لوگ امریکا کو ایک ملک سمجھتے ہیں مگر امریکا ایک ملک نہیں بلا ہے ایک عفریت ہے۔ امریکا کے اس تشخص کو امریکا کے سابق وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے ایک فقرے میں بیان کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ امریکا کی دشمنی خطرناک ہے مگر دوستی جان لیوا ہے۔ امریکا کی پوری تاریخ ہنری کسنجر کے فقرے کی تائید بھی کرتی ہے اور تصدیق بھی۔
امریکا کی تاریخ امریکا کے قیام کی شرمناک تحریک سے شروع ہوتی ہے۔ امریکا سفید فاموں کا ملک نہیں تھا۔ امریکا ہزاروں سال سے ریڈ انڈینز کا ملک تھا۔ مگر سفید فاموں نے ریڈ انڈینز کے امریکا پر قبضہ کرلیا اور قبضے کی سازش کو کامیاب بنانے کے لیے آٹھ سے دس کروڑ ریڈ انڈینز کو ہلاک کردیا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو نسل کشی امریکا کی بنیاد میں رکھی ہوئی ہے اور شیخ سعدی کہہ گئے ہیں کہ اگر بنیاد ٹیڑھی ہوگی تو ثرّیا تک تعمیر ہونے والی عمارت بھی ٹیڑھی ہوگی۔ چوں کہ خون آشامی امریکا کی بنیاد میں ہے اس لیے امریکا نے اپنے قیام کے بعد سے آج تک خون آشامی کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ امریکا نے ویت نام کے خلاف جارحیت کی اور دس لاکھ سے زیادہ ویت نامیوں کو ہلاک کردیا۔ اس سے قبل امریکا جاپان کے خلاف دوبار ایٹم بم استعمال کرچکا تھا اور ڈیڑھ سے دو لاکھ جاپانیوں کو مار چکا تھا۔ امریکا نے 1990ء کی دہائی میں عراق پر اقتصادی پابندیاں عاید کیں۔ اس سے عراق میں غذا اور دواؤں کی قلت ہوگئی۔ غذا اور دواؤں کی قلت سے عراق میں دس لاکھ افراد ہلاک ہوگئے۔ ہلاک ہونے والوں میں پانچ لاکھ بچے بھی شامل تھے۔ اس ہلاکت آفرینی پر بی بی سی ورلڈ کے ایک صحافی نے امریکا کی سابق وزیر خارجہ میڈلن البرائیٹ سے سوال کیا۔ اس نے پوچھا آپ ان ہلاکتوں کے بارے میں کیا کہتی ہیں؟ میڈلن البرائیٹ نے فرمایا۔
it is acceptable and worth it۔ یعنی دس لاکھ بے گناہوں کی ہلاکت ہمارے لیے قابل قبول ہے اور ان ہلاکتوں میں معنی بھی ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو امریکی تصور کے لیے دس لاکھ مظلوموں کی ہلاکت ’’worth‘‘ کی حامل کیوں کر ہوتی؟ امریکا نے صدام حسین کے زمانے میں عراق پر قبضہ کیا تو امریکا کی جان ہوپکنز یونیورسٹی کی تحقیقات کے مطابق امریکا نے قبضے کے ابتدائی پانچ برسوں میں 6 لاکھ عراقیوں کو صفحہ ہستی سے مٹادیا۔ ان میں سے ایک لاکھ براہِ راست جنگ سے مارے گئے اور 5 لاکھ جنگ کے اثرات کی نذر ہوگئے۔ امریکا نے نائن الیون کے بعد افغانستان پر قبضہ کیا اور 17 سال میں ڈیڑھ سے دو لاکھ افراد کو شہید کردیا۔
امریکا نے اپنے دوستوں کا جو حشر کیا ہے وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ جنرل ایوب امریکا کے ’’دوست‘‘ تھے مگر یہ دوستی ایسی غلامی میں تبدیل ہوئی کہ جنرل ایوب کے ضمیر کا بوجھ بن گئی۔ اس بوجھ کو اُتارنے کے لیے جنرل ایوب کو Friends not Masters کے عنوان سے ایک کتاب لکھنی یا لکھوانی پڑی۔ اس کتاب میں جنرل ایوب نے تاثر دیا کہ وہ امریکا کے دوست ہیں اس کے غلام نہیں۔ لیکن جنرل ایوب امریکا کے غلام نہ ہوتے تو وہ کبھی امریکا اور پاکستان کے تعلقات کی وضاحت کے لیے ایک کتاب نہ لکھواتے۔ دوستوں کو کبھی یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ فلاں شخص ہمارا آقا نہیں ہمارا دوست ہے۔ بدقسمتی سے جب امریکا پوری طرح جنرل ایوب کو استعمال کرچکا تو جنرل ایوب خود فوج کے اوپر ایک بوجھ بن گئے اور جنرل یحییٰ نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جنرل ایوب کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ اہم بات یہ ہے کہ اس مرحلے پر امریکا جنرل ایوب کے کام نہ آیا۔
