استثنا…..؟

212

صدر مملکت عارف علوی کا فرمان ہے کہ ملکی مصنوعات کا استعمال حب الوطنی کی دلیل ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا حب الوطنی کا تعلق صرف اور صرف عوام سے ہے خواص کو استثنا حاصل ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا ارشاد گرامی ہے کہ اگر ملک میں تیار ہونے والی اشیا خریدی جائیں تو ڈالر کی قیمت جو آسمان کو چھو رہی ہے خود بخود زمیں بوس ہوجائے گی۔ موصوف کا کہنا ہے کہ وہ بھارت کے لوگوں سے خوب واقف ہیں وہ بھی پاکستان سے خوش گوار تعلقات کے خواہاں ہیں سو، ہم نے کرتار پور کی راہداری کھول کر دوستی کی جانب قدم بڑھا دیا ہے۔ اُمید ہے بھارت ہمارے اس اقدام پر خیر سگالی کا مظاہرہ کرے گا اور وہ دن دور نہیں جب پاک بھارت کی دوستی اس خطے کی مثالی دوستی ہوگی اور خوش حالی کے خواب کی تعمیر ملے گی۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاک بھارت دوستی دونوں ممالک کی خوش حالی کی ضامن ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی نیک نیتی اور ملک و قوم کی فلاح وبہبود کی خواہش سے انکار نہیں کیا جاسکتا مگر قول و فعل کا تضاد ساری نیکیوں اور خوبیوں کو بے معنی اور بے اثر کردیتا ہے کاش! وزیراعظم عمران خان کو سمجھایا جاسکتا کہ خواہشات اہم آہنگ ہونا مضبوط تعلقات کی بنیاد تو ہوسکتا ہے مگر اس بنیاد پر خواہشات کی عمارت تعمیر نہیں کی جاسکتی، تعلقات کے استحکام کے لیے کیمسٹری کا ایک ہونا بہت ضروری ہے اور یکسو ہونا اس سے بھی ضروری ہے۔ عمران خان کا المیہ یہ ہے کہ وہ کسی بھی معاملے میں یک سو نہیں ہوتے، ہر فیصلہ عجلت میں کرتے ہیں، نتیجتاً یوٹرن لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں، البتہ ان میں یہ خوبی وافر مقدار میں پائی جاتی ہے کہ وہ اپنے یوٹرن پر ڈٹ جاتے ہیں۔ یہ کیسی بدنصیبی ہے کہ ان کی اہلیہ محترمہ بشریٰ بی بی کو بار بار یہ سمجھانا پڑتا ہے کہ عمران خان تم اس ملک کے منتخب وزیراعظم ہو اس لیے تمہیں زیب نہیں دیتا کہ مخالفین کو جیل میں ڈالنے کی دھمکیاں دو اور یہ جو تم الٹا لٹکا دوں گا کا ورد کرتے رہتے ہو یہ تمہارے لیے ہی نہیں ملک و قوم کے لیے بھی نقصان دہ ہے مگر عمران خان صاحب اس حقیقت کو تسلیم ہی نہیں کرتے کہ بعض اوقات وظائف الٹے بھی پڑجاتے ہیں اور مخالفین کو الٹا لٹکانے والے خود لٹک جاتے ہیں اور پیرومرشد بھی ہاتھ کھڑے کردیتے ہیں۔ المیہ یہ بھی ہے کہ عمران خان وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھنے کے بجائے کھڑے رہنے پر بضد ہیں وہ یہ سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے کہ کرسی کے پاس آدمی زیادہ دیر تک کھڑا نہیں رہ سکتا، مسند ہو یا خالی گھر آسیب کے لیے باعث کشش ہوتے ہیں۔
صدر مملکت محترم عارف علوی اور وزیراعظم عمران خان نے عوام کو یہ ہدایت تو جاری فرما دی ہے کہ عوام غیر ملکی اشیا کیوں خریدنا پسند کرتے ہیں۔ عمران خان صاحب بھارت کے بارے میں خود کو اتھارٹی سمجھتے ہیں سو، لازم ہے کہ وہ بھارت اور پاکستان کے درمیان اشیائے ضروریات کے نرخ میں جو فرق پایا جاتا ہے اس پر غور فرمائیں اور اس فرق کو ختم کردیں تو کوئی پاکستانی بھارتی یا کسی دوسرے ملک کی اشیا نہیں خریدے گا۔ ادویات بنانے والی عالمی کمپنیوں کی قیمتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے، بھارت سے یہ ادویات کوئٹہ لائی جاتی ہیں اور یہاں سے پاکستان کے دیگر علاقوں تک پہنچائی جاتی ہیں۔ بدنصیبی یہ بھی ہے کہ حکمران طبقہ عوامی فلاح وبہبود کے لیے کام کرنے پر آمادہ ہی نہیں، صرف زبان ہلانا ہی ضروری سمجھتا ہے۔ حد یہ ہے کہ ہم ٹماٹر بھی انڈیا سے خریدنے پر مجبور ہیں اور اب تو بھارت والے بھی طعنہ زن ہیں کہ ہم ان کے ٹماٹر کھا کر انہیں مار رہے ہیں۔ شاید بھارتی کچھ زیادہ ہی ٹماٹر کھا گئے ہیں اس لیے ٹر ٹر کررہے ہیں، اس ٹر ٹر میں وہ یہ بات بھی بھول گئے کہ ہم ان کے ٹماٹر نہ خریدیں تو انڈیا میں ٹماٹر کچرا ہاؤس بنانا پڑے گا یا پھر کسان ٹماٹر اُگانا چھوڑ دیں گے۔