کافی دنوں سے نظرآرہا تھا کہ پاکستانی حکومت کو بھی ایسے کچھ حالات کی ضرورت پڑنے والی ہے جو بھارتی وزیراعظم اور ان کی حکومت کو ہے۔ نریندر مودی تو کسی وجہ کے بغیر ہی پاکستان اور کشمیریوں پر برس پڑتے ہیں لیکن پلوامہ حملے نے انہیں چیخنے دھاڑنے کا بڑا موقع دے دیا۔ اس کے بعد پاکستان کی جانب سے بھی جوابی بیانات کی توپیں چل پڑیں۔ گزشتہ ایک ہفتے سے اخبارات اور ٹی وی دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے کہ اب جنگ ہونے والی ہے۔ لیکن پاک بھارت سیاستدانوں کے ماضی اور دونوں ملکوں کے درمیان اچانک ہونے والی گرما گرمی کے واقعات کا نتیجہ مذاکرات کے ڈرامے پر ختم ہونا ہے۔ فی الحال بھارتی حکمرانوں کا انداز ایسا ہے جیسے کل پاکستان پر حملہ ہوجائے گا اور پاکستان کا جواب یوں ہے کہ اب تو ایٹم بم سیدھا دہلی پر مارا جائے گا۔ بھارت صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔ لیکن چند لمحے ٹھیر کر دیکھیں یہ سب کیا ہے۔ کیا ایسی ہی صورتحال پی پی، مسلم لیگ اور پی ٹی آئی اسمبلی اور ٹی وی پر پیدا نہیں کرتے۔ اسے ہم ٹاک شو کہتے ہیں۔ تو پاکستان اور بھارت کے حکمرانوں اور طاقت کے مراکز کو بھی اپنے لیے ٹاک شوکی ضرورت پڑگئی۔ لہٰذا انہوں نے یہ میگا ٹاک شو شروع کیا ہوا ہے۔ اس میں رنگ بھی بھرا جارہا ہے۔
کہیں بھارتی فوج کے دس ہزار جوان کشمیر میں اتارکر طیاروں کی پروازیں بڑھا کر یا پاکستان کی طرف سے اگلے مورچوں کے دورے اور ٹینک سرحدوں پر پہنچانے کی خبروں سے یہ رنگ پیدا کیا گیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کیا ہے۔ کیا جنگ ہوجائے گی۔ لوگ بلاوجہ اس معاملے کو سنجیدہ لے رہے ہیں اور ماہرین سے رائے لینے تک چلے جاتے ہیں۔ ارے بھائی ہم اسے پاک بھارت ٹاک شو سمجھتے ہیں جنگ ایسے نہیں ہوا کرتی۔ جنگ بیانات کے بعد شروع نہیں ہوتی۔ بس شروع ہوجاتی ہے۔ جب عراق پر امریکی یلغار ہوئی تو امریکی افواج سعودی عرب میں پہلے اتر چکی تھیں اعلان بعد میں ہوا۔ پاکستان کے راستے امریکی افواج نے جب افغانستان پر حملے شروع کیے تو اس سے قبل کہ پاکستان اجازت دیتا افغانستان پر امریکی میزائل فائر کیے جاچکے تھے اور چند میزائل پاکستانی علاقے میں بھی گرچکے تھے۔ جنگ ہوگی کیسے۔ دونوں طرف کی جنگ لڑنے والے خود اس پر تیار نہیں۔
