عالمی اقتصادی فورم دُنیا کے اہم اداروں میں سے ایک ہے۔ اس فورم کے بانی کلاز شواب (Klaus Schwab) ہیں۔ کلاز شواب کا شمار عالمی مدبرین میں ہوتا ہے۔ امریکا کے ممتاز ہفت روزہ ٹائم کے حالیہ شمارے میں کلاز شواب کا ایک اہم انٹرویو شائع ہوا ہے۔
کلاز شواب نے اس انٹرویو میں کہا ہے کہ پہلے صنعتی انقلاب نے برطانیہ کی اقتصادی اور سیاسی طاقت کو جنم دیا۔ دوسرے صنعتی انقلاب نے امریکا کی عالمی بالادستی کو جنم دیا۔ اس بالادستی کو کمپیوٹر سے برآمد ہونے والے تیسرے صنعتی انقلاب نے تقویت پہنچائی۔ کلاز شواب کے مطابق اس وقت دنیا میں اس بات کی جدوجہد ہورہی ہے کہ چوتھے صنعتی انقلاب کا رہنما کون ہوگا۔ کلاز شواب کے بقول ہمیں اس سلسلے میں یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ ہمارے فلسفے ایک دوسرے سے مختلف ہوسکتے ہیں مگر ہم سب ایک مفاد کی بنیاد پر متحد ہیں۔ کلاز شواب نے چوتھے صنعتی انقلاب کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ چوتھے صنعتی انقلاب سے ایسی دنیا وجود میں آئے گی جس میں انسانی محنت کی بہت کم ضرورت ہوگی، اس لیے کہ محنت کا کام بڑی حد تک روبوٹس سنبھال لیں گے۔ چناں چہ چوتھے صنعتی انقلاب کی دُنیا میں ہمارے سامنے اہم ترین سوال یہ ہوگا کہ زندگی کا مقصد کیا ہے؟ ہمیں اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہوگا۔ کلاز شواب کے بقول اب تک ہماری زندگی کا مقصد دو چیزوں سے Define ہوا ہے۔ ایک پیداوار یا Production اور دوسری صارفیت یا Consumption۔ کلاز شواب کے مطابق اب ہمیں پیداواری اور صارفیت کے بیانیے سے آگے بڑھ کر شراکت یعنی Sharing اور نگہداشت یا Caring کے تصور کی طرف آنا ہوگا۔ کلاز شواب نے کہا کہ میں اب جب نئی نسل سے بات کرتا ہوں تو وہ بڑے گھروں یا Big Villa کے حصول کی خواہش کرتی نظر نہیں آتی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ صارفیت یا Consumption پر بھی کم انحصار کرنے لگی ہے۔ یہی نسل بڑی کمپنیوں کو اپنا رویہ بدلنے پر مجبور کرے گی۔ جہاں تک مستقبل کا تعلق ہے تو ہمیں مستقبل میں لوگوں کو ایک سے زیادہ ہنر سکھانے ہوں گے اور لوگوں کو بیک وقت کئی اہلیتوں کا حامل بنانا ہوگا۔ مگر صرف یہ کافی نہیں ہوگا۔ ہمیں انسانی خوبیوں کی بھی ضرورت ہوگی۔ آخر کیا چیز ہمیں روبوٹ سے مختلف بناتی ہے؟۔ ایک وقت آسکتا ہے جب روبوٹ ہم سے زیادہ ذہین ہوسکتا ہے مگر روبوٹ کبھی بھی محبت، احساسات، ہمدردی، درد مندی اور یکجہتی کے جذبات کا حامل نہیں ہوسکتا۔ (ٹائمز۔ 4 فروری تا 11 فروری 2019ء)
