خبروں کے مطابق پی ٹی آئی حکومت نے جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کو کالعدم قراردیدیا۔ بینک اکاؤنٹس منجمد کر دیے۔ ہر قسم کی سرگرمیوں پر بھی پاندی عائد کردی۔ دفاتر سیل کرنے کا حکم جاری کردیا گیا۔ دونوں تنظیمیں پہلے ہی واچ لسٹ میں شامل تھیں۔ خبروں میں کہا گیا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد اورکالعدم جماعتوں کیخلاف کارروائی ہوگی۔ وزارت داخلہ کے ترجمان کے مطابق یہ فیصلہ وزیر اعظم ہاؤس میں وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی سلامتی کے اجلاس میں ہوا۔ اجلاس میں نیشنل ایکشن پلان کا بھی تفصیلی جائزہ لیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر عملدرآمد کیا جائے گا جس کے تحت کالعدم تنظیموں کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن ہوگا۔
مجھے 1971 کے صدر جنرل یحییٰ یاد آگئے جب مشرقی پاکستان ہاتھ سے نکلا جا رہا تھا اور وہ خون کے آخری قطرے تک جنگ جاری رکھنے کا اعلان کر رہے تھے لیکن اس وقت کے پاکستان کی سب سے اعلیٰ فوج کو ہتھیار ڈالنے کے احکامات بھی جاری کر رہے تھے جس کا علم عوام کو بالکل بھی نہیں تھا۔ یہ بات تو باقی ماندہ پاکستانیوں کے علم میں اس وقت آئی جب خون کے ایک ایک قطرے کو محفوظ کرنے کی خاطر فوج اور مشرقی پاکستان، دونوں کو اغیار کے حوالے کردیا گیا۔ ایک جانب قوم کے حوصلوں کو آسمان کی اونچائی تک بلند کیا جارہا تھا اور دوسری جانب قوم کے عزت و وقار کو تحت الثریٰ میں پہنچایا جارہا تھا۔ چند دنوں قبل جس تب و تاب کا مظاہرہ کیا گیا وہ پوری پاکستانی قوم کا غرور تھا۔ موافقین تو تھے ہی موافقین لیکن مخالفین بھی وزیر اعظم کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے کھڑے نظر آتے تھے۔ قوم میں یہ احساس جڑ پکڑتا جارہا تھا کہ اب پاکستان ہر قسم کے بیرونی دباؤ سے باہر آ چکا ہے۔ قوم جہاں بہت زود رنج واقع ہوئی ہے وہیں نہایت خوش فہم بھی ہے۔ عمران خان کی تقریر نے جہاں قوم کا لہو گرما کر رکھ دیا تھا وہیں وہ یقیناًاس تردد کا شکار ضرور ہوگی کہ آخر راتوں رات ایسا کیا ہو گیا کہ وہی جماعت، اس کے حامی اور اس کے فلاحی ادارے پاکستان کے سارے اداروں کی آنکھوں کا تارہ بنے ہوئے تھے، اس کے سربراہ کے خطابات سارے چینلوں پر براہ راست دکھائے جاتے تھے اور جس کے فلاحی اداروں سے بلا امتیاز ہر پاکستانی استفادہ کر رہا تھا، معتوب قرار پاگئی اور تنظیم کالعدم بنا دی گئی۔
قوم اس بات کو کیسے فراموش کر سکتی ہے کہ ایک جانب عالمی عدالت میں ہندوستان کے گرفتار جاسوس کلبھوشن یادھو پر جاسوسی کا مقدمہ چل رہا ہے تو دوسری جانب پلوامہ میں ہونے والے خود کش دھماکے اور اس کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے 50 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کا الزام بھارت پاکستان پر لگا رہا ہے۔ ایک جانب پاکستان کی جانب سے ان الزامات کی مسلسل تردید اور دوسری جانب اپنے ملک کی کسی جہادی تنظیم پر شدید پابندیاں لگا دینے سے عالمی عدالت میں چلنے والے مقدمے اور بھارت کی جانب سے پلوامہ کی تخریب کاری پر پاکستان پر الزام عائد کیا جانا، کیا پاکستان کے مؤقف پر اپنے ہی ہاتھوں ایک کاری وار شمار نہیں کیا جائے گا اور اقوام عالم کے سامنے آپ کی ساری تردیدیں ریت کی دیوار نہیں بن جائیں گی؟۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر جماعت الدعوہ ایک دہشت گرد تنظیم تھی تو اس کے سربراہ اور سرکردہ افراد کے خلاف بھرپور کارروائی عمل میں کیوں نہیں آئی اور اس کے سرکردہ افراد اور سربراہ کو پاکستان کے سارے چینلوں پر براہ راست کیوں دکھایا جاتا رہا۔ اگر پاکستان سمجھتا تھا کہ وہ تنظیم ایسی نہیں ہے جیسا دنیا گمان کر رہی ہے تو اسے کلیر کیوں نہیں کیا گیا۔ پھر یہ بھی کہ غیر اعلانیہ ہی سہی، لگی پابندیاں ہٹا ہی لی گئیں تھیں اور جماعت کو دہشت گردی کی فہرست سے خارج ہی کردیا گیا تھا تو پھر اب اچانک کیا ہوگیا کہ اس کو دوبارہ پابند سلاسل کیا جارہا ہے۔
جیسا کہ 2008 اور 2014 میں دیکھا گیا کہ بیرونی دباؤ کے تحت پاکستان میں کچھ تنظیموں پر پابندیاں عائد کی گئیں بالکل اسی طرح اب بھی وہی کچھ دیکھنے میں آرہا ہے فرق صرف یہ ہے کہ پہلے ہر عام و خاص کے علم میں یہ بات آجایا کرتی تھی کہ کون کون سے دباؤ پاکستان پر ہیں اور کن کن ممالک کی آوازیں ان میں شامل ہیں لیکن اب اپنے ہی ملک میں آوازوں کا گلا اتنی بری طرح گھونٹ دیا گیا ہے کہ ہمارے خبر رسانوں کی آنکھیں اور زبانیں باہر نکلی پڑرہی ہیں۔ ہر قسم کے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر پابندیاں لگائے جانے کی وجہ سے لوگوں کو اصل صورت حال کا علم اس وقت ہوتا ہے جب کوئی رد عمل سامنے آرہا ہوتا ہے۔ جب حقیقت کسی بھی طور چھپائی ہی نہیں جا سکتی اور حقیقتِ حال کسی نہ کسی راستے عوام تک پہنچ ہی جاتی ہے تو کیا یہ بہتر نہیں کہ عوام تک ہر خبر اپنی پوری حقانیت کے ساتھ پہنچے تاکہ حکومت کے بجائے پاکستان کے عوام خود دشمن کو جواب دے سکیں یا حالات کی سنگینیوں کے پیش نظر مستقبل کے لیے اپنے آپ کو تیار رکھ سکیں۔ ایک جانب پاکستان کے وہ ذرائع جن کے توسط سے لوگوں تک کٹی پٹی خبریں پہنچتی ہیں ان پر شدید گرفت ہے تو دوسری جانب سماجی ویب سائیٹوں پر بھی پابندیاں بڑھتی جارہی ہیں جس سے ہوگا یہ کہ ہر قسم کی افواہوں اور منفی پروپیگنڈے کا راستہ مزید کھل جائے گا اور وہ خبریں، جن کو چھپایا جارہا ہے مزید بارہ مسالحوں کے ساتھ عوام کے سامنے آنا شروع ہوجائیں گی لیکن کیا کیا جائے کہ اس نزاکت کو سمجھنے کے لیے کوئی تیار ہی نہیں ہورہا۔
یہی خبر کے نہ صرف کالعدم جماعت الدعوہ کو ایک بار پھر کالعدم قرار دیدیا گیا ہے، دیگر کالعدم تنظیموں کے خلاف بھی جلد اور مؤثر کارروائیوں کا فیصلہ کیا گیا ہے، نکٹا کو مزید فعال کیا جارہا ہے، جیسی خبر کے پیچھے کیا حقائق ہیں اور اب ایسے موقع پر جب عالمی عدالت میں کلبھوشن کا مقدمہ چل رہا ہو اور بھارت پاکستان پر ہر قسم کی دہشت گردی کا الزام لگارہا ہو، دنیا میں پاکستان کو ایک دہشت گرد ملک ثابت کرنے پر تلا ہوا ہو اور پاکستان اپنے ہی ملک کی سماجی اور اصلاحی تنظیموں پر پابندیاں عائد کر رہا ہو، تو کیا اہل پاکستان اس بات کی جستجو نہیں کریں گے کہ ایسا سب کچھ کس کے اشارے پر کیا جارہا ہے؟۔ ایک جانب تو اہل پاکستان کا استعجاب اور دوسری جانب دنیا کے سامنے اپنے ہی مؤقف میں کمزوری کا اقرار اور تیسری جانب میڈیا پر کڑی پابندیاں، کیا یہ صورت حال پاکستان اور پاکستان کے عوام کے حق میں ہے؟۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دسمبر 2014 میں ملک بھر سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان تیار کیا گیا تھا، جس کے تحت فوجی عدالتوں کا قیام، کالعدم تنظیموں پر پابندی، قومی ادارہ برائے انسداد دہشت گردی (نیکٹا) کو فعال اور موثر بنانا، نفرت انگیز تقاریر اور مواد کی روک تھام، دہشت گرد تنظیموں کی فنڈنگ کی روک تھام سمیت دیگر اہم اقدامات کیے گئے تھے۔ پارلیمانی ایکٹ کے تحت نیکٹا کے چیئرمین موجودہ وزیراعظم اور صوبوں کے گورنرز پر مشتمل ایک باڈی تشکیل دی گئی تھی جو ملک میں امن و امان کے قیام اور دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن پر اپنے اجلاسوں میں اپنی تجاویز پیش کرنے کی پابند تھی، اگر اس سب کے باوجود بھی وہ اب تک ایسی تنظیموں، بشمول جماعت الدعوہ، جیسے گروہوں کو تقریباً سات برسوں میں قابو میں نہ کرسکیں اور آج پھر اس بات کا اعادہ کیا جارہا ہے کہ ان تنظیموں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی تو کیا 7 سال کی غفلت کے مرتکب ذمے داروں کے خلاف کسی بھی قسم کا کوئی ایکشن لیا جائے گا؟۔ مکمل اختیارات اور طاقت کے باوجود بھی اگر دہشت گرد پورے ملک میں دندناتے پھر رہے ہوں تو پھر اتنے بڑے بڑے ادارے بنانے کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی ہے۔
بظاہر تو یوں لگتا ہے کہ کالعدم تنظیموں اور بالخصوص جماعت الدعوہ کے خلاف سخت کارروائیاں کرنے کا حکم سول حکومت کی جانب سے جاری کیا گیا ہے لیکن اس بات کو نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ فیصلہ ایک مشترکہ (سول ملٹری) میٹنگ میں ہوا ہے اس لیے اسے خالصتاً سیاسی قیادت کا فیصلہ سمجھنا اور شمار کرنا سخت نادانی ہوگی۔ اب تک کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ کراچی آپریشن سے لیکر جنوبی وزیرستان کے آپریشنز اور فوجی عدالتیں بنائے جانے کے سارے فیصلے پاکستان کی عسکری قیادت کی منشا کے مطابق ہی ہوتے رہے ہیں جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ایک جمہوری حکومت کے ہوتے ہوئے بھی سارے فیصلے پارلیمنٹ سے باہر ہی ہوتے رہے ہیں۔ آج بھی جو فیصلہ آیا ہے جس میں وزیر اعظم نے اپنے دفاعی قانونی اختیارات سالار کے حوالے کیے ہیں وہ بھی پارلیمنٹ سے باہر ہی ہوا ہے جس میں کالعدم تنظیموں کے خلاف سخت اقدامات بھی شامل ہیں۔
قرآن کا فرمان ہے کہ ’’اے ایمان والو وہ کہتے کیوں ہو جو کر نہیں سکتے (مفہوم)‘‘۔ اس لیے میرا کہنا فقط اتنا ہے کہ ایک سچے مسلمان کو اپنے منہ سے وہی کچھ ادا کرنا چاہیے جو کچھ اس کے بس میں ہو اور وہ کرسکتا ہو۔ حدیث میں آتا ہے کہ ’’کہو میں اللہ پر ایمان لایا اور پھر اس پر ثابت قدم ہو جاؤ‘‘۔ ان دونوں باتوں میں جس جانب اشارہ ہے وہ یہی ہے کہ یا تو کوئی دعویٰ کیا ہی نہ جائے یا کیا جائے تو پھر پائے استقامت میں لرزش آنا سخت گناہ ہے۔ لوگوں کو چھوٹی امیدیں دلانا، ان کو آسرے پر رکھنا، ان سے حقائق کو چھپانا جیسے کام حوصلوں کو بڑھوتری نہیں دیا کرتے بلکہ ان کے دلوں کو چھید کر رکھ دیتے ہیں۔ اگر ہم میں کمیاں، کوتاہیاں اور کمزوریاں ہیں تو ان کو دور کرنا اچھی بات ہے لیکن اپنی آنکھوں اور دنیا کی آنکھوں میں مسلسل دھول جھونکنے سے پاکستان کا وقار مجروح تو ضرور ہو سکتا ہے بلند نہیں ہو سکتا۔ کاش یہ بات ارباب اقتدار و اختیار کی سمجھ میں آجائے۔