علم اور تخلیقی صلاحیت

632

آپ نے اب تک یہی سنا ہوگا کہ مطالعے اور تخلیقی صلاحیت یا علم اور تخلیقی اہلیت لازم و ملزوم تصورات ہیں۔ لیکن آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ شاعروں، ادیبوں بالخصوص شاعروں کی بڑی تعداد نثر کے مطالعے یا علم کو اپنی شاعری کے لیے ایک بڑا خطرہ سمجھتی رہی ہے اور اب بھی سمجھتی ہے۔ ہم نے جب اپنے کئی شاعر دوستوں کو مطالعے اور علم میں اضافے کا مشورہ دیا تو انہوں نے اس اندیشے کا اظہار کیا کہ ہم مطالعہ کریں گے یا نثر پڑھیں گے تو شاعری کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔ اتفاق سے روزنامہ ڈان کے کالم نگار حارث خلیق نے اپنے حالیہ کالم میں دو شاعروں کے حوالے سے یہی بات کہی ہے۔
قمر جمیل کراچی کی بڑی ادبی شخصیتوں میں سے ایک تھے، وہ جدیدیت کے علمبردار تھے، وہ نقّاد بھی تھے اور شاعر بھی۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ نثری نظم کی تحریک کے بانی ہیں۔ حارث خلیق کے بقول ایک بار قمر جمیل نے حارث خلیق سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرے مطالعے اور میرے علم نے میری شاعری کو نقصان پہنچایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں زیادہ مطالعہ نہ کرتا تو میں زیادہ بہتر شاعر ہوتا اور میں زیادہ شاعری بھی کرپاتا۔ حارث خلیق کے بقول یہی بات ایک بار ان سے معروف شاعر منیر نیازی نے بھی کہی۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں زیادہ پڑھنے لگوں گا تو زیادہ شاعری نہیں کرسکوں گا۔ حارث خلیق نے اس بحث میں اقبال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ بیک وقت شاعر بھی تھے اور عالم بھی۔ اسی لیے بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اقبال کی شاعری میر اور غالب کی شاعری سے کم جمالیاتی ہے۔
تخلیقی زندگی کے لیے مطالعہ ناگزیر ہے۔ خواہ وہ مطالعہ ذات ہو یا مطالعہ حیات ہو، خواہ وہ مطالعہ کائنات ہو یا مطالعہ کتاب ہو۔ اس کے بغیر نہ کوئی بڑا شاعر بن سکتا ہے نہ بڑا افسانہ نگار وجود میں آسکتا ہے۔ نہ بڑا ناول نگار تخلیق ہوسکتا ہے نہ بڑا مصّور سامنے آسکتے ہیں، نہ بڑا سائنس دان وضع ہوسکتا ہے۔ مطالعہ اور عظمت یا علم اور عظمت میں چولی دامن کا رشتہ ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اکثر لوگ علم کو ٹوکرے کی طرح سر پر لیے پھرتے ہیں۔ وہ کبھی علم کو جذب نہیں کرپاتے۔ چناں چہ علم کبھی بھی ان کے تخلیقی عمل کا حصہ بن کر انہیں فیض نہیں پہنچا پاتا۔ اس بات کو ایک مثال سے سمجھیے۔ جو غذا ہضم ہوجاتی ہے وہی جزوِ بدن بنتی ہے، وہی انسان کو نیا خون مہیا کرتی ہے، وہی انسان کو توانائی فراہم کرتی ہے۔ جو غذا ہضم نہیں ہوتی وہ قے کی صورت میں جسم سے باہر آجاتی ہے۔ چناں چہ جو شاعر، ادیب مطالعے سے خوف زدہ ہوتے ہیں انہیں اندیشہ ہوتا ہے کہ وہ علم کو ہضم یا جذب نہیں کرپائیں گے۔ انہیں اپنے علمی نظام ہضم کی خرابی کا احساس ہوتا ہے۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ادب معلوم کو محسوس بنانے سے پیدا ہوتا لیکن بہت سے شاعروں کا احساساتی اور جذباتی سانچہ اتنا کمزور ہوتا ہے کہ وہ علم کا بوجھ نہیں اُٹھا پاتا اور معلوم کو محسوس میں ڈھالنے سے انکار کردیتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ بھی ہے کہ شاعروں اور ادیبوں کی اکثریت اپنے جذباتی اور احساساتی وجود کو کبھی قوی کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ ان کے احساساتی اور جذباتی وجود کی صحت کمزور ہوتی ہے اور کمزور ہی رہتی ہے۔ دنیا میں جتنے بڑے شاعر اور ادیب ہوئے ہیں وہ علم کو اپنا تجربہ بلکہ واردات بنالیتے ہیں۔
