تردید کا تماشا

270

 

دبئی اور سعودی عرب سے عرب اور ارب آنے کے بعد وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو کچھ قرار آیا ہے۔ کچھ مہلت ملی ہے۔ ابتدائی مہینوں میں تو یہ حال تھا کہ سمجھ ہی میں نہیں آتا تھا کون سا تیر کس کمان میں رکھنا ہے۔ آئے روز تردید۔ تردید پہ تردید۔ ہم تو تنگ آگئے تھے۔ سمجھ میں نہیں آتا کیا لکھیں کیا نہ لکھیں۔ اِدھر لکھ کر ہٹتے ہیں اُدھر حکومت کی جانب سے تردید آجاتی ہے۔ وزراء ہی نہیں عمران خان کا بھی یہ حال تھا سوچ کے دروازے بند اور منہ کھلا۔ ہاتھ میں تردید منہ میں جھوٹ۔ شہد کی مکھیاں بھی پریشان۔ پتا نہیں بوتل میں سے کیا نکلے، شہد کہ شراب۔ ان ہی دنوں کی بات ہے ایک خاتون کی کال آئی۔ بولیں ’’آپ شادی شدہ ہیں؟‘‘۔ ہم نے فوراً منہ بھرتردید کردی۔ اصل آواز میں بولیں ’’ذرا گھر آئیں بتاتی ہوں‘‘۔ اب تو یہ کہتے ہوئے بھی گھبراہٹ ہوتی ہے کہ محبت ایک آرٹ ہے۔ تردید آجاتی ہے ’’سوری میرا مضمون سائنس ہے‘‘۔ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے۔ جواب کا آغاز ہی نہیں سے کرتے ہیں۔ ہم دم دیرینہ حنظلہ سے ہم نے کہا ’’آنسو عورت کا ہتھیار ہوتے ہیں‘‘۔ بولے ’’نہیں! ہر عورت کے نہیں‘‘۔ ہم نے دریافت کیا ’’من پسند عورت کے؟‘‘۔ جواب دیا ’’نہیں، اس کے آنسو ایٹمی ہتھیار ہوتے ہیں‘‘۔ ایک مرتبہ عرض کی ’’کامیابی کا راز صرف محنت میں ہے‘‘۔ بولے ’’نہیں، کامیابی کا راز دو نکاتی ایجنڈے میں ہے۔ ایک ہاتھ میں مکھن اور دوسرے ہاتھ میں چونا۔ حسب موقع استعمال کریں۔ کامیابی قدم چومے گی‘‘۔ ہم نے حکومت کی تبدیلی پر خوش فہمی کا اظہار کیا تو بولے ’’چہرے نہیں نظام کو بدلو۔ سیل پرانے ہوں تو نئی ٹارچ بھی روشنی کم دے گی۔ انجن پرانا ہو تو نئے ٹائر ٹیوب بھی گاڑی کو گڑھے سے نہیں نکال سکتے۔ کچھ سمجھے کہ نہیں۔
تردیدکے اس رویے نے عجب ابہام پھیلادیا ہے۔ بہت کچھ گڑ بڑ ہوگیا ہے۔ پتا ہی نہیں چلتا کون کس کی تلاش میں ہے۔ ڈیلیوری روم سے نکلی ایک زچہ کو کا فی دیر بعد ہوش آیا۔ جسم میں جان ہی نہیں تھی۔ کروٹ لینا تو دور کی بات جنبش کرنا بھی مشکل تھا۔ اس نے بڑی مشکل سے دائیں ہاتھ کو حرکت دی۔ ٹٹولا کچھ محسوس نہیں ہوا۔ بہت دقت سے اس نے بائیں ہاتھ کو گردش دی۔ کچھ چھونے کی کوشش کی۔ ہاتھ خالی ہی رہا۔ وہ بے چین ہوگئی۔ خیال آیا لڑھک کر نیچے تو نہیں گرگیا۔ اوہ خدایا۔ ہمت جمع کرکے اس نے بیڈ سے نیچے جھانکا۔ نیچے بھی نہیں۔ وہ کانپ کررہ گئی۔ پیشانی پر پسینے کے قطرے نمودار ہوگئے۔ دور کھڑی نرس کو اس نے اشارے سے بلایا۔ ہونٹ ہلے مگر اس کا حلق خشک ہورہا تھا۔ آواز ہی نہیں نکلی۔ نرس نے اس کی گھبراہٹ محسوس کرلی۔ کیسے نہ کرتی۔ وہ بھی ماں تھی۔ اس کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ وہ ایک ماں کی تڑپ کو محسو س کرسکتی تھی۔ دوڑتی ہوئی گئی۔ انکو بیٹر سے لاکر نوزائیدہ کو ماں کے پہلو میں لٹادیا۔ بولی ’’میں تمہاری پریشانی سمجھ سکتی ہوں۔ لو جی بھر کے اپنے بچے کو دیکھ لو‘‘، زچہ نے ہمت جمع کی اور چیخ کر بولی’’میرا موبائل کہاں ہے‘‘۔
سر اُٹھا کے چلنا کبھی وقار اور متانت کی علامت تھا۔ آج کل سر اٹھا کر وہی چل سکتا ہے جس کے پاس موبائل فون نہ ہو۔ ایک صاحب ہاتھ اُٹھائے دعاگو تھے ’’اے میرے رب تو کہ آسمان پر کہکشائیں سجاتا اور زمین پر سبزہ آراستہ کرتا ہے، طرح طرح کے پھولوں سے وادیوں کو بھر دیتا ہے۔ قسم قسم کے کیا ہی رس دار اور لذیذ پھل تونے انسانوں کے لیے پیدا کیے ہیں، ایک سیب والا موبائل مجھے بھی عطا فرما‘‘۔ ترجیحات بدل گئی ہیں۔ نمود ونمائش میں بقا سمجھی جارہی ہے۔ لوگ سیب والے فون پر کور بھی ایسا لگاتے ہیں کہ سیب نظر آتا رہے۔ جیسے ہوا نہ لگی تو سیب مرجھا جائے گا۔ کبھی رشتے داروں کو اللہ کی رحمت سمجھا جاتا تھا۔ اب ظرف اور برداشت کی آزمائش باور کیا جاتا ہے۔ ایک لڑکی کا کہنا ہے کہ وہ دنیا کی حسین ترین لڑکی کو گلے لگانے کی کوشش میں آئینے سے ٹکرا گئی۔ اپنی تعریف خود کرنا مناسب نہیں سمجھا جاتا۔ اب خود نمائی نے سلفی کی شکل اختیار کرلی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ فی زمانہ خود کو پیش کرنا پڑتا ہے۔ دریافت کرنے کوئی چل کر آپ کے پاس نہیں آتا۔ پہلے حادثہ ہوجاتا تو لوگ غم گساری کرتے تھے۔ اب جگت بازی کرتے ہیں۔ کیسا ہی موقع ہو جملے بازی سے باز نہیں آتے۔ ایک صاحب کو کتے نے کاٹ لیا۔ تکلیف سے کراہتے ہوئے انہوں نے دوست کو آگاہ کیا۔ جواب ملا ’’لوہے کو لوہا کاٹتا ہے، ہیرے کو ہیرا اور کتے کو۔۔۔‘‘ دوا کی پہلی ہی خوراک سے شفایاب ہوجاتے تو اللہ کا شکر ادا کیا جاتا تھا اب لگتا ہے باقی دوا کے پیسے ضائع ہو گئے ہیں۔
سابق وزیراعظم نواز شریف کی جیل سے اسپتال آتے جاتے دیکھتے ہیں تودل کو دھکا سا لگتا ہے۔ کہاں وہ بھرے بھرے، تنو مند نواز شریف۔ طائر لاہوتی والا اکلوتا شعر اور بے شمار لطیفے سناتے اور کہاں اب بکھرے بکھرے، تنہا تنہا۔ ’’موم پھلی میں دانہ نہیں تم ہمارے نانا نہیں‘‘۔ بچے جس طرح اتنا بڑا رشتہ اتنی سی بات پر توڑ دیتے ہیں درباری اور ابن الوقت لوگ بھی ایسے ہی تعلق توڑ لیتے ہیں۔ نواز شریف خوش قسمت ہیں ان کے دوستوں اور سیاسی ورکروں نے ابھی تک ان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ یہ ان کی استقامت کا صلہ ہے۔ عدالتوں کی طرف سے جانبدارانہ فیصلوں کے باوجودوہ بغاوت کا علم بلند کرنے کے بجائے اُن ہی عدالتوں سے رجوع کررہے ہیں لیکن اس کا کیا جائے انہیں کہیں سے ریلیف نہیں مل رہا۔ نواز شریف کا وقت برا چل رہا ہے۔ اگر میز پر پانچ کپ رکھے ہوں تو مکھی اسی کپ میں گرے گی جو نواز شریف کے آگے ہو۔ انسانوں کو غم سے مفر ہے اور نہ خوشی اختیار میں۔ دونوں ایک ہی در سے عطا ہوتی ہیں۔ خوشی سختی لاتی ہے تو غم مزاج کو ریشم کر دیتا ہے۔ طبیعت میں حساسیت سانسیں لینے لگتی ہے۔ الفاظ کو مبہم کرنے میں نواز شریف بھی کم نہیں تھے۔ وہ انگریزی سے کھیلتے تھے۔ ممکن ہے انگریزی ان سے۔ اللہ ہی جانتا ہے۔ ہر چند کہ لکھی ہوئی تقریر پڑھتے تھے۔ ایک مرتبہ تقریر کررہے تھے۔ جملہ لکھا ہواتھا ’’یو ایس نے پابندی لگادی‘‘ انہوں نے پڑھا ’’اَس (us) نے پابندی لگا دی‘‘ مطلب ہوا ’’ہم نے امریکا پر پا بندی لگا دی‘‘۔
یادش بخیر۔ ہمارے ایک سابق چیف جسٹس ہوا کرتے تھے۔ وہ اپنے سامنے پیش ہونے والے ہر شخص کی ایسی تیسی کرنے میں یقین رکھتے تھے۔ ان کی دلچسپی کے بہت سارے شعبے تھے سوائے عدل کے۔ خاندانی منصوبہ بندی، حکومتی معاملات میں مداخلت، روزانہ کی بنیادوں پر میڈیا کوریج، ڈیموں کی تعمیر اور نہ جانے کیا کیا۔ ان ہی دنوں ہم نے ایک موقع پر لکھا تھا ’’عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس اور وزیر اعظم عمران خان ڈیم بنانے کے سلسلے میں جس طرح پُر جوش ہیں اس مہم کا سلوگن ’’نیکی کر ڈیم میں ڈال‘‘ ہونا چاہیے۔ یہ مہم آغاز تو چیف جسٹس صاحب نے کی ہے لیکن اس کی کامیابی کا بہت کچھ انحصار اللہ کی مدد اور عمران خان کی جدوجہد پر ہے ورنہ ان کا ہر وزیر تو خوش فہمیوں کے اس دراز سلسلے کا حصہ ہے جہاں ہر اینٹ سوچتی ہے کہ دیوار مجھ سے ہے۔ شنید ہے کہ بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا سے پوچھا گیا ’’آپ نے ڈیم کے لیے عمران خان کو کتنا چندہ دیا؟‘‘۔ جواب دیا ’’میں اپنی چندہ پہلے ہی عمران خان کو دے چکا ہوں‘‘۔ عمران خان اگلے پانچ برسوں میں غربت کم کرنے میں کامیاب ہوگئے تو یہ ایک بڑا کارنامہ ہوگا۔ دنیا میں سب سے بھاری چیز خالی جیب ہوتی ہے چلنا مشکل ہوجاتا ہے۔ جیب جتنی بھاری ہو انسان اتنا ہی ہواؤں میں اڑتا ہے۔ یہاں کشش ثقل کے اصول جواب دے جاتے ہیں۔