بہر حال چند روز اور اس ٹاک شو سے لطف اٹھائیے۔ پھر دیکھیں گے کہ اگلا مرحلہ کیا ہوتا ہے۔ یہ جو گرما گرمی ٹی وی اور میڈیا پر ہے اس کا اثر ہر طرف ہوا ہے۔ گزشتہ دنوں کراچی کے ایک اسکول ماما بے بی کیئر میں بھارتی گیت پر بھارتی پرچم والے پینا فلکس کی موجودگی میں بچوں کے ٹیبلو پر ہنگامہ ہوا اسکول کی رجسٹریشن منسوخ کرنے اور اسکول بند کرنے کا اعلان ہوگیا اور میڈیا کے شو میں معاملہ بھارت دشمنی اور بھارت مخالف جذبات کی رو میں بہہ گیا۔ اب کوئی سنجیدہ بات سننے کو تیار نہیں اسکول کی انتظامیہ نے جو موقف اختیار کیا اس کی تحقیق ہونی چاہیے اگر ان کا بیان درست ہے جس کی ویڈیوز موجود ہوں گی، ان کا معائنہ کرکے فیصلہ کرنا چاہیے۔ لیکن اس وقت جو کچھ ہورہا ہے وہ جنونی ہندوؤں کی طرح کا رویہ ہے۔ ایک ویب ٹی وی چینل کا رپورٹر اپنی رپورٹ میں کہہ رہا تھا کہ پاکستانی ریاست کی پالیسی ہے کہ بھارت سے کوئی تجارت کوئی ثقافتی تبادلہ نہیں ہوگا اور یہاں اسکول میں بھارتی گانوں پر ٹیبلو ہورہے ہیں۔ اس رپورٹر اور اس کی رپورٹ کو آن ائر کرنے والوں کو بھی ریاست پاکستان کی پالیسی نہیں معلوم۔ ویسے تو پاکستانی حکمرانوں کو بھی اپنی پالیسی نہیں معلوم لیکن اب تک کی معلوم پالیسی تو یہی ہے کہ بھارت کے ساتھ دوستی بس چلائی جائے۔ ثقافتی طائفوں کا تبادلہ کیا جائے۔ ہندو ثقافت کے فروغ کے لیے اور بھارتی پروپیگنڈے کے لیے سافما کو فروغ دیا جائے۔ بھارتی پیاز، ٹماٹر، ساڑھیاں وغیرہ منگوائی جائیں اس کے ساتھ ساتھ پان، گٹکا، چھالیہ اور آر ایم ڈی، جے ایم وغیرہ بھی آجائیں۔ ثقافتی یلغار اس کے علاوہ ہے۔ پاکستانی نوجوانوں کے ہاتھوں میں چھوٹی سی پٹی نظر آنے لگی ہے بہت سے لوگ بے سوچے سمجھے پہنتے ہیں کہ فیشن ہے لیکن یہ تو ہندو خواتین کی جانب سے اپنے بھائیوں کے لیے راکھی بندھن کے طور پر ان کے ہاتھ میں باندھتی ہیں۔ یہ سب چیزیں حکومتوں کی پالیسیوں کے نتیجے میں پاکستان درآمد کی جاتی ہیں۔ کچھ بھارتی پالیسی کے تحت ازخود آجاتا ہے۔
بات ایک ویب ٹی وی کے رپورٹر کی جانب سے زبردستی اپنا فیصلہ تھوپنے کی کوشش کی تھی ممکن ہے کہ تحقیق کے بعد ماما بے بی کیئر کی انتظامیہ ہی بھارتی پرچم کے سامنے بھارتی ترانوں پر ٹیبلو کروانے کی مجرم قرار پائے یا پھر اس کے وعدے اور جواب کو بھی مد نظررکھا جائے۔ فیصلہ جو بھی ہو اسے نافذ کیا جانا چاہیے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جس بھارت کے خلاف ہم بول رہے ہیں اس کے بارے میں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ اس کے حوالے سے ہمارے حکمرانوں اور حکومتوں کا رویہ کیا رہا ہے اور ابھی کچھ دنوں میں جب یہ پاک بھارت ٹاک شو ختم ہوجائے گا اور او آئی سی امریکی ہدایات کی روشنی میں مذاکرات کی باتیں ہوں گی۔ کہیں خیر سگالی مصافحے ہوں گے اور کہیں وفود کے تبادلے کی بات ہوگی تو اس وقت دیکھیں گے کہ حب الوطنی کے معیارات کیا ہیں فی الحال تو ٹاک شو دیکھیں۔