لکشمی بائی کی سرزمین پر سلطان شہاب الدین کا حملہ؟

330

وادی کشمیر میں اونتی پورہ پلواما میں فوجی کانوائے پر خوفناک فدائی حملے نے بھارت کو نہ صرف ہلا کر رکھ دیا بلکہ دنیا بھر کی حکومتوں اور ذرائع ابلاغ کی توجہ ایک بار پھر جنوبی ایشیا کی طرف مرکوز کر دی ہے۔ حملے میں سینٹرل ریزرو پولیس کے بیالیس اہلکار مارے جا چکے ہیں اور اتنی ہی تعداد شدید زخمیوں کی بتائی جاتی ہے۔ اس حملے کی ذمے داری جیش محمد نامی عسکری تنظیم نے قبول کی مگر حقیقت میں حملہ آور ایک مقامی بائیس سالہ نوجوان عادل احمد ڈار تھا۔ حملے کے فوراً بعد عادل احمد ڈار کا پہلے سے ریکارڈ کیا گیا پیغام جاری ہوا جس میں یہ نوجوان نہایت جذباتی انداز میں ہتھیاروں کے درمیان کھڑے ہوکر بھارت کو للکار رہا ہے۔ اس کا چہرہ خوف اور خدشات سے عاری ہے اور یوں لگ رہا ہے کہ وہ بہت مطمئن اور مسرور ہے۔ جیش محمد کا سربراہ کون ہے اور یہ تنظیم کیا ہے؟ اس سے قطع نظر مگر جان قربان کرنے والا نوجوان ایک مقامی کشمیری تھا جس پر درانداز کی اصطلاح بھی لاگو نہیں ہو سکتی۔ وہ اپنے گھر سے تھوڑی ہی مسافت پر ایک میزائل بن کر خود بھی اُڑ گیا اور اپنے ساتھ درجنوں فوجیوں کو بھی ہواؤں میں تحلیل کر گیا۔ نریندر مودی نے کہا دہشت گرد یہ نہ بھولیں کہ انہوں نے مانیکرانیکا کی سرزمین پر حملہ کیا ہے۔ مانیکرانیکا کی اصطلاح مودی نے بہت سوچ سمجھ کر استعمال کی ہوگی۔ مانیکرانیکا ہندوستان کی جنگ آزادی کی اہم کردار لکشمی بائی ہیں جو جھانسی کی رانی کے نام سے بھی مشہور ہیں۔ ریاست جھانسی کی رانی نے اپنے خاوند مہاراج گنگا کی موت کے بعد جہاں راجا کے بھتیجے کی سازشوں کا مقابلہ کیا وہیں انگریزوں کو بھی اقتدار پر قبضے سے دور رکھ کر خود تاج وتخت سنبھال لیا اور اس کے بعد رانی نے پے در پے کئی جنگوں میں انگریزوں کا مقابلہ کیا۔ ایک جنگ میں وہ زخمی ہو کر جنگل کی طرف نکل گئیں اور ایک بن باسی کو یہ وصیت کی اس کی چتا کو گمنامی میں آگ لگائی جائے تاکہ انگریز اس کے مردہ وجود کو بھی نہ پاسکیں۔ یوں جھانسی کی رانی ہندوستان میں غیروں اور اپنوں کی سازشوں کے مقابل بہادری کا ایک استعارہ بن کر رہ گئی مگر لکشمی بائی انگریز کے خلاف جرات اور بہادری کی واحد مثال نہیں تھی بلکہ اس طرح کی مزاحمت سلطان فتح علی المعروف ٹیپو سلطان اور خود مغلیہ سلطنت کے سربراہ بہاد رشاہ ظفر نے بھی کی تھی۔ اول الذکر تو مزاحمت کرتے کرتے جان سے گزرگیا اور آخر الذکر کا مقدر رنگون کا عقوبت خانہ قرار پایا۔ نریند ر مودی نے اگر بھارت کو جھانسی کی رانی کا ورثہ قرار دیا تو یہ سوال پیدا ہونا فطری ہے کہ پھر جھانسی کا تخت کہاں ہے؟ تخت پر قبضے کو پہلا دعوے دار انگریز کون ہے؟ اور تخت پر قبضے کا دوسرا خواہش مند مہاراج گنگا کا قاتل اور بھتیجا علی بہادر کون ہے؟۔