رضا شاہ پہلوی کا ایران خطے میں سی آئی اے کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ مگر رضا شاہ کے جبر و استبداد اور اس کی مذہب دشمنی نے بالآخر اس کے خلاف عوامی ردِعمل پیدا کیا اور ایران کے عوام نے علامہ خمینی کی قیادت میں رضا شاہ پہلوی کا تخت الٹ دیا۔ رضا شاہ پہلوی نے برسوں تک امریکا کے ایجنٹ کا کردار ادا کیا تھا مگر جب امریکی ایجنٹ کے خلاف عوامی بغاوت برپا ہوئی تو امریکا نے رضا شاہ پہلوی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ جنرل ضیا الحق بھی امریکا کے دوست تھے مگر چوں کہ اپنے آخری زمانے میں وہ افغانستان کے حوالے سے آزاد پالیسی اختیار کرچکے تھے اس لیے امریکا نے جنرل ضیا کو منظر سے ہٹانے میں اہم کردار ادا کیا۔ نائن الیون کے بعد چوں کہ جنرل پرویز مشرف امریکا کے لیے کرائے کے فوجی کا کردار ادا کررہے تھے چناں چہ امریکا انہیں ’’مدبر‘‘ کہتا تھا مگر جب امریکا کا کام نکل گیا تو امریکا نے اس ’’مدبر کی کھال‘‘ یعنی وردی بچائی نہ ’’مدبر‘‘ کے اقتدار کی حفاظت کی۔ صدام حسین اور حسنی مبارک بھی طویل عرصے تک امریکی ایجنٹ کا کردار ادا کرکے اس طرح رخصت ہوئے کہ ان کی ’’عزت سادات‘‘ خاک میں مل گئی۔ مگر امریکا کی ہولناکی کا ایک اور پہلو بھی ہے۔
دی نیوز کراچی میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق امریکا کے تحقیقی ادارے Pew کی تحقیق سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ دنیا کے 26 بڑے ممالک کے 45 فی صد افراد امریکا کو اپنی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔ Pew کے سروے کے مطابق 26 ممالک کے صرف 36 فی صد افراد روس اور 35 فی صد افراد چین کو اپنی سلامتی کے لیے دوسرا اور تیسرا بڑا خطرہ خیال کرتے ہیں۔ جرمنی یورپی ملک اور امریکا کا اتحادی ہے مگر جرمنی کے 49 فی صد افراد کا کہنا ہے کہ وہ امریکا کی طاقت اور اثرات کو اپنے ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔ جرمنی کے صرف 30 فی صد افراد نے روس کو اپنے ملک کے لیے خطرہ قرار دیا۔ برطانیہ کے 37 فی صد افراد نے کہا کہ وہ امریکا کی ’’قیادت‘‘ کو اپنے ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ خیال کرتے ہیں۔ (دی نیوز کراچی۔ 13 فروری 2019ء)
جرمنی نہ اسلامی ملک ہے، نہ وہ کمیونسٹ ملک ہے، نہ وہ کمزور ملک ہے مگر اس کے باوجود 49 فی صد جرمن اور امریکا کو اپنے ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ خیال کرتے ہیں۔ برطانیہ امریکا کا اتحادی ہی نہیں اس کا ’’خصوصی اتحادی‘‘ ہے مگر برطانیہ کے 37 فی صد افراد بھی امریکا کے خوف میں مبتلا ہیں۔ اس کا ایک سبب یہ ہے کہ امریکا اپنے اتحادیوں کو بھی اپنا دشمن یا ناقابل اعتبار سمجھتا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ایڈ ورڈ ستوڈن کے انکشافات سے معلوم ہوا کہ امریکا صرف مسلم ممالک کے رہنماؤں کی جاسوسی نہیں کرتا بلکہ وہ یورپی ممالک کے عوام اور رہنماؤں کی جاسوسی بھی کراتا ہے۔ یہاں تک کہ سی آئی اے جرمنی کی چانسلر اینجلا مرکل کا ٹیلی فون ٹیپ کرتی ہے۔ یہ انکشاف سامنے آیا تو اینجلا مرکل نے امریکا سے احتجاج کیا اور امریکا کے صدر بارک اوباما کو کہنا پڑا کہ امریکا آئندہ ایسا نہیں کرے گا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ افراد ہوں یا حکومتیں اور ریاستیں دوستوں کی جاسوسی کوئی نہیں کرتا مگر امریکی یہ کام بھی دل لگا کر کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکا کی دشمنی خطرناک ہے تو اس کی دوستی جان لیوا ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ امریکا دشمنوں کے لیے خطرناک اور دوستوں کے لیے جان لیوا کیوں ہے؟۔
تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ طاقت اخلاقیات سے لاتعلق ہوجائے تو وہ خدائی کا دعویٰ کردیتی ہے۔ نمرود نے خود کو خدا کہا۔ فرعون نے خود کو خدا باور کرایا۔ چنگیز خان خود کو خدا کا قہر کہا کرتا تھا۔ امریکا کا مسئلہ یہ ہے کہ اس نے جتنی طاقت جمع کر رکھی ہے انسانی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ امریکا کے پاس صرف سیاسی طاقت نہیں، اس کے پاس معاشی طاقت بھی ہے، عسکری طاقت بھی ہے، سائنس اور ٹیکنالوجی کی طاقت بھی ہے، ذرائع ابلاغ کی طاقت بھی ہے۔ چناں چہ 1945ء سے اب تک وہ خدائی لہجے میں کلام کررہا ہے۔ لیکن امریکا کا ایک اور مسئلہ بھی ہے۔ امریکا کا معاملہ نو دولتیوں والا ہے۔ جن خاندانوں میں دولت کئی نسلوں سے موجود ہوتی ہے ان کے لیے امیر ہونا ’’معمول کی بات‘‘ بن جاتی ہے۔ چناں چہ ان کے لیے دولت نمائشی شے نہیں رہتی اور اگر وہ دولت کی نمائش کرتے بھی ہیں تو اس میں بھی ایک طرح کی تہذیب یا Sophistication پیدا ہوجاتا ہے مگر نو دولیتے دولت کو ٹوکرے کی طرح سر پر اٹھائے پھرتے ہیں۔ وہ ہر ایک کو بتاتے ہیں دیکھو ہم دولت مند ہیں۔ امریکا کے پاس طاقت آئے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ دوسری عالمی جنگ سے پہلے عالمی نقشے پر امریکا کی کوئی خاص اہمیت نہ تھی۔ چناں چہ طاقت امریکا کے لیے ابھی تک ’’معمول کی بات‘‘ نہیں بن سکی۔ طاقت امریکا کا obsession ہے۔ جس طرح ایک نودولتیہ اپنی دولت کی اور فاحشہ اپنے جسم کی نمائش کرتی پھرتی ہے۔ امریکا اپنی طاقت کی نمائش کرتا رہتا ہے۔ امریکا نے اپنی طاقت کے حوالے سے کوئی تہذیب پیدا کی ہوتی تو وہ دشمنوں کے لیے تو خطرناک ہوتا مگر دوستوں کے لیے جان لیوا نہ ہوتا۔
بلاشبہ امریکا کی دشمنی خطرناک ہے مگر تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ امریکا کی دشمنی امریکا کی دوستی سے زیادہ فائدہ مند ہے۔ شاہ فیصل نے امریکا کو چیلنج کیا اور امریکا نے انہیں ان کے بھتیجے سے شہید کرادیا مگر شاہ فیصل آج بھی لاکھوں مسلمانوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ علامہ خمینی نے امریکا کو شیطانِ بزرگ کہا اور امریکا کبھی علامہ خمینی اور ان کے ایران کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔ فیدل کاسترو اور ان کا کیوبا امریکا کے سامنے کچھ بھی نہیں تھا مگر امریکا چاہ کر بھی فیدل کاسترو اور ان کے کیوبا کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔ ملا عمر نے امریکا کے سامنے جھکنے سے صاف انکار کردیا اور آج امریکا طالبان سے مذاکرات کی بھیک مانگ رہا ہے اور وہ طالبان کے سائے میں افغانستان سے باعزت واپسی کا خواہش مند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملا عمر تاریخ میں امر ہوگئے ہیں اور تاریخ میں جب بھی امریکا کا چہرہ افغانستان کے اُفق پر نمودار ہوگا اس پر شکست کی کبھی نہ مٹنے والی کالک ملی ہوئی ہوگی۔