مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی زرداری کے اتحاد پر سیاسی مبصرین حیرت زدہ ہیں اور ہم ان کی حیرت پر حیران ہیں۔ ان مبصرین نے دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے اتحاد کو سیاسی معجزہ قرار دیا ہے، حالاں کہ ان لوگوں کا ملکی سیاست پر تبصرہ کرنا ہی سب سے بڑا چمتکار ہے کیوں کہ یہ مبصرین ملکی سیاست پر نظر رکھتے ہیں اور نہ سیاست دانوں کی نفسیات سے واقف ہیں۔ جب یہ لوگ میاں نواز شریف اور زرداری کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ یہ لوگ دریا کے دو کنارے ہیں کبھی نہیں مل سکتے، ہمیشہ ایک دوسرے کے گلے پڑتے رہیں گے تو ہم نے کہا تھا کہ وطن عزیز کی سیاست میں جو ہوتا ہے وہ دکھائی نہیں دیتا اور جو نہیں ہوتا وہ دکھائی دیتا ہے۔ میاں نواز شریف اور زرداری جو ایک دوسرے کے گلے پڑتے دکھائی دے رہے ہیں ایک دوسرے کو اچھوت قرار دے رہے ہیں، مناسب وقت کے انتظار میں ہیں، جوں ہی وہ وقت آئے گا یہ ایک دوسرے کے گلے لگے ہوں گے۔
وزیراعظم عمران خان کی سیاست مخالفین کی ٹانگیں کھینچنے کے سوا کچھ نہیں، ان کا سیاسی وژن مخالفین کو جیل بھیجنا ہے اور اگر ان کا کوئی مخالف بنی گالا چلا جائے تو وہ پوتر ہوجاتا ہے، موصوف نے بنی گالا کے تالاب کو گنگا بنادیا ہے مگر سیاسی گنگا تو جاتی امرا اور لاڑکانہ میں بھی بہہ رہی ہے وہاں بھی اشنان کرنے والا پوتر ہوجاتا ہے۔ شاید وزیر اعظم عمران خان کو اس حقیقت کا ادراک نہیں کہ جب بلی کے لیے سبھی راستے بند کردیے جائیں تو وہ دشمن کا نرخرا چبا ڈالتی ہے سو، اس آفاقی اصول کی روشنی میں عمران خان کو اپنے نرخرے کی خیر منانا چاہیے اور اس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ سیاست میں لچک بہت ضروری ہے جوں ہی اس کی لچک میں کمی آتی ہے وہ خشک لکڑی کی طرح ٹوٹ جاتی ہے۔ یوں بھی کرپشن کو جمہوریت سے الگ نہیں کیا جاسکتا کہ ان دونوں کا تعلق چولی اور دامن جیسا ہی ہے، بس! اتنی احتیاط ضروری ہے کہ دامن اور چولی میں سے کوئی ایک سلامت رہے۔ میاں نواز شریف اور زرداری جس طرح اپنے اختیارات کو بروئے کار لائے ہیں اس نے چولی اور دامن کو گڈمڈ کردیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا کوئی مشیر کہتا ہے کہ میاں نواز شریف اور زرداری کے دامن میں سو چھید ہیں، کوئی بتاتا ہے کہ ان کی چولی میں سو چھید ہیں، یوں عمران خان ان کی چولی اور دامن میں اس طرح اُلجھے ہیں کہ سلجھنے کا امکان چولی اور دامن میں چھپ گیا ہے۔ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں تحریک پاکستان کی قیادت کا مقصد پاکستان کا حصول تھا اسی طرح تحریک انصاف کی قیادت کا مقصد وزارت عظمیٰ کا حاصل کرنا تھا۔ تحریک پاکستان کی قیادت نے یہ سوچا ہی نہ تھا کہ قیام پاکستان کے بعد کیا کرنا ہے۔ بندر کے ہاتھ جگنو لگ جائے تو وہ جگنو کی روشنی سے رہنمائی حاصل نہیں کرتا بلکہ جگنو کو مٹھی میں بند کرکے روشنی کے اس چھوٹے سے دریچے کو بھی بند کردیتا ہے۔ بندر کی بدنصیبی یہ ہے کہ وہ جگنو سے رہنمائی حاصل کرنے کے بجائے اسے کھلونا سمجھ کر کھیلنے لگتا ہے، پاکستان کی بدنصیبی بھی یہی ہے کہ سیاست دانوں نے رہنمائی کو مشغلہ بنالیا ہے ان کی نظر میں پاکستان ایک ایسی تجربہ گاہ ہے جس میں سیاسی تجربے کیے جاتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی اپنی وزارت عظمیٰ کو عظمیٰ بیگم بنالیا ہے۔ نواز لیگ کے رہنما مشاہد اللہ خان کا مشاہدہ درست ہے کہ عمران خان کی ہتھیلی میں وزارت عظمیٰ کی لکیر نہیں ہے مگر وہ یہ بھول گئے کہ لکیریں تو تلوے پر بھی ہوتی ہیں اور وہ کسی بھی وقت ہتھیلی پر اُبھر سکتی ہیں۔