مغرب تو چوتھے صنعتی انقلاب پر گفتگو کررہا ہے مگر ہم پہلے اور دوسرے صنعتی انقلاب کے درمیان کہیں کھڑے ہیں۔ چناں چہ ہمارے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہم مغرب کے تخلیق کیے ہوئے جس صنعتی ماحول میں سانس لے رہے ہیں اس میں انسان کی اصل اہمیت یہ نہیں ہے کہ وہ اشرف المخلوقات ہے، خدا کا بندہ ہے، وحی کے مطابق زندگی بسر کرنے والا ہے، ایک روحانی اور اخلاقی حقیقت ہے، صاحب علم ہے، خدا اور انسان سے محبت کرنے والا ہے بلکہ انسان کی اہمیت یا تو یہ ہے کہ وہ چیزیں اور آلات پیدا کرنے والا ہے یا پھر اس کی اہمیت صرف یہ ہے کہ وہ اشیا اور آلات استعمال کرنے والا ہے اور بس۔ بدقسمتی سے پیداوار اور صارفیت یعنی Production اور Consumption دونوں کا مرکز و محور سرمایہ ہے۔ پیدا کرنے والا اس لیے اشیا اور آلات پیدا کررہا ہے کہ وہ پیسہ کمانا چاہتا ہے اور صارف اس لیے اہم ہے کہ اس کے پاس اتنے مالی وسائل ہیں کہ وہ پیدا کی ہوئی چیزیں اور آلات خرید سکتا ہے۔ اگر کسی شخص، گروہ یا قوم میں اشیا اور آلات خریدنے کی سکت نہیں تو وہ خواہ کتنا ہی اچھا اور کتنا ہی نیک انسان ہو اس کی حیثیت زمین کے بوجھ سے زیادہ نہیں۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ مغرب کی پیدا کی ہوئی دنیا میں پوری زندگی سرمائے کے گرد طواف کررہی ہے، سرمایہ مغرب کی پیدا کی گئی زندگی اور نظام کا خدا ہے۔
کلاز شواب کا کہنا ہے کہ چوتھے صنعتی انقلاب میں ہمارے سامنے اصل سوال یہ ہوگا کہ زندگی کا مقصد کیا ہے؟ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ پہلے، دوسرے اور تیسرے صنعتی انقلاب میں تو زندگی چیزوں اور آلات سے Define ہورہی تھی اور اس کے دائرے میں زندگی کے (حتمی) مقصد کا سوال اُٹھ ہی نہیں رہا تھا مگر چوتھے صنعتی انقلاب کے برپا ہوتے ہی زندگی کے مقصد کا سوال اہم ہوجائے گا۔ آخر اس تفسیر کی کیا منطق ہوگی؟ زندگی کے مقصد یا اس کے معنویت کا سوال اپنی اصل میں ایک روحانی، ایک مذہبی اور ایک اخلاقی سوال ہے اور مغرب نہ کسی روحانیت کا قائل ہے نہ وہ کسی مذہب کو مانتا ہے اور نہ ہی اس کا کسی معروضی یا Objective اخلاقیات سے کوئی علاقہ ہے۔ اس تناظر میں کلاز شواب کے تجزیے کے دو ہی معنی ہیں، ایک یہ کہ مغرب سرمائے کی بندگی سے تھکنے لگا ہے اور وہ اپنا خدا بدلنے اور مذہب کی طرف مائل ہونے لگا ہے۔ اس تجزیے کی دوسری معنویت یہ ہے کہ چوتھے صنعتی انقلاب کا رہنما ضروری نہیں کہ مغرب ہو۔ چوں کہ چین نئی معاشی اور تکنیکی طاقت بن کر اُبھر چکا ہے اور ممکن ہے کہ مستقبل کی دُنیا اس کے ہاتھ میں ہو، اس لیے مغرب نے نئی دنیا میں مذہب کے احیا پر غور کرنا شروع کردیا ہے۔ بلاشبہ مغرب میں مذہب باالخصوص عیسائیت کا احیا ناممکن کی حد تک مشکل ہے لیکن چین کے سماجی ڈھانچے اور چین کی نفسیات اور ذہنیت کے دائرے میں مذہب کی موجودگی مغرب میں عیسائیت کے احیا سے بھی زیادہ دشوار ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عیسائیت مغرب کی اکثریت کا مذہب رہی ہو یا نہ رہی ہو مگر اس کا ثقافتی تجربہ ضرور ہے مگر چین میں مذہب اب ثقافت بھی نہیں رہا۔ بہرحال مغرب میں زندگی کی معنویت اور مقصد کا سوال پیدا ہوگا تو یہ تمام مذاہب باالخصوص اسلام کے لیے ایک بہت اچھی بات ہوگی اس لیے کہ اسلام ایک زندہ مذہب بھی ہے اور اس کے دائرے میں کروڑوں لوگ ایک مقصد کے تحت زندگی بسر کررہے ہیں۔ مغرب میں مقصد حیات کے سوال کا اُٹھنا اس لیے بھی اہم ہوگا کہ جدید مغرب کے لسانی نظریات زندگی میں طے شدہ معنی کے تصور کی نفی کررہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ معنی زندگی میں نہیں زبان کی لسانی ساخت میں پیوست ہیں۔ اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کسی معروضی مفہوم یا Objective Meaning کا کوئی وجود نہیں۔ چناں چہ چوتھے صنعتی انقلاب کے درمیان یا اس کے بعد اگر مغرب میں مقصد حیات کا سوال اُٹھے گا تو یہ بات اس امر کو تسلیم کرنے کے مترادف ہوگی کہ زندگی میں بہرحال معروضی معنی موجود ہیں۔
کلاز شواب کی فراہم کردہ یہ اطلاع بڑی حوصلہ افزا ہے کہ اب مغرب کی نئی نسل بڑے بڑے گھروں میں رہنے کا خواب نہیں دیکھتی اور وہ صارفیت پر بھی کم انحصار کرنے لگی ہے، لیکن مسئلہ یہ بھی ہے کہ مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام میں سرمائے کا ارتکاز اتنا بڑھ گیا ہے کہ ایک فی صد لوگوں کے پاس معاشرے کے 80 فی صد مالی وسائل آگئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس صورتِ حال میں طلبہ مغرب کی نئی نسل بڑے بڑے گھروں میں رہنے کا خواب کس طرح دیکھ سکتی ہے؟ آپ چاہیں تو اس مسئلے کو کراچی کے تجربے کی روشنی میں بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ آج سے پندرہ بیس سال پہلے کراچی میں متوسط طبقے کے ایک فرد کے لیے یہ ممکن تھا کہ وہ کراچی میں اپنے لیے کوئی گھر بنالے یا کوئی معقول سا فلیٹ خرید لے مگر مہنگائی کی وجہ سے اب متوسط طبقے کے اکثر افراد کے لیے کراچی میں گھر یا فلیٹ کا مالک ہونا ممکن نہیں رہا اور اگر کوئی شخص گھر کا خواب دیکھے گا بھی تو اسے گھر کے لیے بہت محنت کرنی ہوگی اور بہت انتظار کرنا ہوگا۔ یہ اس مسئلے کا ایک پہلو ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ مغرب کی نئی نسل نے بڑے بڑے گھروں کا خواب دیکھنا چھوڑ دیا ہے تو مسئلہ یہ ہے کہ مغرب نے تعیش کا جو تصور پیدا کیا ہے وہ عالمگیر ہوچکا ہے۔ چناں چہ مغرب میں اگر نوجوان نسل تعیش کی سطح سے بلند ہو بھی گئی تو بھی نئی اُبھرتی ہوئی معیشتوں کے کروڑوں نوجوان بہرحال بڑے بڑے گھروں، بڑی بڑی گاڑیوں اور فائیو اسٹار بودوباش کے خواب دیکھ رہے ہوں گے۔ بیمار مغرب ہو یا مشرق اس سے یا فرق پڑتا ہے؟ مغرب ساری دنیا کو بیمار کرکے اگر خود ایک دو بیماریوں کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہوبھی گیا تو اس سے ’’انسانیت‘‘ کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا۔ ایک وقت تھا کہ مغرب ایک جغرافیے کا نام تھا، مگر اب مغرب ایک جغرافیے کا نام نہیں۔ مغرب ایک تصورِ انسان کا نام ہے، ایک تصورِ زندگی کا نام ہے، ایک تناظر کا نام ہے۔ چناں چہ اب مغرب، مغرب میں بھی ہے، مشرق میں بھی ہے، شمال میں بھی ہے، جنوب میں بھی ہے، سیکولر لوگوں میں بھی ہے، مذہبی لوگوں میں بھی ہے۔ اس لیے کہ اکثر مذہبی لوگوں کی خواہشیں، آرزوئیں، تمنائیں اور خواب مغرب سے درآمد شدہ ہیں۔
