سچ کا جادو!

475

سچ کو جتنا دباؤ اتنا ہی اُبھرتا ہے اور بالآخر سر پر چڑھ کر بولتا ہے۔ تحریک انصاف کے بارے میں یہ تاثر روز بروز بڑھتا جارہا ہے کہ عمران خان کو کسی خاص مقصد کے حصول کے لیے وزارت عظمیٰ کی گدی پر جلوہ افروز کیا گیا ہے۔ جن قوتوں نے عمران خان کو گدی نشینی کا منصب سونپا ہے؟ انہیں احساس ہونے لگا ہے کہ خان صاحب گدی نشینی کی ذمے داری نبھانے میں دقت محسوس کررہے ہیں کیوں کہ جمہوریت قوم کے مزاج سے ہم آہنگ نہیں۔ شنید ہے کہ انگریزوں کے دور حکومت میں کسی شخص کے سیکڑوں مویشی چوری ہوگئے تھے پولیس کمشنر نے بڑی تگ و دو کے بعد مسروقہ مویشی برآمد کرلیے مگر تماشا یہ ہوا کہ جس شخص کے گھر سے مویشی برآمد ہوئے تھے وہ بضد تھا کہ یہ مویشی اس کے ہیں اور اس سے بڑا تماشا یہ ہوا کہ جب شناخت کے لیے مویشی چوری کی رپورٹ لکھوانے والے کو بلایا گیا تو اس نے کہا یہ مویشی اس کے نہیں ہیں اور یوں مقدمہ داخل دفتر ہوگیا۔ انگریز پولیس کمشنر نے تحقیقات کیں تو یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ رپورٹ درج کرانے والے پر کچھ ایسا دباؤ ڈالا گیا جو اس کی قوت برداشت سے باہر تھا، یوں مسروق صاف بچ گیا۔ تقسیم کے بعد مذکورہ پولیس کمشنر نے ایک کتاب لکھی اور اس المیے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے لکھا کہ برصغیر میں جمہوریت کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی کیوں کہ اس کی نشوونما کے لیے یہاں کی آب و ہوا مناسب نہیں۔ جمہوریت وہاں کامیاب ہوتی ہے جہاں کے لوگوں کا مزاج جمہوری ہو۔
تحریک انصاف نے بارہا کہا ہے کہ اس کی کامیابی کا دارومدار اس کے منشور کا ثمر ہے لوگوں نے اس کے سیاسی نصب العین سے متاثر ہو کر ووٹ دیے ہیں مگر سیاسی جماعتوں اور سیاسی دانش وروں نے اس بات سے کبھی اتفاق نہیں کیا اور اب وفاقی وزیر اطلاعات چودھری فواد کا ارشاد گرامی آگیا ہے کہ مک مکا کرنا ہوتا تو عمران خان کو وزیراعظم کیوں بنایا جاتا، موصوف نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ نواز شریف اور زرداری سے مک مکا کے لیے بہت دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ دوستوں کی جانب سے یہ مشورہ بھی آرہا ہے کہ بہت زیادہ دباؤ اور تلخ رویہ تلخی کا باعث بنتا ہے اور سیاست میں تلخی کوئی خوش گوار عمل نہیں۔ بہتر یہی ہے کہ ہاتھ ہولا رکھا جائے ورنہ۔۔۔ مسل پھولنے اور اعصاب ٹوٹنے کا حادثہ بھی رونما ہوسکتا ہے اور یہ بھی باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اپوزیشن کے بغیر اسمبلی نہیں چل سکتی اور اگر اسمبلی جام ہوگئی تو حکومت کا پہیہ جام ہوسکتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اپوزیشن اسی وقت کچھ دیتی ہے جب اسے بھی کچھ دیا جائے۔ حالات وقرائن بتارہے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت اپوزیشن تو کیا عوام کو بھی کچھ دینے کے موڈ میں نہیں مگر بہت جلد اسے احساس ہوجائے گا کہ چپّو کے بغیر کشتی چلانا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت اپوزیشن کے بغیر ہی حکومت چلاناچاہتی ہے شاید وہ بھول رہی ہے کہ پٹرول کے بغیر گاڑی نہیں چلتی اور دھکا اسٹارٹ گاڑی کبھی منزل مقصود تک نہیں پہنچتی۔ چودھری فواد کا کہنا ہے کہ عمران خان نے پارٹی کے ہر رکن کو باور کرادیا ہے کہ سودے بازی نہیں ہوگی۔ احتساب کے عمل کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ کوئی مانے یا نہ مانے مگر ہمیں یقین ہے کہ چودھری صاحب نے درست فرمایا ہے کہ اس وقت پاکستان میں ٹھگز آف پاکستان کی سیریز چل رہی ہے۔ سیریز کوئی بھی ہو بالآخر اختتام پزیر ہوتی ہے یہ بات تحریک انصاف جتنی جلدی مان لے اس کے لیے اور جمہوری عمل کے فروغ کے لیے بہتر ہے۔