حکومت نے قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے کشمیر کی سربراہی ایک کہنہ مشق سیاسی شخصیت سید فخر امام کو سونپ دی ہے۔ سید فخر امام قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر سمیت بہت سے عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی اسمبلی میں ایک حرف انکار نے انہیں اسپیکر کے عہدے سے تو محروم کر دیا مگر وہ ایک اصول پسند شخصیت کے طور پر سامنے آئے تھے۔ ان کی شریک حیات بیگم سیدہ عابدہ حسین بھی ایک تجربہ کار اور زیرک سیاست دان ہیں۔ جو وزارت سے سفارت تک کی ذمے داریاں نبھا چکی ہیں۔ قومی اسمبلی کی کشمیر کمیٹی سے اس کے دائرہ اختیار اور وزن کے برعکس توقعات وابستہ کرنا ہماری عادت سی ہوگئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اسمبلی کی بہت سی کمیٹیوں کی طرح ایک کمیٹی سمجھنے کے بجائے اسے وزارت خارجہ کا متبادل سمجھ لیا ہے۔ فی الحقیقت کشمیر کمیٹی کی اہمیت فقط یہ ہے کہ پاکستان کے عوام کی رائے کے عکاس ادارے کی کشمیر کے حوالے سے سرگرمیوں اور سوچ کو ظاہر کرتی ہے۔ کشمیر کمیٹی کی سربراہی کے لیے مناسب اور موزوں نام کے انتخاب سے حکومت کی مسئلے سے دلچسپی اور عدم دلچسپی کا انداز ہ ہوتا ہے۔ کشمیر کمیٹی کی سربراہ ہونے کا مطلب کسی لشکر کی سربراہی ہوتا ہے نہ قوم اس شخصیت سے اعلان جہاد کی توقع رکھتی ہے مگر کشمیر کمیٹی کے سربراہ سے یہ توقع ضرور ہوتی ہے کہ جب بھی کشمیریوں پر کوئی اُفتاد پڑے جو اکثر بھارتی فوج کے ہاتھوں پڑتی ہے اور جب چنار شعلے اُگل رہے ہوں تو کشمیر کمیٹی کا سربراہ لوگوں کو بیانات اور مضبوط موقف کے ساتھ عوام اور میڈیا میں دکھائی دے۔
کشمیر کے مسئلے کو امید نے زندہ رکھا ہے وگرنہ کشمیریوں اور بھارت کے درمیان طاقت کا کوئی تناسب ہی نہیں۔ کشمیری فقط امید کے سہارے اکہتر سال سے حالات کی کربلا میں اس شان سے کھڑے ہیں کہ طاقت اور تحریص ہر حربہ جن کے سامنے ہیچ ہے۔ اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ مسئلے کی باریکیوں سے آگاہ ہو اور اس کی وہ جو کہہ رہا ہو وہ زبان کی نہیں دل کی آواز ہو۔ وہ زبان وبیان پر عبور بھی رکھتا ہو اور کشمیر کے حوالے بے خوف وخطر بات کرنے کا یارا رکھتا ہو۔ بدقسمتی سے ماضی میں اس کے برعکس ہوتا رہا۔ کئی ایک شخصیات کشمیر کمیٹی کے سربراہی سنبھال کر کشمیر اور کشمیریوں سے پردہ کرنے کے انداز میں منہ موڑ کر بیٹھ جاتی تھیں۔ کشمیریوں کے سر کے اوپر سے موجِ خوں گزر جاتی تھی مگر کشمیر کمیٹی خوابیدہ اور گُم سُم بلکہ بسا اوقات کلی طور پر گم ہو کر رہ جاتی تھی۔ محدب عدسے سے اس کا وجود تلاش کرنا بھی ممکن نہیں رہتا تھا۔ اب نئے پاکستان کی کشمیر کمیٹی کی سربراہی سید فخر امام کے سپرد ہو گئی ہے۔
سید فخر امام کمیٹی کی ضرورت، حالات اور وقت کے تقاضوں کے مطابق ایک بہترین انتخاب ہیں۔ آنے والے دن کشمیر کی صورت حال اور عالمی اور علاقائی معاملات کے لحاظ سے بہت اہم ہیں۔
