، چین سمیت دوست ملکوں نے اس مشکل سے نکلنے میں پاکستان کی مدد کی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت منی بجٹ اور اس سے پہلے مہنگائی کا ایک بم عوام کے سر پر پھوڑ چکی ہے۔ اپوزیشن بھی الزام عائد کررہی ہے حکومت پہلے ہی آئی ایم ایف کی شرائط پوری کر چکی ہے اب معاہدہ محض رسمی کارروائی ہے۔ آئی ایم ایف کے قرض کی اس قسط کا تعلق اگلے مالی سال 2019,20 سے ہے۔ رواں مالی سال کے لیے حکومت منی بجٹ پیش کر چکی ہے اور اسی طرح آئی ایم کی شرائط کے فوائد اور نقصانات کی جھلک میں اگلے مالی سال کے بجٹ میں کھائی دے گی۔ گویا مہنگائی کا ایک اور جن مئی جون میں عوام کو دبوچنے کو تیار بیٹھا ہے۔ آئی ایم ایف کی اس قسط سے قومی معیشت کو ایک اور نشہ آور انجکشن لگ جائے گا۔ وقتی طور پر جاں بہ لب مریض کو اس سے قرار بھی آجائے گا مگر مرض اپنی جگہ موجود رہے گا۔ حکومت تیقن کے ساتھ باربار اسے آخری بیل آؤٹ پیکیج قرار دے رہی ہے مگر اس دعوے اور عملی حقیقت میں صدیوں کا فاصلہ ہے۔ برآمدات بڑھائے اور درآمدات کم کیے بغیر اور ٹیکس دہندگان کا دائرہ وسیع کیے بغیر یہ دعویٰ عملی شکل میں ڈھلتا نظر نہیں آتا۔ جن لوگوں کو ٹیکس چوری کرنے کی لت پڑ چکی ہے ایسا کون سا انقلاب آگیا کہ وہ رضاکارانہ طور پر ٹیکس دینے پر آمادہ ہوں گے؟۔ اس لیے بہت سے دعوؤں کی طرح اس قسط کو آخری قرار دینے میں حکومت جلدی کر رہی ہے۔ وسائل دستیاب ہونے کے بعد حکومت کس طرح منصوبہ بندی کرکے معاشی بحران کو کم کرتی ہے یہ اصل سوال ہے۔
قرض کی متوقع قسط کے بعد حکومت کا اصل امتحان شروع ہونے جا رہا ہے۔ ماضی کے طور طریقے چھوڑ کر سادگی اور کفایت شعاری اپناتے ہوئے حکومت کچھ مختلف کر سکتی ہے۔ حکومت جو بھی کرے اسے عوام کی مہنگائی سے جھکی ہوئی کمر کو مزید جھکانے سے گریز کرنا چاہیے۔ کسی حکومت کی معاشی پالیسی کی کامیابی اور ناکامی کا میعار یہی ہے کہ اس کے اثرات عوام پر مثبت یا منفی کس انداز سے مرتب ہوتے ہیں۔