یہ حقیقت عیاں ہے کہ موم بتی کی آنچ پر دیگ کیا دیگچی بھی نہیں چڑھائی جاسکتی۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اکثر شاعروں اور ادیبوں کا تخلیقی جوہر یا ان کی تخلیقی آگ موم بتی کے برابر تخلیقی توانائی پیدا کرتی ہے۔ موم بتی کی لو اتنی سی ہوتی ہے کہ کوئی پھونک مار دے تو بجھ جاتی ہے۔ موم بتی کا دائمی مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی لو کو بڑھایا نہیں جاسکتا۔ مگر جس آگ پر دیگ چڑھتی ہے اس کو آندھی بھی نہیں بجھا سکتی بلکہ آندھی اسے مزید بھڑکا دے گی۔ اکثر شاعروں اور ادیبوں کا قصہ یہ ہے کہ وہ موم بتی کی لو کے مساوی تخلیقی آگ کے حامل ہوتے ہیں۔ چناں چہ ان کے لیے مطالعہ واقعتاً پھونک کیا آندھی ثابت ہوتا ہے۔
اس معاملے کا ایک پہلو جدیدیت سے متعلق ہے۔ روایت کے معنوں میں جدیدیت ایک حقیر شے ہے۔ لیکن ہمارے جو شاعر اور ادیب جدیدیت کو بڑی چیز سمجھتے ہیں ان کے لیے ’’ابھی تک‘‘ جدیدیت ایک ’’اطلاع‘‘ ہے۔ ایک ’’علم‘‘ ہے۔ ایک ’’فلسفہ‘‘ ہے مگر جدیدیت ان کے لیے ایک ’’وجودی تجربہ‘‘ یا Existential experience نہیں ہے اور جو چیز وجودی تجربہ نہ ہو اس سے بڑا ادب تخلیق نہیں ہوسکتا اور نہ ہی تخلیقی معنوں میں جدیدیت کے زیر اثر شخص مطالعہ کے کام آسکتا ہے۔ بلاشبہ مغرب نے جدیدیت کے زیر اثر بڑا ادب تخلیق کیا ہے مگر مغرب یہ کام اس لیے کرسکا کہ جدیدیت دو صدیوں سے اس کا ’’علم‘‘ بھی ہے۔ اس کا ’’جذبہ‘‘ بھی۔ اس کا ’’محسوس‘‘ بھی اور اس کا ’’وجودی تجربہ‘‘ بھی۔ غالب کے بڑا شاعر ہونے میں کیا کلام ہے مگر جہاں غالب نے اپنی روایت سے انحراف کیا ہے وہاں وہاں اس کے آرٹ کی سطح گر گئی ہے اور اس کے بعض شعر پڑھ کر ہنسی آنے لگتی ہے۔ مثلاً
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش کرنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
………
ایسی جنت کا کیا کرے کوئی
جس میں لاکھوں برس کی حوریں ہوں
………
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا
………
عشق نے غالب نکمّا کردیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے
قمر جمیل بیچارے چوں کہ جدیدیت کے زیر اثر تھے اس لیے بھی ان کی تخلیقی قوت کم تھی۔ ظاہر ہے کہ جدیدیت ان کے لیے وجودی تجربہ نہیں تھی محض ایک فیشن تھی، محض ایک نقل تھی۔ تاریخ شاہد ہے کہ فیشن پرستوں اور نقلچی لوگوں نے کبھی بڑا تخلیقی کارنامہ انجام نہیں دیا بلکہ انہوں نے کبھی اپنے باطن میں تخلیق کی آگ بھی بھڑکتی ہوئی محسوس نہیں کی۔ ان کے تخلیقی لو کبھی موم بتی کی لو سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔ قمر جمیل کے اندر شاعری کے کم ہونے کا ایک ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے خود بھی نثری نظمیں لکھیں اور بہت سے نوجوانوں کو بھی نثری نظم لکھنے پر مائل کرکے ان کی تخلیقی صلاحیت کو برباد کیا۔ قمر جمیل کو اپنی زندگی کے آخری حصے میں اپنی ناکامی کا احساس ہوگیا تھا۔ چناں چہ انہوں نے ایک انٹرویو میں نثری نظم کی تحریک کو ناکام قرار دیا۔ اس پر ان کی شاگرد عذرا عباسی بہت ناراض ہوئیں۔ اور وہ ناراض نہ ہوتیں تو کیا کرتیں۔ ان کا استاد خود ان کی تخلیقی زندگی کی بے معنویت کا اعلان کررہا تھا۔ جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دے رہے تھے۔ جہاں تک منیر نیازی کا تعلق ہے تو وہ صرف ’’اچھے شاعر‘‘ کہلا سکتے ہیں۔ ایک بار ہندوستان کے ممتاز نقاد گوپی چند نارنگ نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ہندوستان میں منیر نیازی پوجے جاتے ہیں۔ اس پر مشفق خواجہ نے اپنے کالم میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کا کیا ہے وہاں تو گائے بھی پوجی جاتی ہے۔