امریکا افغانستان سے انخلا کی راہیں تلاش کر رہا ہے۔ امریکا کو محفوظ راستہ صرف طالبان ہی دے سکتے ہیں اور طالبان کو قائل کرنے کی سب سے زیادہ صلاحیت بلکہ یہ ترپ کا پتا پاکستان کے پاس ہے۔ امریکا افغانستان سے نکل گیا تو وہ خطے کے مسائل اور معاملات کو یا تو ماضی کی طرح بھول جائے گا یا پھر دور بیٹھ کر منفی طور طریقے اپنائے گا۔ چین اور روس داعش کے اُبھاراور اپنے علاقوں میں مسلح تحریکوں کے زور پکڑنے کے خدشات کا شکار ہیں۔ کشمیر بہت سی طاقتوں کے درمیان آگ کا الاؤ ہے۔ کشمیر یونہی سلگتا رہا تو اس کی وادیوں میں داعش سمیت کوئی بھی ایسا گروہ پنپ سکتا ہے جو بین الاقوامی قوانین اور اصطلاحات کو جوتے کی نوک پر رکھ سکتا ہے۔ ایسے میں پاکستان کی کوشش ہونی چاہیے کہ اگر وہ امریکا کو افغانستان میں محفوظ راستہ دے رہا ہے تو اس کے بدلے امریکی اثر رسوخ کو کشمیریوں کو ریلیف دینے کے استعمال کرے اور ریلیف کا مطلب آئینِ ہند کے اندر کوئی مصنوعی حل نہیں بلہ عوامی خواہشات کے قریب تر سیاسی انتظام ہے۔ عوامی خواہشات کو جانچنے ماپنے کے لیے اگر پاکستان یا کسی آزاد ادارے کی رائے کو بھارت سننا اور ماننا نہیں چاہتا تو بھارت کے دانشور اور سیاسی کارکن ارون دھتی رائے، جسٹس مارکنڈے کاٹجو اور یشونت سنہا، محبوبہ مفتی، فاروق عبداللہ اس وقت یہ کہانی بہتر انداز میں سنا سکتے ہیں۔ ان میں کوئی بھارت کے لیے غیر اور ناقابل اعتبار نہیں۔ عوام کی وہی رائے مقدم ہے جس کے لیے وادی
کے عوام برس ہا برس سے قربانیاں دیتے چلے آرہے ہیں۔ بھارت امریکا کا اسٹرٹیجک شراکت دار ہے۔ وہ اپنا اثر رسوخ استعمال کرکے بھارت کو معقولیت کی راہ پر لاسکتا ہے۔ چین اور روس بھی ثالثی کی پیشکش کر چکے ہیں۔ پاکستان کو ثالثی سے خوف محسوس نہیں ہو رہا کیوں کہ وہ اس منحوس ’’اسٹیٹس کو‘‘ کا خاتمہ چاہتا ہے جس میں کشمیریوں کی حیثیت پنجرے میں مقید اور محصور پرندے کی سی ہو کر رہ گئی ہے۔ بھارت اس ’’اسٹیٹس کو‘‘ کا محافظ اور طرف دار ہے کیوں کہ اس کے خیال میں عوامی رائے کے خلاف بھی ان پر حکومت کرنا اور کرتے چلے جانا ہی کامیابی ہے۔
امریکا کو پاکستان سے یک طرفہ رعایتیں لینے کی عادت سی پڑ گئی ہے۔ اب پاکستان کو امریکا کی اس عادت کو تبدیل کروانا ہے۔ افغانستان میں امن اور امریکا کے محفوظ راستے کے بدلے کشمیر میں جوابی رعایت کا حصول ایک مشکل مرحلہ تو ضرور ہے ناممکن نہیں۔ مسئلے پر ثالثی کے لیے سعودی عرب اور ایران کو آگے بڑھنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ دونوں ممالک کشمیر کے ساتھ گہرے تہذیبی روابط بھی رکھتے ہیں۔ دونوں ثالثی کی درپردہ کوششیں بھی کر رہے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ او آئی سی میں بھارت کی شرکت اس کی غصے اور شدت کو کم کرنے کی دانستہ کوشش ہو۔ جسے ایک ممکنہ حل سے پہلے ’’فیس سیونگ‘‘ بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس بدلتی ہوئی صورت حال میں کشمیر کمیٹی سمیت پاکستان کے ہر ادارے کا اہم کردار بنتا ہے۔ امید ہے سید فخرامام کشمیر کے حوالے سے ان چیلنجز کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے کام کا آغاز اور سمت کا تعین کریں گے۔