پاکستان، بھارت اور کشمیر کے تعلقات کے بھنور میں اگر جھانسی کا تخت کشمیر ہے جس پر بھارت کا قبضہ ہے تو پھر پاکستان انگریز اور خود کشمیری علی بہادر ہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ بھارت کشمیر کو نہ پاکستان اور نہ کشمیریوں کے حوالے کرے گا۔ حقیقت میں اس اُلجھی ہوئی سہ فریقی کہانی میں کوئی انگریز نہیں اور کوئی علی بہادر نہیں۔ عادل احمد ڈار کا اگر جھانسی سے تعلق نہیں تو بھی وہ سلطان شہاب الدین کی سرزمین سے تعلق رکھتا ہے جس نے اپنے وطن کی سرحدوں کو جرات اور بہادری سے کشمیر کے پہاڑوں سے برصغیر کی وسعتوں تک دراز کیا تھا۔ اس کے بعد آج تک ایسے ہی کردار جابجا ملتے ہیں۔ ہر تہذیب کی ایک کہانی ہوتی ہے اور اس میں عروج وزوال پر مبنی کردار ہوتے ہیں۔ خود ایک بائیس سالہ لڑکا عادل احمد ڈار اپنے وجود کو میزائل بنا کر اور اس کے چیتھڑے اُڑا کر اپنی ذہنیت اور تہذیب کا تعارف کراتا ہے۔ پاکستان، بھارت اور کشمیر کے مسئلے کو تاریخ کی گہرائیوں اور علامتی اور فلسفیانہ دنیاؤں میں لے جانے کا مطلب اسے مزید اُلجھانا ہے۔ اس کو اُلجھنے سے بچانے کے لیے اس کی 1947 کے بعد کی تاریخ کو سامنے رکھنا ضروری ہے اور اسی تاریخ کے تناظر میں اس قضیے کو حل کیا جا سکتا ہے جب ہم کشمیر کے جنوبی ایشیا کے فلش پوائنٹ ہونے کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ کشمیر ایک مسئلہ ہے۔ یہ صرف پاکستان کی ناک اور انا کا سوال نہیں بلکہ کشمیریوں کی عزت، انا اور آزادی کا معاملہ بھی ہے۔ پاکستان اپنے طور پر بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کے کئی تجربات کر چکا اور بھارت کشمیریوں کے ساتھ دوطرفہ اصول کی بنیادپر معاملات طے کرنے کی کوششیں کر چکا مگر نتیجہ صفر +صفر = صفر کے سوا کچھ برآمد نہ ہوا۔
عادل احمد ڈار کی چھاتی پر کسی بھی تنظیم کا اسٹکر ہو مگر اس کا کشمیری ہونا، مقامی ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ کشمیر میں اگر اضطراب ہے تو کوئی وجہِ اضطراب بھی ہوگی۔ کوئی وجہ تو ہے کہ کئی پی ایچ ڈی اسکالر بندوق اُٹھا کر جان لڑا اور گنو ابیٹھے۔ پی ایچ ڈی اسکالر کسی کچے ذہن اور جذباتی روح کا نام نہیں ایک محقق کا نام ہوتا ہے جس نے ٹھنڈے دل وماغ سے تحقیق کرکے ڈگری حاصل کی ہوتی ہے۔ ’’بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی‘‘ کے مصداق جھانسی کی رانی کی کہانی چھیڑے بغیر بھارت بس اس بات پر غور کرے تو سر ی نگر سے دہلی اور لاہور تک ماؤں کے بین ہوں نہ گھر ماتم کدے بنیں۔ کسی کی آنکھوں سے خواب چھنیں نہ کوئی آنکھ بے نور ہو۔ جھانسی کی رانی، ٹیپو سلطان، سلطان شہاب الدین اور سلطان زین العابدین کی باتوں کو چھوڑ کر نہرو، جناح، ہری سنگھ، شیخ عبداللہ اور چودھری غلام عباس کے دور میں رہ کر ہی اُلجھی ہوئی ڈور کا سرا تلاش کیا جاسکتا ہے۔ یہ بات خود بھارت کے ذی ہوش لوگ بھی کر رہے ہیں۔ اونتی پور حملے کے بعد بھارت کے معتبر اخبار ’’ہندوستان ٹائمز‘‘ نے بھی اپنے اداریے Kashmir; The Centre must choose options carefully میں لکھتا ہے کہ ’’دہشت گردوں کا پیچھا ضرور کرنا چاہیے مگر یہ بات فراموش نہیں کی جانی چاہیے کہ کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے۔ ایسے میں صبر کرنا حد درجہ مشکل ہے جب آپ کے فوجی اتنی بڑی تعداد میں مارے گئے ہوں مگر یہ بھی یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ دہشت گردی کے نہانہ خان�ۂ دل میں سیاست ہی موجزن ہوتی ہے۔ سپاہیوں کو زمین پر تعینات کرنا ہوتا مگر انہیں مرنا نہیں چاہیے۔ بھارت ردعمل ظاہر کرے مگر یہ منحوس حقیقت یاد رکھے کہ یہ مقامی لوگ ہیں جو اپنے جسموں کو میزائل بنا نے پر آمادہ ہوتے ہیں‘‘۔