ہوئے تم دوست جس کے

230

 

 

مقبوضہ کشمیر سے نکلنے والے تمام دریاؤں کا بہاؤ پاکستان کی جانب ہے، اس لیے بین الاقوامی قوانین کے مطابق ان پر پاکستان کا حق تسلیم کیا جاتا ہے۔ بھارت نے ریاست جموں و کشمیر پر ناجائز قبضے کے بعد دریائی پانی کے حق کو متنازع بنانے کی کوشش کی تو پاکستان نے 1960ء کی دہائی میں عالمی قوتوں کے تعاون سے بھارت کے ساتھ سندھ طاس کا معاہدہ کیا، جس میں ورلڈ بینک کو ضامن کی حیثیت حاصل تھی۔ اس معاہدے میں بھارت کو یہ رعایت دی گئی تھی کہ وہ پاکستان کی طرف بہنے والے دریاؤں کا پانی استعمال تو کرسکتا ہے لیکن ان کے بہاؤ کو روک نہیں سکتا اور نہ پانی ذخیرہ کرسکتا ہے۔ معاہدہ طے پانے کے بعد دونوں ملکوں میں باقاعدہ سندھ طاس کمیشن قائم کیا گیا جس کا مقصد جانبین کی طرف سے معاہدے پر عملدرآمد کا جائزہ لینا اور دوطرفہ تعاون کو فروغ دینا تھا۔ ریکارڈ بتاتا ہے کہ بھارت نے ابتدا ہی سے معاہدے کی خلاف ورزی کو اپنا معمول بنالیا تھا۔ اس نے تمام پاکستانی دریاؤں پر ڈیم بنانے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی لیکن اسے راز رکھنے کے لیے اس نے سندھ طاس کمیشن کا سہارا لیا اور کمیشن کے پاکستانی چیپٹر پر سرمایہ کاری کی اور اس کے سربراہ و ارکان کو اپنا ہمنوا بنالیا۔ سید جماعت علی پاکستان میں 25 سال سے بھی زیادہ عرصے تک سندھ طاس کمشنر رہے، وہ کمیشن کے اجلاس میں شرکت کے لیے بھارت بھی جاتے رہے، لیکن واپسی پر انہوں نے ہمیشہ ’’سب اچھا ہے‘‘ کی رپورٹ پیش کی اور پاکستانی دریاؤں پر بھارتی تجاوزات کے بارے میں ہمیشہ حکومتِ وقت کو اندھیرے میں رکھا اور اسے بھارت کے خفیہ منصوبوں کے خلاف عالمی سطح پر کسی چارہ جوئی کے قابل نہ چھوڑا۔ اس کا اندازہ دریائے جہلم کا رُخ تبدیل کرنے کے بھارتی منصوبے کی تکمیل سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ بھارت ایک سرنگ کے ذریعے دریائے جہلم کا رُخ بدلنے میں کامیاب ہوگیا ہے اور اب پاکستان میں داخل ہونے والے دریائے جہلم کی حیثیت ایک باریک سی ندی کے سوا کچھ نہیں ہے، جب کہ بھارت نے دریائے چناب پر بگلیہار ون اور ٹو تعمیر کرکے اس دریا کو پاکستان کے لیے بالکل خشک کردیا ہے۔ اس سے پہلے وہ یہی سلوک راوی، ستلج اور بیاس کے ساتھ بھی کرچکا ہے۔ یہ تینوں دریا پاکستان میں اپنی بربادی کا ماتم کررہے ہیں۔ جماعت علی شاہ اپنا ’’مشن‘‘ مکمل کرکے رخصت ہوئے تو ان کی جگہ ان ہی کے قبیلے کے سید مراد علی شاہ نے سندھ طاس کمشنر کا منصب سنبھالا ہے، وہ بھی اپنے پیشرو کی طرح بھارت نوازی میں اپنا جواب نہیں رکھتے۔ وہ اپنے وفد کے ہمراہ پچھلے دنوں بھارت کے دورے پر گئے تھے جہاں انہیں دریائے چناب پر زیر تکمیل پن بجلی کے منصوبوں کا معائنہ کروایا گیا۔ انہوں نے واپسی پر اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ انہیں جو کچھ دکھایا اور بتایا گیا ہے اس سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔ سید مراد علی شاہ نے اپنے دورے میں بھارتی تعاون پر حکومت کا شکریہ ادا کیا، لیکن غیر جانبدار ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت نے پاکستانی وفد کو دورہ تو کرادیا لیکن اسے ان مقامات کی تصاویر لینے کی اجازت نہ دی۔ یہ اصل منصوبوں سے ہٹ کر دوسرے مقامات تھے جن کا پاکستانی وفد ادراک نہ کرسکا۔ اسے بریفنگ کے دوران سوالات پوچھنے کی بھی اجازت نہ تھی، اس کے باوجود پاکستانی وفد کے سربراہ نے اس دورے کو کامیاب قرار دیا ہے اور بھارتی حکومت کے تعاون پر اس کا شکریہ ادا کیا ہے۔
