مسلم دنیا کی نئی نسل کے اراکین کی عظیم اکثریت سوشلزم یا کمیونزم کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتی۔ ایسے لوگوں کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ 1991ء سے پہلے سوشلزم دنیا کے دو غالب نظاموں میں سے ایک نظام تھا۔ آدھی دنیا سرمایہ دارانہ نظام کے تحت زندگی بسیر کررہی تھی اور مزید آدھی دنیا سوشلزم کے شکنجے میں جکڑی ہوئی تھی۔ سوشلزم کا مرکز سوویت یونین تھا۔ سوشلزم اگرچہ انسانی ساختہ نظام تھا اور مذہب کے لیے اس کی فکر میں کوئی جگہ نہ تھی مگر سوشلسٹوں نے سوشلزم کو خود ایک مذہب بنادیا تھا۔ اس مذہب کا پیغمبر کارل مارکس تھا اور اس کی مشہور زمانہ تصنیف داس کیپتال کو مقدس کتاب کا درجہ حاصل تھا۔ عام خیال یہ تھا کہ سوشلزم ایک دائمی نظام ہے اور اسے کبھی زوال کا منہ نہیں دیکھنا پڑے گا۔ مگر 1991ء میں سوویت یونین ٹوٹ گیا اور سوشلزم تحلیل ہو گیا۔ سوشلزم کی موت اتنی ’’اچانک‘‘ تھی کہ دنیا بھر کے سوشلسٹ اس کو دفنانے کے تقاضے بھی پورے نہ کرسکے۔ یہاں تک کہ اکثر سوشلسٹ سوشلزم کے زوال کا صحیح تجزیہ بھی نہ کرسکے۔ کسی نے کہا کہ سوشلزم کا زوال امریکی سی آئی اے کی سازش ہے۔ کسی نے کہا سوشلزم نظریہ ہے اور نظریے مرا نہیں کرتے۔ کسی نے کچھ بھی نہ کہا اور اس نے امریکی کیمپ میں شمولیت اختیار کرلی اور آزاد منڈی کی معیشت اور مغربی جمہوریت کے گیت گانے لگا۔ البتہ ان تینوں طرح کے سوشلسٹوں یا سابق سوشلسٹوں میں ایک قدر مشترک تھی۔ سوشلزم کے عروج کے زمانے میں بھی وہ اسلام بیزار تھے اور سوشلزم کے آنجہانی ہونے کے بعد بھی وہ اسلام سے نفرت کرتے رہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام صرف اپنے پیروکاروں ہی کو ایک امت نہیں بناتا اسلام اپنے دشمنوں کو بھی ایک امت میں ڈھال دیتا ہے۔ بلاشبہ تمام کافر امت واحدہ ہیں۔ لیکن یہ تو ایک طویل جملۂ معترضہ تھا۔ یہاں کہنے کی اصل بات کچھ اور ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے مرکز سے شائع ہونے والے لبرل ازم کے ترجمان ہفت روزے The Economist نے اپنے تازہ ترین شمارے کے سرورق کی سرخی سے پوری دنیا کو چونکا دیا ہے۔ 16 فروری سے 22 فروری 2019ء تک کے دی اکنامسٹ کے سرورق کی سرخی یہ ہے۔
“The Rise of Millennial Socialism”
اس سرخی کا آسان ترجمہ ہے نئی نسل میں سوشلزم کا اُبھار یا نئی نسل میں سوشلزم کی مقبولیت۔ لفظ Millennial کا ایک مذہبی پس منظر ہے مگر فی الحال اس پس منظر پر گفتگو کی ضرورت نہیں۔ زیر بحث موضوع کی اہمیت یہ ہے کہ اس اکنامسٹ نے مغرب کی نئی نسل میں سوشلزم کی مقبولیت کے حوالے سے اداریہ سپرد قلم کیا ہے اور چار صفحے کا مضمون بھی شائع کیا ہے۔ مگر اکنامسٹ نے کہا کیا ہے؟
اکنامسٹ نے لکھا ہے کہ 20ویں صدی کی آخری دہائی میں نظریاتی جنگ ختم ہوئی تو سوشلزم معاشی ناکامی و نامرادی اور سیاسی جبر کی علامت بن کر اُبھرا مگر تقریباً 30 سال بعد سوشلزم ایک بار پھر ’’فیشن‘‘ بن کر سامنے آرہا ہے۔ امریکا میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق امریکا کے 18 سے 29 سال کے 51 فی صد نوجوان سوشلزم کے بارے میں مثبت رائے رکھتے ہیں۔ امریکا کے 2016ء کے صدارتی انتخابات کے ابتدائی مرحلے میں برنی سینڈرز نے نوجوانوں میں ہیلری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ سے زیادہ مقبولیت حاصل کرلی تھی۔ 2017ء میں فرانس کے صدارتی انتخابات میں 24 سال سے کم عمر کے ایک تہائی جوانوں نے بائیں بازو کے امیدوار کو ووٹ دیے۔ برطانیہ میں لیبر پارٹی کے سربراہ ہینری کوربن خود کو سوشلسٹ کہتے ہیں۔ امریکا میں نوجوان الیگزینڈریا اوکیزیو (Alexandria Ocasio) حال میں امریکی کانگریس کی رکن منتخب ہوئی ہیں۔ وہ نہ صرف یہ کہ کانگریس کی تاریخ کی کم عمر ترین رکن ہیں بلکہ وہ اپنے آپ کو ’’ڈیمو کریٹک سوشلسٹ‘‘ کہتی ہیں۔ اکنامسٹ کے بقول سوشلزم کا یہ اُبھار اہم ہے۔ اس لیے کہ سوشلزم کے زوال کے بعد امریکا کے صدر بل کلنٹن اور برطانیہ کے وزیراعظم ٹونی بلیئر نے کہا تھا کہ انہوں نے ریاست اور معیشت پر کنٹرول کے حوالے سے ایک ’’تیسرا راستہ‘‘ تلاش کرلیا ہے۔ یعنی وہ اب نہ تو کلاسیکل معنوں میں سرمایہ دار ہیں نہ سوشلسٹ۔ ٹونی بلیئر نے 1994ء میں اعلان کیا تھا کہ اب ان کی جماعت معاشی اداروں پر حکومت کے کنٹرول کے تصور سے دستبردار ہورہی ہے۔ اس عمل پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا۔ ’’یہ میرا سوشلزم‘‘ ہے۔ تو کیا واقعتاً عالمی اسٹیج پر سوشلزم کی واپسی ہوچکی ہے یا ہونے والی ہے؟۔
ایسا نہیں ہے۔ اس کے دو بڑے دلائل یہ ہیں۔ سوشلزم کے بانی کارل مارکس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ اوّل و آخر ایک ماہر معاشیات ہیں اور بس۔ مگر کارلس مارکس نے اپنی اس حیثیت پر قناعت نہ کی۔ انہوں نے اپنے معاشی نظریات کو ایک جامع فلسفے کی بنیاد پر استوار کیا۔ انہوں نے اپنی ایک الٰہیات یا ontology پیدا کی۔ ایک تصور علم یا Epistemology وضع کی۔ ایک تصور انسان تخلیق کیا۔ ایک تصور زندگی کا خاکہ مرتب کیا۔ ان کی الٰہیات میں مادّے کو خدا کی حیثیت حاصل تھی۔ ان کا تصور علم یہ تھا کہ عقل سے حاصل ہونے والا علم ہی اصل علم ہے۔ علم وحی ایک قیاس یا ایک فینٹیسی ہے جسے مذہبی طبقات نے اپنی بالادستی کو یقینی بنانے کے لیے تشکیل دیا ہے۔ ان کا تصور انسان یہ تھا کہ انسان ایک معاشی حیوان ہے اور پیداواری رشتے انسانی تعلق کی اصل ہیں۔ ان کا تصور زندگی ایک غیر طبقاتی معاشرے یا ایک Classeess Society کا قیام تھا۔ ملکیت کے بارے میں مارکس کا خیال تھا کہ ریاست کے سارے مادی وسائل ریاست کے قبضے میں ہونے چاہیں اور اس کی ریاست میں انفرادی ملکیت کا کوئی وجود نہیں ہونا چاہیے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو سوشلزم کی ’’واپسی‘‘ کی پُشت پر نہ کوئی الٰہیات ہے، نہ کوئی خاص تصور علم ہے، نہ کوئی مخصوص تصور انسان ہے۔ یہاں تک کہ مغرب کے نوجوانوں میں مقبول ہونے والا سوشلزم یہ بھی نہیں کہہ رہا کہ وہ انفرادی ملکیت کے خلاف ہے بلکہ ’’نیا سوشلزم‘‘ صرف سرمایہ دارانہ نظام میں ’’اصلاحات‘‘ چاہتا ہے۔ مثلاً نئے سوشلزم کے علمبردار کہہ رہے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام نے معاشی عدم مساوات کو بہت بڑھا دیا ہے، یہاں تک کہ وہ پالیسی سازوں کے ہاتھ سے نکل گئی ہے۔ چناں چہ اس کی روک تھام کی ضرورت ہے، اسی طرح نوجوانوں میں مقبول سوشلزم کا ایک تجزیہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ معیشت میں صرف امیروں کے مفادات کا تحفظ ہے، نیا سوشلزم کہتا ہے کہ معیشتوں کو چلانے والی بڑی کمپنیاں اور بیوروکریسی عوام کے مفادات کا تحفظ نہیں کرتے۔ چناں چہ انہیں ’’جمہوری‘‘ بنانے کی ضرورت ہے، نئے سوشلزم کا ایک تصور یہ ہے کہ نظام چلانے والوں کی کم عقلی اور بڑی بڑی لابیوں کے زیر اثر حکومتوں نے عالمگیر ماحولیاتی بحران سے صرف نظر کیا ہے، چناں چہ اس مسئلے کو بھی حل کرنے کی ضرورت ہے، نئے سوشلزم کا ایک تجزیہ یہ بھی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں آزادی کا تصور محدود ہے، اسے وسعت دینے کی ضرورت ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ اقتصادی طاقت کے دائرے کو وسعت دی جائے تا کہ لوگ اپنی عام زندگی میں آسانی کے ساتھ انتخاب یا Choice کو بروئے کار لاسکیں۔ اس سلسلے میں بھارت کے دانش ور بھاسکر سُنکارا نے ایک بنیادی بات کہی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اگر لوگوں کی عظیم اکثریت اخبار ہی نہ پڑھ سکتی ہو تو آزادئ اظہار کا کیا فائدہ؟ اس سلسلے میں اکنامسٹ نے 17 ویں صدی کے دانش ور جیمز ہیرنگٹن کا ایک فقرہ نقل کیا ہے اس نے کہا ہے کہ ملکیت کی عدم مساوات طاقت کی عدم مساوات میں ظاہر ہوتی ہے۔ اس کا خیال تھا کہ تقسیم دولت اور جمہوری آزادی ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔ آپ نے ملاحظہ کیا کہ نئے سوشلزم میں کوئی انقلابیت نہیں ہے بلکہ وہ ایک پالتو قسم کا سوشلزم ہے جو سرمایہ دارانہ نظام میں مناسب اصلاح کے سوا کسی چیز کا طالب نہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو نیا سوشلزم دراصل سرمایہ دارانہ نظام ہی کا ایک خادم ہے۔
مذکورہ حقائق سے کئی اہم باتیں نمایاں ہو کر سامنے آتی ہیں۔ ان میں سے ایک بات یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام خود بڑے بحران کا شکار ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو نوجوانوں میں مقبول سوشلزم جسے اکنامسٹ نے Millennial Socialism کا نام دیا ہے وجود ہی میں نہ آتا تو اس کا تشخص سرمایہ دارانہ نظام کے تشخص سے قطعی طور پر مختلف ہوتا اور اس میں ویسی ہی انقلابیت ہوتی جیسی انقلابیت اوریجنل سوشلزم میں تھی۔ اوریجنل سوشلزم نے ملکیت کے سوال پر کبھی سمجھوتا نہ کیا اور صاف کہا کہ سوشلسٹ ریاست میں انفرادی ملکیت کا کوئی تصور نہیں ہوسکتا اور سوشلسٹ ریاست غیر طبقاتی ہوگی۔ یہاں سوال یہ ہے کہ نیا سوشلزم سرمایہ دارانہ معاشرے میں کس نوعیت کا ردِعمل پیدا کررہا ہے؟۔
بلاشبہ اکنامسٹ نے ایک دھماکے کے ساتھ دنیا کو بتایا ہے کہ ایک نئی قسم کا سوشلزم وجود میں آیا ہے مگر اکنامسٹ نے اپنے اداریے میں صاف کہہ دیا ہے کہ اس سوشلزم کا تجزیہ سو فی صد درست نہیں اور اس نے مسائل کے جو حل تجویز کیے ہیں وہ سب کے سب قابل عمل نہیں۔ اکنامسٹ نے تسلیم کیا ہے کہ امریکا میں ایک فی صد امیروں کی آمدنی میں 242 فی صد اضافہ ہوا ہے جو متوسط درجے کی آمدنی والوں کی آمدنی سے چھ گنا زیادہ ہے۔ تاہم اکنامسٹ نے کہا ہے کہ یہ سمجھنا ٹھیک نہیں کہ معاشی عدم مساوات غیر معمولی طور پر بڑھتی ہی رہے گی۔ اکنامسٹ کے مطابق امریکا میں 2005ء اور 2015ء کے درمیان معاشی عدم مساوات میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اسی طرح امریکا میں متوسط طبقے کی آمدنی میں 10 فی صد اضافہ ہوا ہے۔
ان تمام حقائق کو دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کا متبادل بیانیہ نیا سوشلزم نہیں ہے۔ اس لیے کہ نیا سوشلزم سرمایہ دارانہ نظام کی اصلاح کے ذریعے اسے نقائص سے پاک اور موثر بنانا چاہتا ہے۔ وہ یہ سوال ہی نہیں اُٹھا رہا کہ روئے زمین پر انسان کی حقیقی قدروقیمت سرمائے سے کیسے متعین ہوسکتی ہے؟ اس لیے کہ سرمایہ انسان کا خالق نہیں اس کی مخلوق ہے اور مخلوق سے خالق کی زندگی کی معنویت متعین نہیں ہوتی۔