ہم بنجاروں کا حال مت پوچھو

218

 

 

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان 2 روزہ تاریخی دورہ پر اتوار کی رات پاکستان پہنچ گئے۔
خبر کے مطابق عمران خان نے عشائیہ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے لاکھوں مزدور آپ کے پاس ہیں۔ یہ سب میرے دل کے قریب ہیں لیکن کچھ عرصے سے مشکلات کا شکار ہیں اور اسی طرح کئی ہزار افراد جو قصداً یا سہواً کسی جرم کا شکار ہوکر سعودیہ کی قید میں ہیں۔ میں اپنے محنت کشوں کے لیے چاہوں گا کہ ان کی جائز شکایات کا ازالہ ہو اور وہ لوگ جو قید و بند کی زندگی گزار رہے ہیں ان کے ساتھ بھی جس حد تک نرم رویہ اختیار کیا جائے اور ان کو معافیاں دی جاسکتی ہوں تو اس کو ممکن بنایا جائے۔ عمران خان کی اس بات کے جواب میں ولی عہد کی جانب سے جو جواب آیا وہ بھی بہت خوش کن اور خوش آئند تھا۔ ولی عہد نے کہا کہ مجھے آپ سعودیہ میں پاکستان ہی کا سفیر سمجھیں۔ جہاں تک ممکن ہوا میں سارے پاکستانیوں کے لیے مراعات، سہولتیں اور رعایات سے کام لوں گا۔ اب تک ان دو اہم باتوں یعنی 20 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری یا پاکستانیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کے وعدوں کے سوا کوئی ایسی بات سامنے نہیں آئی جس کا تذکرہ کیا جا سکے اب یہ سب تو آنے والا دور ہی بتائے گا کہ یہ تمام باتیں واقعی مخلصانہ ہیں یا محض باتیں ہی ہیں۔ ایک سعودی ولی عہد کا جس طرح پرجوش استقبال کیا گیا بے شک وہ ایک تاریخی استقبال کہا جاسکتا ہے لیکن اس استقبال میں بہت ساری اقدار کو مسخ کیا جانا اور انکساری کو اس درجہ تک لیجانا جہاں وہ چاپلوسی کی شکل اختیار کرلے، عقل فہم سے بالا تر ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس وقت خواہ امریکا ہو یا سعودیہ، دونوں اس پوزیشن میں آ چکے ہیں کہ ان کو پاکستان کی ضرورت بہت شدت کے ساتھ ہی نہیں بلکہ پاکستان کے بغیر نہ تو امریکا کی افغانستان سے خیریت کے ساتھ رخصتی ممکن ہے اور نہ ہی سعودیہ اپنا دفاع پاکستان کی مدد کے بغیر ممکن بنا سکتا ہے۔ پاکستان اب اس پوزیشن میں ہے جہاں وہ امریکا یا سعودی عرب سے جو چاہے مالی منفعت حاصل کرسکتا ہے اور اپنی ہر جائز بات منوا سکتا ہے لیکن دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ پاکستان اپنی موجودہ پوزیشن سے شاید منفعت اٹھانے کی اہلیت ہی نہیں رکھتا۔ اس کی آنکھوں میں صرف اور صرف ڈالرز لہرا رہے ہیں اور وہ بھی قرض اور ادھار کی صورت میں۔
مسلم لیگ ن کے بھی تینوں ادوار میں بھی دنیا کے ہر ترقی یافتہ ملک سے معاہدے ہوتے بھی رہے، سرمایہ کاری بھی عمل میں آتی رہی اور اس کے ثمرات بھی سامنے آتے رہے۔ جرمنی، فرانس اور روس کے ساتھ معاہدات کی ایک طویل فہرست ہے جن پر معاملات آگے بھی بڑھے اور پاکستان کو ان کا فائدہ بھی پہنچا۔ لیکن لگتا ہے جیسے ستر سال سے پاکستان میں سرمایہ کاری ہوئی ہی نہیں تھی یہ تاریخ کا پہلا واقعہ سے جو پاکستان میں ہو رہا ہے۔ یہ تو محض 20 ارب ڈالرز کا معاہدہ ہے۔ کیا نواز دور میں کیا جانے والا 56 ارب ڈالرز کا معاہدہ جو ’’سی پیک‘‘ کی صورت میں ہوا وہ معاہدہ نہیں تھا؟۔ اس لحاظ سے چینلوں اور اخبارات میں جس طرح کئی کئی دن سے ایک شور شرابا ہے اور نہ جانے اور کتنے عرصہ سارے چینلز اور اخبارات اسی مہم پر لگے رہیں گے، اس طرح کا طوفان تو پاکستان میں کبھی نہیں مچایا گیا تھا۔ اس بات پر بھی غور کرنے کی بہت ضرورت ہے کہ اس سب کے پسِ پردہ کس کا سایہ ہے اور اس سے قبل اسی طرح کے مظاہرے ہر حکومت کے ساتھ کیوں نہیں کیے گئے؟۔ کیا اس سے قبل آنے والی ساری مقتدر ہستیاں غداران پاکستان تھیں؟۔ یہ ساری مثبت اور منفی باتیں اپنی جگہ لیکن یہ بات طے ہے کہ موجودہ دورہ ولی عہد پر پاکستان پوری دنیا میں اپنے آپ کو ایک پر امن اور محفوظ ملک ثابت کرنے میں بری طرح ناکام ضرور ہوا ہے۔ اور یہ ایسا داغ ہے جو کسی بھی صابن یا ڈٹرجن سے نہیں نکالا جا سکتا۔ ایک زمانہ تھا کہ جب بھی دنیا کی بڑی شخصیات جن میں سربراہان مملکت اور امامین حرمین شریفین پاکستان میں آیا کرتے تھے ان کا استقبال عوام کیا کرتے تھے۔ ہوائی مستقر سے لیکر مہمان خانے تک لوگوں کا ایک ہجوم ہوا کرتا تھا جو شخصیات کے لیے اپنے دل و جان لیے کھڑا ہوتا تھا۔ امریکا کے صدور ہوں، چین کی مایہ ناز قیادتیں یا امامین حرمین شریفین ہوں، ان کے لیے ہٹو بچو کا کوئی شور نہیں ہوا کرتا تھا۔ یہ تھی پاکستان کی امن و امان کی صورت حال کی وہ اعلیٰ مثال جس میں آپریشن در آپریشن کا کوئی تصور موجود نہیں تھا۔ امن و امان کی ایسی ابتر صورت حال مسلسل آپریشنز کا نتیجہ نہیں تو اور کیا ہے؟۔ اس بات پر بھی کچھ غور و فکر ہوجائے تو شاید آنے والا کل مزید تباہی و بربادی سے محفوظ رہ سکے۔
دارالحکومت کو جزیرہ نمابنا دینا، کرفیو والا ماحول پیدا کردینا، نقل و حمل کو منجمد کردینا، موبائل سروس معطل کردینا، اسکولوں اور دفاتر کو بند کردینا، ہوائی جہازوں اور ہیلی کوآپٹروں کی مدد سے فضائی نگرانیاں کرنا، محافظت بھی غیر ملکی دستوں کے سپرد کردینا، ڈرائیورز بھی کسی اور ملک کے ہونا اور اس کے بعد شاہی گارڈز کی تعیناتیاں، یہ پاکستان کے اپنے سیکورٹی اداروں پر عدم اعتماد کی نشانی نہیں؟۔ کیا اس کے بعد بھی دنیا کو یہ سمجھایا جاسکتا ہے کہ پاکستان ایک پر امن اور محفوظ ملک ہے؟۔ کل تک عالم یہ تھا کہ قطری زہر لگتے تھے۔ سی پیک پاکستان کے لیے بارود کا ڈھیر تھا۔ میٹرو جنگلا بس تھی۔ ایل این جی معاہدہ ایک سفید ہاتھی تھا۔ سعودی عرب سے تعلق ایک زہرِ قاتل تھا۔ اس سے قربت ایران سے دشمنی تھی۔ وہاں افواج پاکستان کی تعیناتی مسلکی جنگ تھی۔ روس سے سوشلزم کا خطرہ تھا اور اس بات کا ڈر کہ وہ پاکستان کے سمندر پر قبضہ کر لے گا۔ بھارت کی جانب رخ کرکے کھڑا ہونا بھی کفر تھا۔ امریکا تو خالص دینی مسئلہ تھا۔ قادیانی اور سکھ پاکستان اور ایمان کے دشمن تھے لیکن اب عالم یہ ہے کہ وہی قطری جن کے چہرے جنوں سے بھی زیادہ خوفناک تھے فرشتے نظر آنے لگے ہیں۔ ایل این جی رگوں میں دوڑتا ہوا خون بن گئی ہے۔ سی پیک پاکستان کی خوشحالی کا وہ پیغام بن گیا ہے کہ اس میں سعودیہ کی شرکت سبز موسموں کی علامت قرار پایا ہے۔ روس یار غار کہلانے لگا ہے۔ سکھ اور قادیانی مسلمان اور مسلمان قادیانی اور سکھ بنا دیے گئے ہیں اسی لیے یاترائیں (سکھوں اور قادیانیوں کی) سہل اور سستی اور حج مشکل اور مہنگا کردیا گیا ہے۔ سکھوں کی عبادت گاہوں کو مکہ اور مدینہ (نعوذباللہ) کا نام دیا گیا ہے اور بھارت سے دوستی جزو ایمان کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ بات بہت سادہ سی ہے اور یہ ہے کہ جب ہم کسی کے ہوجاتے ہیں تو اس پر اپنا سب کچھ قربان کردیتے ہیں لیکن اگر کسی کے ساتھ دشمنی پر اتر آئیں یا نفرت کرنے لگیں تو اسے زمین میں گاڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ
ہم بنجاروں کا حال مت پوچھو
جب پیار کیا تو پیار کیا
جب نفرت کی تو نفرت کی