اردو ادب میں علم اور تخلیقی صلاحیت کی یکجائی کی کئی مثالیں ہیں۔ سب سے بڑی مثال اقبال کی ہے۔ اقبال نے اردو شاعری کی کیمسٹری بدل دی۔ انہوں نے جو شاعری کی وہ شعوری طور پر حاصل کیے گئے علم کے بغیر وجود میں نہیں آسکتی تھی۔ مگر اقبال کے مطالعے اور ان کے علم نے ان کی شاعری کو نقصان پہنچانے کے بجائے بے پناہ فائدہ پہنچایا۔ اس کی کئی وجوہ تھیں۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اقبال کی تخلیقی آگ اتنی زیادہ تھی کہ اس سے ایک چھوٹا موٹا سورج تخلیق کیا جاسکتا ہے۔ اتنی بڑی آگ کو مطالعے کی پھونک کیا مطالعے کی آندھی بھی نہیں بجھا سکتی تھی بلکہ مطالعے کی آندھی نے اس آگ کو بھڑکایا، اس میں نکھار اور خوبصورتی پیدا کی۔ اقبال کو اپنے بے پناہ مطالعے سے اس لیے بھی فائدہ ہوا کہ ان کا جذباتی اور محسوساتی وجود بہت توانا تھا اور وہ معروف معنوں میں غیر شاعرانہ سے غیر شاعرانہ خیال اور لفظ کو بھی ’’شاعرانہ‘‘ بنا سکتے تھے۔ ذرا اقبال کی لغت تو دیکھیے۔ شاہین، کرگس، جمہوریت، سیاست، خلافت، سنگ، خشت۔ اقبال نے ان الفاظ سے بھی شاعری کرکے دکھائی ہے۔ اقبال کی شاعری ایک اعتبار سے Themes کی شاعری ہے۔ علم، عقل، مومن، عشق، خودی، شاہین، جمہوریت، اقبال کی شاعری میں بار بار نمودار ہوتے ہیں اور اپنی تفصیلات عیاں کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان تصورات پر اقبال نے گہرائی میں غور بھی کیا ہے اور اس حوالے سے وہ اپنے مطالعے کو بھی بروئے کار لائے ہیں۔ مگر اس کے باوجود اقبال کی تخلیقی صلاحیت کہیں بھی ماند پڑتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اقبال اپنے ہر معلوم کو محسوس بنانے کی غیر معمولی اہلیت رکھتے ہیں۔ چناں چہ اقبال کے لیے ’’کتابی علم‘‘ بھی ایک مددگار کی حیثیت رکھتا ہے۔
یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ تاریخ آرٹ نہیں ہے اور آرٹ تاریخ نہیں ہوتا مگر قرۃ العین حیدر نے اپنے ناولوں میں تاریخ کو اعلیٰ ترین سطح کا آرٹ بنا کر دکھا دیا ہے۔ اس آرٹ میں صرف تاریخ بھی نہیں ہے، اس آرٹ میں فلسفہ ہے، عمرانیات ہے، مذہب ہے، زمانہ ہے۔ مگر قرۃ العین حیدر کی تخلیقی قوت تمام چیزوں کو ایک وحدت میں ڈھال کر فن بنا دیتی ہے۔ قرۃ العین حیدر نے اگر ناولوں کی صورت میں تین ہزار صفحے لکھے ہیں تو ان صفحات میں سے ایک صفحہ بھی ایسا نہیں ہے جسے پڑھ کر کوئی کہے کہ اس صفحے میں قرۃ العین کا مطالعہ یا ان کا علم ان کے فن پر بوجھ بن گیا ہے۔
ادبی تنقید خالصتاً ایک علمی چیز ہے مگر محمد حسن عسکری کی تنقید اپنے بہترین مضامین میں ایک تخلیقی تجربہ بلکہ ایک واردات بن گئی ہے۔ یہ واردات صرف زبان و بیان کی سطح پر نہیں عسکری صاحب کے تجزیے ان کے دلائل ان کے تناظر، یہاں تک کہ ان کے موضوعات کی سطح پر بھی ظاہر ہوتی ہے۔ ذرا عسکری صاحب کے موضوعات دیکھیے۔ انسان اور آدمی، مارکسیت اور ادبی منصوبہ بندی، اسلامی فن تعمیر کی روح، ستارہ یا بادبان، استعارے کا خوف، جدید عورت کی پرنانی۔ ابن عربی اور کیسر کے گولر، عسکری صاحب اتنے پڑھاکو تھے کہ انہوں نے پندرہ بیس ہزار کتابیں تو پڑھی ہی ہوں گی مگر ان کی تنقید کی ایک سطر بھی ایسی نہیں جس میں علم عسکری صاحب کی تخلیقی اہلیت کی بیساکھی بنا نظر آتا ہو۔ عسکری صاحب کے ہر مضمون میں علم اور تخلیقی قوت جڑواں بہن بھائی بن کر سامنے آتے ہیں۔