یقیناًسعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات چٹان کی طرح مضبوط ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان انتہائی قریبی گرم جوش اور خصوصی تعلقات ہیں۔ سعودی عرب جہاں مسلمانوں کے مقدس ترین مقامات مکہ اور مدینہ واقع ہیں۔ جس کے لیے پاکستان کا بچہ بچہ جان و دل لٹانے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ لہٰذا اس کی حفاظت پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم نکتہ ہے۔ دنیا میں 57 اسلامی ممالک ہیں لیکن سعودی عرب میں سب سے زیادہ بیرونی افرادی قوت پاکستانیوں کی ہے جن کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 22 لاکھ ہے۔ اس وقت سعودی عرب اپنی معیشت کا رُخ موڑ کر تیل پر انحصار کم کرنا چاہتا ہے۔ جس کے لیے اس نے گوادر میں سرمایہ کاری کا انتخاب کیا ہے۔ ایران کی بندرگاہ چاہ بہار کے بعد علاقے کی دیگر بندرگاہوں پر اس کے اثرات پڑیں گے۔ ایسے میں پاکستان کی اس نئی بندرگاہ میں سرمایہ کاری سعودی عرب کے مفاد میں ہے۔
سعودی عرب اور پاکستان کے علاوہ اس خطے کے 2 اہم ممالک ترکی اور ایران ہیں۔ ایک زمانے میں ان چاروں کے درمیان مضبوط دوستانہ تعلقات تھے لیکن وقت کے ساتھ ترکی ایران اور سعودی عرب میں ایک خلیج پیدا ہوگئی یا پیدا کردی گئی، اس بڑھتی خلیج نے خطے میں پاکستان کی اہمیت میں اضافہ کیا ہے۔ سعودی ولی عہد کے پاکستان دورے سے عین قبل پلوامہ حملہ بھارت کا کوئی گھناؤنا کھیل محسوس ہوتا ہے، یہ بات بھی بڑی اہم ہے کہ یہ حملہ پارلیمانی انتخابات سے 2 ماہ قبل ہوا ہے، بھارت کی حزب اختلاف نے سیاسی اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا۔ یعنی اس حملے سے مودی کو بیک وقت سیاسی جماعتوں اور عوام کی حمایت حاصل ہوگئی ہے لیکن اس حملے کے کچھ حقائق ایسے ہیں جن کے سامنے آنے سے بھارتی الزام کی قلعی کھل رہی ہے، خود مودی کے ملک کے دانشور اسے مودی سرکار کا ڈراما قرار دے رہے ہیں کہ انہیں اپنی گرتی ساکھ کی بحالی کے لیے لاشیں اور نفرت درکار ہے۔ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ کا بیان مودی کے الزامات کی قلعی کھولتا ہے جو کہتے ہیں کہ ’’اس واقعے پر پاکستان کو الزام نہ دیا جائے اور یہ حملے بھارتی ظلم کا شکار مقامی نوجوان کررہے ہیں۔ بھارتی عوام کا بھی ردعمل یوں ہے کہ بھارت کے مظالم معصوموں کے قتل کشمیری خواتین کی بے حرمتی اور پیلٹ گنوں سے اندھا کرنے کے ردعمل میں ایسا کارروائی ہونا ہی تھی۔ اس حملے شہید ہونے والے عادل ڈار کے والد ین کہتے ہیں کہ عادل ایک سال سے لاپتا تھا جس کی رپورٹ تھانے میں درج کروائی گئی تھی۔ اس کے بارے میں ہمیں شک ہے کہ عادل ڈار کو بھارتی فوج ہی نے تو نہیں اغوا کر رکھا تھا۔ جس سے خاص موقع دیکھ کر کام لیا گیا۔
ایک اور بات جو اس حملے میں شک میں ڈالتی ہے وہ یہ کہ واقعے میں مارے جانے والے تمام افراد ’’دلت‘‘ تھے۔ اگرچہ مودی حکومت نے دلتوں کے خلاف ظلم کی کھلی چھوٹ دی ہوئی ہے لیکن اس حملے اور حملے کے ردعمل کے ذریعے مودی انتخابات میں دلتوں کی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ پلوامہ حملہ کلبھوشن کو بچانے کے لیے بھی کیا جاسکتا ہے جس کا مقدمہ عالمی عدالت میں شروع ہوگیا ہے۔ اپنے حاضر سروس جاسوس کو بچانے کے لیے 44 دلتوں کی قربانی بھارت سرکار کے لیے کوئی بڑی بات نہیں۔ پھر کشمیر جو پہلے ہی بھارتی ظلم کی چکی میں پس رہا ہے اس حملے کو جواز بنا کر وہاں مزید ظلم کا بازار گرم کیا جارہا ہے۔ کتنے ہی بے گناہوں کو گرفتار کرکے غائب کردیا گیا، ہر روز کشمیریوں کو آزادی کی سزا کے طور پر موت کے گھاٹ اُتارا جارہا ہے۔ کشمیر کے باہر بھی کشمیریوں کو بھارت کی مختلف ریاستوں میں چن چن کر تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ لیکن آزادی کے لیے کشمیری نوجوانوں کی تڑپ کم نہیں کی جاسکی۔ لہٰذا دوبارہ پلوامہ ہی میں ایک اور جھڑپ میں بھارتی فوج کے بریگیڈیئر، کرنل اور میجر سمیت سیکورٹی فورسز کے 5 افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔
انڈیا کے لیے کڑوی حقیقت یہ ہے کہ بھارتی فوج نے کشمیریوں پر اتنے مظالم ڈھائے ہیں کہ اب مقبوضہ کشمیر کے عوام خود انتہا پسندی کی طرف مائل ہوگئے ہیں اور ایسا ہونا عین انسانی فطرت کے مطابق ہے۔ سعودی ولی عہد پاکستان کے دورے کے بعد منگل 19 فروری کو انڈیا کے دو روزہ دورے پر گئے ہیں۔ بھارت کے کشمیری عوام پر مظالم سعودی حکمران کے آنکھوں سے اوجھل نہیں ہیں۔ سعودی عرب نے کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے ہمیشہ کشمیریوں کے فیصلے کو ترجیح دینے کی حمایت کی ہے۔ یہ موقف ایران کا بھی ہمیشہ رہا ہے۔ پاکستان بھی ہمیشہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق کشمیر میں استصواب کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ خطے کی ایک بڑی طاقت چین ہے کشمیر کے معاملے میں یہ ہی مطالبہ چین کا بھی ہے۔ یوں بھارت کشمیر کے معاملے میں بین الاقوامی سطح پر تنہائی کا شکار ہے۔ کشمیر کے معاملے میں بھارت جتنی دیر کرے گا اُسی قدر اُس کو بھگتنا پڑے گا۔ بھارتی حکومت اور فوج دونوں کو اس معاملے میں سمجھداری سے کام لینا چاہیے۔ خطے کے ممالک میں افغانستان میں تبدیلی کی آمد آمد ہے، کشمیر کے معاملے میں طالبان بھی بھارت سے یہی مطالبہ کرتے ہیں۔ لہٰذا مودی کو محض انتخابات میں کامیابی کے لیے نفرت اور تشدد کا راستہ اپنانے سے گریز کرنا چاہیے کیوں کہ یہ راستہ کشمیر میں بھارت کے لیے مزید نفرت کا الاؤ بھڑکانے کا سبب بنے گا۔