اسلامی تعاون تنظیم کا دور وزہ اجلاس یکم اور دو مارچ کو دبئی میں منعقد ہورہا ہے۔ میزبان ملک متحدہ عرب امارات نے اس اجلاس میں بھارتی وزیر خارجہ کو افتتاحی سیشن میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی دعوت دی ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم جس کا پہلا نام اسلامی کانفرنس تنظیم تھا ستاون مسلمان ملکوں اور حکومتوں کی تنظیم ہے۔ جو عملی طور پر تو ایک غیر موثر اور بے وقعت ہے مگر مسلمانوں کے مسائل اور باہمی تعاون کے لیے زبانی کلامی حد تک تنظیم کچھ نہ کچھ سرگرمی دکھاتی رہتی ہے۔ کشمیر کے حوالے سے بھی تنظیم کا ایک رابطہ گروپ عرصہ دراز سے قائم ہے مگر یہ گروپ بھی نشستند، گفتند اور برخاستند کی عملی تصویرہے۔ اس کی سرگرمیاں بھی غور، تشویش، مذمت، مشورے سے آگے کبھی نہیں بڑھ سکیں۔
او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کی شرکت اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ ہے۔ بھارت ہمیشہ سے اس تنظیم کی رکنیت کا طلب گار رہا ہے مگر پاکستان نے اس کوشش کو ناکام بنایا ہے۔ رکنیت نہ ملنے کے باوجود بھارت نے اس کے اجلاسوں میں بطور مبصر شرکت کی بھی سرتوڑ کوششیں کیں۔ القدس کی پامالی کے خلاف احتجاج کے لیے 1969میں مراکش کے دارالحکومت رباط میں منعقد ہونے والی پہلی اسلامی سربراہ کانفرنس میں بھارت کو شمولیت کی دعوت دی گئی تھی۔ بھارت کی راہ ہموار کرنے کے لیے شاہ فیصل اور مراکش کے بادشاہ شاہ حسن نے صدر پاکستان سے ملاقات کی۔ صدر پاکستان آغا محمد یحییٰ خان نے یہ کہہ کر کانفرنس میں شرکت سے انکار کیا کہ ہم مسلمانوں کے قاتل ملک بھارت کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے۔ انہی دنوں بھارت میں احمد آباد علاقے میں بدترین مسلم کش فسادات ہوئے تھے۔ پاکستان کے مضبوط موقف کے بعد مراکش کے بادشاہ نے بھارتی وفد سے ملاقات کی۔ بھارتی وفد نے رضاکارانہ شرکت کا فیصلہ بدلنے سے انکار کیا۔ شاہ مراکش نے دوسری بار بھارتی وفد کے سربراہ اور سابق صدرفخر الدین احمد سے ملاقات کی مگر انہوں نے رضاکارانہ طور پر فیصلہ واپس لینے سے انکار کیا جس کے بعد بھارت کے بغیر ہی او آئی اسی کا اجلاس منعقد ہوا اور فلسطینیوں کی حمایت میں قرارداد منظور کی گئی۔ اب ایک بار پھر متحدہ عرب امارات نے بھارت کو اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی ہے۔
او آئی سی مسلمان ملکوں کی تنظیم ہے۔ بھارت کے علاوہ بھی دنیا کے بہت سے غیر مسلم ممالک میں مسلمان بڑی تعداد میں آبا د ہیں اگر ایک بار او آئی سی کے اصولوں کی خلاف ورزی کی گئی تو پھر کئی اور ملکوں کو بھی مبصر اور رکن کی حیثیت دینا ہوگی۔ پاکستان او آئی سی کا سرگرم اور بانی رکن ہے۔ پاکستان نے او آئی سی کے مقاصد کو ہمیشہ تقویت دینے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ اس وقت حالات یہ ہیں کہ بھار ت نے او آئی سی کے بانی رکن ملک پاکستان پرغیر اعلانیہ جنگ مسلط کر رکھی ہے۔ یہی نہیں بلکہ بھارتی مسلمانوں پر حیلوں بہانوں سے عرص�ۂ حیات تنگ کیا گیا ہے۔ گائے کے تقدس کے نام پر مسلمانوں کو راندۂ درگاہ بنا دیا گیا ہے۔ کشمیری مسلمانوں کی حالت زار سے تو ایک زمانہ آگاہ ہے۔ خود او آئی سی اکثر اپنے اجلاسوں میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی طرف سے روا رکھی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر لب کشائی کرتی چلی آئی ہے۔ او آئی سی کے ملکوں کے لیے یہ حالات کسی طور بھی ڈھکے چھپے نہیں رہے۔ بھارتی فوج نے کشمیری مسلمانوں پر موت طاری کررکھی ہے۔ مسلم کشی کی یہ منظم مہم او آئی سی کی متوقع ’’مہمان خصوصی‘‘ سشما سوراج جی حکومت کی سرپرستی میں جاری ہے۔ ایک طرف او آئی سی کابانی رکن ملک بھارتی جارحیت اور دھمکیوں کی زد میں ہے تو دوسری طرف بھارتی عزت افزائی اس تنظیم کے اندر حکمت عملی اور نظریات کے گہرے تضاد کو ظاہر کررہی ہے۔ بھارتی میڈیا اس عزت افزائی کو اپنے ملک کی ڈپومیٹک کامیابی اور پاکستان کے لیے سفارتی دھچکا قراردے رہا ہے۔
عرب ملکوں کا بھارت کے ساتھ یارانہ بہت پرانا تو ہے مگر اس کے لیے او آئی سی کے اصولوں اور مقاصد کی خلاف ورزی نہیں کی جانی چاہیے۔ اس صورت حال میں پاکستان کو ماضی کی یاد تازہ کرتے ہوئے جرأت مندانہ موقف اختیار کرنا چاہیے۔ جس اجلاس میں سشما سوراج مہمان خصوصی ہوں گی اس میں شاہ محمودقریشی مہمان کے احترام میں باادب باملاحظہ ہوشیارہو کر بیٹھے رہیں کشمیرکے حالات اور موجودہ کشیدہ صورت حال میں کچھ جچتا نہیں۔ بھارت کی اس خالص اسلامی فورم پر موجودگی اس تنظیم کو مزید فعال بنانے کے بجائے اسے سارک کانفرنس کے انجام سے دوچار کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ بھارت نے اس تنظیم کو اپنے مقاصد اور پاکستان کو کارنر کرنے کے لیے استعمال کرنے کی حکمت عملی اپناکر اسے برے انجام سے دوچار کر دیا ہے۔ بھارت اوآئی سی کو بھی اسی انجام سے دوچار کرنے کے لیے مسلمان ملکوں کے خیمے میں سینگ پھنسانے کا خواہش مند ہے۔ ایک بار یہ سینگ اندر داخل ہوگئے تو پھر پورا خیمہ ہی سینگوں پر نظر آئے گا۔