بنجر ذہن

222

 

 

واجب الاحترام چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سردار محمد شمیم نے پنجاب بھر کی عدالتوں میں دائر تمام سول اپیلوں اور نظرثانی درخواستوں کو تین ماہ کی مدت میں نمٹانے کا حکم صادر فرمایا ہے اور ہر پندرہ دن کے بعد کارکردگی کی رپورٹ بھیجنے کی ہدایت بھی کی ہے۔ چیف جسٹس پنجاب نے 30 ستمبر 2018ء تک دائر تمام سول اپیلوں اور نظرثانی درخواستوں پر 30 اپریل 2019ء تک فیصلے کرنے کا حکم دیا ہے۔ عزت مآب چیف جسٹس پنجاب سردار محمد شمیم نے حلف اٹھاتے ہی بٹھل اٹھانے والوں کو ایک بڑی نوید سے سرشار فرمایا ہے مگر انتہائی دکھ اور افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ایسی خوش بیانیوں سے عوام کے کان پک چکے ہیں، ان کی مجروح سماعتیں ایسے بیان سن کر لہولہان ہوجاتی ہیں۔ ہر کہ آمد عمارت نو ساختہ کے مصداق ہر چیف جسٹس خواہ اس کا تعلق پنجاب ہائی کورٹ سے ہو یا پاکستان سپریم کورٹ سے ہو قوم کو ایسے ہی بیانیوں کی بھنگ پلاتا رہا ہے۔ مگر عملاً اپنے پیش رو کے نقش قدم پر گامزن رہا ہے۔ قبل ازیں پنجاب کے کئی چیف صاحبان نے یہ حکم صادر فرمایا ہے کہ عدالتی کارروائی کی کارکردگی یومیہ بنیاد پر ارسال کی جائے مگر مجال ہے جو کسی کے کان پر جوں بھی رینگی ہو، یہ کیسا المیہ ہے کہ چیف صاحبان کے احکامات کو روٹین کی کارروائی سمجھ کر نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ عدالت عظمیٰ کا بھی یہی حال ہے، غالباً اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ چیف صاحبان احکامات جاری فرما کر بھول جاتے ہیں جو طاق نسیاں کی زینت بنادیے جاتے ہیں اگر ایسے احکامات پر عمل درآمد کرایا جائے اور اس روایت کو پروان چڑھانے کے لیے ذاتی مفادات اور تساہل کو پس پشت ڈال دیا جائے تو عدلیہ کے فیصلوں پر شک و شبہات کے سیاہ بادل نہ منڈلا رہے ہوتے۔ سابق چیف جسٹس پاکستان چودھری افتخار نے ہائی کورٹ میں زیر التوا مقدمات کو نمٹانے کی تائید بارہا کی اور انہیں جلد از جلد انصاف فراہم کرنے کی تاریخ بھی مقرر کردی مگر کیا ہوا؟ 1980ء کے مقدمات عدالتوں کی الماریوں میں پڑے اپنی خستہ حالی کا ماتم کررہے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہائی کورٹ ایسے مقدمات کو گود لے لیتی ہے جنہیں محکمہ مال، سول کورٹ اور سیشن کورٹ بے بنیاد اور جعل سازی پر مبنی قرار دے دیتی ہیں۔ یہ کیسی بدنصیبی اور بدنظمی ہے کہ ہائی کورٹ ایسے مقدمات کی سماعت کررہی ہیں جن کی سماعت اخلاقی جرم کے زمرے میں آتی ہے اور ترقی یافتہ ممالک میں ایسے مقدمات کی پیروی اور سماعت قانونی جرم سمجھی جاتی ہے مگر ہمارے ہاں اخلاق اور قانون کی کوئی اہمیت ہی نہیں، کوئی بھی جعل ساز وکیل کی فیس ادا کرکے کسی بھی شخص پر مقدمہ درج کراسکتا ہے۔ المیہ یہ بھی ہے کہ جج صاحبان اور وکلا حضرات اس عمل کو پیشہ ورانہ ذمے داری اور مدعی کا حق قرار دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مدعا علیا کو انسانی حقوق سے محروم کیوں کردیا جاتا ہے۔ اسے جیتے جی مرنے پر کیوں مجبور کردیا جاتا ہے؟۔
سابق چیف جسٹس پاکستان چودھری افتخار نے ایک جعل ساز اور اس کے وکیل کو جعل سازی کرنے اور پیروی کرنے پر جرمانہ عاید کیا تھا مگر عدالتوں نے اسے روایت بنانا ضروری نہ سمجھا۔ ہم یہ سوچ کر بلڈ پریشر کے مریض بن چکے ہیں کہ پاکستانی اساتذہ کے ذہن اتنے بنجر اور بے فیض کیوں ہوگئے ہیں کہ وہ ایسے بچے تخلیق کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں جو ملک و قوم کی خدمت کے اہل ثابت ہوں کیا کوئی؟۔ استاد ایسے بچے کو تخلیق کرسکے گا جو ملک و قوم کو عالم اقوام میں سربلند کرسکے گا، حق و انصاف کا بول بالا کرسکے گا، جعل سازوں کونکیل ڈال سکے گا، اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے والوں کا ہاتھ روک سکے گا۔ کسی کے پاس اس کا جواب ہے شاید نہیں بلکہ ہرگز نہیں کیوں کہ من حیث القوم ہم ذہنی طور پر بنجر ہوچکے ہیں، ہماری سوچیں بانجھ ہوچکی ہیں۔