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو!
یہ تو ہے پاکستان کے قومی مفادات کے ساتھ غداری اور بیوفائی کی کہانی۔ اب پانی کے مسئلے پر پاکستانی حکمرانوں اور سیاستدانوں کی بے حسی اور سفاکی ملاحظہ ہو۔ پنجاب کے تمام دریا بھارت نے ایک طویل منصوبہ بندی کے ذریعے خشک کردیے لیکن پنجاب کے ’’مغل حکمران‘‘ جو 30 سال تک اقتدار پر قابض رہے، صوبے کی زراعت کو تباہی سے بچانے کے لیے پانی کا ایک ذخیرہ بھی تعمیر نہ کرسکے بلکہ اس کے برعکس لاہور میں اورنج ٹرین کی تعمیر پر 300 ارب روپے لٹادیے۔ اس کی حیثیت ایک تفریحی منصوبے سے زیادہ نہیں ہے جو ہنوز زیر تکمیل ہے اور جس کے لیے حاصل کردہ چینی قرضے پر سود بڑھتا جارہا ہے۔ یہ اتنی بڑی رقم ہے کہ اس سے ایک نہیں چار بڑے ڈیم تعمیر کیے جاسکتے تھے۔ پانی کے بحران کا نوٹس بھی عدالت عظمیٰ کو لینا پڑا اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے عدالتی فعالیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے 2 آبی ذخائر کی تعمیر کے لیے ’’ڈیم فنڈ‘‘ قائم کرنے کا اعلان کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی ان کی ہمنوائی کی۔ ’’ڈیم فنڈ‘‘ کے لیے عوام اور خاص طور پر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے جذباتی اپیلیں کیں۔ عمران خان نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے اپیل کی کہ وہ اس فنڈ میں کم از کم ایک ہزار ڈالر فی کس عطیہ دیں۔ چیف جسٹس ثاقب نثار اپنی ریٹائرمنٹ سے چند روز پہلے فنڈ جمع کرنے برطانیہ بھی گئے لیکن تمام تر جدوجہد کے باوجود ’’ڈیم فنڈ‘‘ میں چھ سات ارب سے زیادہ جمع نہ ہوسکے اور اب تو اس فنڈ کا تذکرہ ہی معدوم ہوگیا ہے۔ محترم ثاقب نثار جنہوں نے یہ کہا تھا کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد آبی ذخائر کی تعمیر کی خود نگرانی کریں گے، گوشہ گمنامی میں چلے گئے ہیں اور آبی ذخائر کا ذکر بھی قصہ پارینہ بن گیا ہے۔ بھارتی لابی کالا باغ ڈیم کو پہلے ہی متنازع بنا چکی ہے اب کوئی اس کا نام لینا بھی گوارا نہیں کرتا۔ دیامر اور بھاشا ڈیم بھی اس لابی کو منظور نہیں ہے۔ سندھ سے اِن دونوں آبی ذخائر کے خلاف بھی آوازیں اُٹھ چکی ہیں، البتہ پیپلز پارٹی نے مصلحتاً خاموشی اختیار کررکھی ہے۔ بھارت اس وقت دریائے سندھ کا رُخ تبدیل کرنے کے منصوبے پر بھی کام کررہا ہے۔ یہ واحد دریا ہے جس پر پاکستان کا بلاشرکتِ غیرے حق تسلیم کیا گیا ہے لیکن بھارت اِس حق کی نفی کررہا ہے اور زیر زمین سرنگوں کے ذریعے دریائے سندھ کے پاکستان کی جانب بہاؤ کو بڑی حد تک سُست کرچکا ہے۔ اگر بھارت اپنے منصوبے پر عملدرآمد میں پوری طرح کامیاب ہوگیا تو پاکستان اپنے آبی ذخائر کے لیے پانی کہاں سے لائے گا؟
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے اپنے دریاؤں کے تحفظ اور بھارت سے اپنا حق منوانے میں مجرمانہ چشم پوشی سے کام لیا ہے اور خود اس کے اندر موجود بھارتی ایجنٹ اس کی جڑیں کاٹتے رہے ہیں۔ موجودہ حکومت پانی کے سنگین بحران سے بالکل لاتعلق نظر آتی ہے۔ اس کے پاس کوئی آبی پالیسی نہیں ہے جسے وہ عملی جامہ پہنا سکے۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ ملک کے پالیسی ساز ادارے اس بحران پر توجہ دیں اور ملک کو تباہی سے بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