کلاز شواب کا خیال ہے کہ مغرب کی نئی نسل بڑی یا ملٹی نیشنل کمپنیوں کی مزاحمت کرے گی، یہ خیال اس اعتبار سے خیالی پلاؤ کے سوا کچھ نہیں کہ مغرب کی سیاست پر ملٹی نیشنلز کا غلبہ ہے۔
ذرائع ابلاغ پر ملٹی نیشنل چھائی ہوئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس صورت میں نئی نسل ملٹی نیشنلز کی مزاحمت کیسے کرے گی؟ خاص طور پر اس صورت میں جب ان کی قیادت بھی کہیں موجود نہیں۔
مغرب کی تاریخ یہ ہے کہ اس نے اپنے سوا کسی کی Care نہیں کی اور اپنی نعمت کسی کے ساتھ Share نہیں کی۔ مگر کلاز شواب کہہ رہے ہیں کہ اب ہمیں Production اور Consumption کے بیانیے کو ترک کرکے Caring اور Sharing کے بیانیے کی طرف جانا چاہیے۔ کیا مغرب کے ایک مدبر کو Caring اور Sharing اس لیے عزیز ہوگئی ہے کہ اب دنیا یک مرکزی یا Unipolar نہیں رہی بلکہ اب دنیا میں طاقت کے ایک سے زیادہ مراکز پیدا ہوگئے ہیں۔ چناں چہ ایسی دنیا میں Caring اور Sharing کے ذریعے ہی مغرب زندہ رہ سکتا ہے ورنہ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ امریکی دانش ور فوکو یاما نے یہ کہتے ہوئے تاریخ کے خاتمے کا اعلان کردیا تھا کہ تاریخ کمیونزم اور سرمایہ دار کی کشمکش سے عبارت تھی، چوں کہ سرمایہ دارانہ نظام نے کمیونزم کو شکست دے دی ہے اس لیے تاریخ کا سفر بھی اپنے اختتام کر پہنچ گیا ہے۔ اب دنیا کے پاس کرنے کے لیے صرف ایک کام ہے اور وہ یہ کہ وہ مغرب کے تصورات اور اقدار کو سینے سے لگائے اور ان کے مطابق زندگی بسر کرے۔ فوکو یاما کے اس بیان میں جو ’’طنطنہ‘‘ ہے اور کلاز شواب کے بیان میں جو ’’عاجزی‘‘ اور ’’انکساری‘‘ ہے اسے محض دو شخصیتوں کے مزاج کا فرق سمجھنا حماقت ہوگا۔ اصل بات یہ ہے کہ معاشی بنیاد پر سہی طاقت کے مراکز مغرب سے مشرق کی جانب منتقل ہورہے ہیں اور مغرب بے بسی کے ساتھ یہ سب کچھ دیکھنے پر مجبور ہے۔
یہ سامنے کی بات ہے کہ مغرب نے مشینوں کی دُنیا تخلیق کی ہے اور اب خود مغرب مشینوں کی بڑھتی ہوئی طاقت سے خوفزدہ بھی ہے اور بیزار بھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی اور رفتار کا تعین اب انسان نہیں کررہے بلکہ اس کا تعین خود سائنس، ٹیکنالوجی اور سرمائے کی طاقت کررہی ہے۔ اس صورتِ حال کی وجہ سے اہلِ مغرب کو خیال آرہا ہے کہ روبوٹ انسان سے زیادہ ذہین تو ہو سکتا ہے مگر وہ انسان کی طرح محبت کرسکتا ہے نہ وہ جذبات و احساسات کا حامل ہوسکتا ہے۔ جدید مغرب کے اہم فلسفی ڈیکارٹ نے کہا تھا ’’I think there for i am‘‘۔ ’’میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں‘‘ مگر اب مغرب میں سوچنے والے روبوٹس پیدا ہوگئے ہیں، چناں چہ اب مغرب کہہ رہا ہے۔
I can love ther for i am
i can feel ther for i am
مگر بھائی۔ یہ بات تو آپ دو سو سال پہلے بھی کہہ سکتے تھے۔ لیکن اگر کل مغرب کی سائنس اور ٹیکنالوجی نے محبت کرنے اور جذبات رکھنے والے روبوٹس بھی پیدا کردیے تو پھر کیا ہوگا؟؟۔