ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کی پاکستان کے بارے میں پالیسی عجیب و غریب ادوار سے گزری ہے۔ کبھی اس پر سیاسی مفادات کی خاطرجنگ کی آگ بھڑکانے کا جنون طاری رہا ہے اور کبھی امن کی نقاب اوڑھ کر دوستی کی پینگیں بڑھانے کی خواہش کا اظہار اس پر چھایا رہا ہے۔
اْس زمانے میں جب نریندر مودی گجرات میں اپنی وزارت اعلیٰ کے دور میں خونریز فسادات میں تین ہزار مسلمانوں کے خون میں لتھڑے ہوئے تھے اور پاکستان کے خلاف دشمنی کی آگ میں بھسم تھے ،اس وقت وہ ممبئی پر نومبر 2011 کے حملے کے جواب میں پاکستان پر حملے کے مطالبے میں پیش پیش تھے۔ اس وقت وہ بڑھ بڑھ کر کہہ رہے تھے کہ پاکستان کو اسی زبان میں جواب دینا چاہیے جو وہ سمجھ سکے۔
لیکن جب گجرات میں مسلم کش ’’کار کردگی‘‘ کے انعام کے طور پر آر ایس ایس کی کوششوں سے وہ وزارت عظمیٰ پر فائز ہوئے تو عیارنہ حکمت عملی اختیار کی۔ انہوں نے اسی پاکستان پر جس کے خون کے وہ پیاسے تھے دوستی کا جال ڈالنا شروع کردیا۔ اپنی وزارت عظمیٰ کی حلف برداری کی تقریب میں اْس زمانے کے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کو بڑی محبت سے دعوت دی اور اس موقع پر پاکستان پر دہشت گردی کا الزام بھلا کر ان سے اکیلے میں بات چیت کی ، اس کے چند ماہ بعد کھٹمنڈو میں 2014 کی سارک سربرہ کانفرنس میں ڈرامائی انداز سے مصافحہ کیا تاکہ سب ان کے دکھاوے کے دوستانہ انداز کو دیکھ لیں۔ یہی نہیں اس مصافحے کے بعد کھٹمنڈو کے ہوٹل میں نواز شریف سے ایک گھنٹہ تک خفیہ بات چیت کی۔ پھر 2015 میں رمضان المبارک کے آغاز پر نریندر مودی نے نواز شریف کو ٹیلی فون کر کے مبارک باد پیش کی۔ دو ماہ بعد روس میں شنگھائی تعاون کی تنظیم کی کانفرنس کے موقع پر مودی نے نواز شریف سے دہشت گردی اور کشمیر کے مسئلہ سمیت مختلف مسائل پر بات چیت کی۔ اس کے کچھ روز بعد انہوں نے اپنی وزیر خارجہ سشما سوراج کو اسلام آباد بھیجا جہاں انہوں نے اعلان کیا کہ دونوں ملک عنقریب متنازع مسائل پر مذاکرات کا سلسلہ شروع کریں گے۔ پھر اسی سال 25 دسمبر کو نریندر مودی نے کابل سے دلی واپس جاتے ہوئے اچانک لاہور میں اترنے کا فیصلہ کیا اور نواز شریف کی نواسی کی شادی میں شرکت کی۔ یہ ہندوستان کے کسی وزیر اعظم کا پچھلے دس برس میں پاکستان کا پہلا دورہ تھا۔
اس دورے کے چند ہفتوں بعد، پٹھان کوٹ پر حملہ ہوا۔ مودی حکومت نے اس حملے کے بارے میں پاکستان کی تحقیقاتی ٹیم کو تفتیش کرنے کی اجازت دی جس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پٹھان کوٹ کا حملہ خود ہندوستان نے کرایا ہے۔ اس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات منقطع ہوگئے۔ پٹھان کوٹ کے حملے کے پانچ ماہ بعد ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں اوڑی میں ہندوستانی فوج کے بریگیڈ ہیڈ کوارٹرز پر کشمیر کے حریت پسندوں نے حملہ کیا جس میں 17 فوجی ہلاک ہوگئے۔ اس حملے کے جواب میں ہندوستان نے جھنجھلا کر کشمیر میں کنٹرول لائین کے پار حملہ کیا جسے اس نے سرجیکل اسٹرائیک قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ اس حملے میں 50پاکستانی فوجی ہلاک ہوئے ہیں لیکن پاکستان نے کہا کہ اس حملے میں پاکستان
کے صرف دو فوجی جاں بحق ہوئے۔ اوڑی کے حملہ کے بعد نریندر مودی جنہوں نے بر سر اقتدار آنے کے بعد امن اور دوستی کا پر چم لہرایا تھا ، یہ پرچم لپیٹ کر پاکستان کے خلاف جنگ جویانہ پالیسی اختیار کی۔ اس دوران گجرات میں ریاستی اسمبلی انتخابات ہورہے تھے ، انہوں نے سیاسی مفادات کی خاطر ایک طرف پاکستان کے خلاف جنگی جنون بھڑکایا اور دوسری جانب اپنی حریف کانگریس پارٹی پر الزام لگانا شروع کر دیا کہ وہ ہندوستانی فوج کے سرجیکل اسٹرائیک پر شکوک و شبہات کا اظہار کر کے پاکستان کی حمایت کر رہی ہے۔
اس سال فروری میں پلوامہ میں ہندوستان کی سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے قافلے پر کشمیری حریت پسند عادل ڈار کے خود کش حملے کے بعد جس میں 41 ہندوستانی فوجی ہلاک ہوئے، نریندر مودی نے پاکستان کے خلاف جارحانہ پالیسی کا علم بلند کر دیا اس دودھاری عیارانہ پالیسی کا مقصد ایک طرف اگلے عام انتخابات میں جیت کے لیے پاکستان کے خلاف، عوام کے جذبات بھڑکانا تھا اور دوسری جانب پوری دنیا میں پاکستان کو دہشت گردی کو فروغ دینے والا ملک ثابت کر کے اسے تنہا کرنا تھا۔ پلوامہ میں خود کش حملہ اورعادل ڈار نے چوں کہ اپنے آپ کو جیش محمد کا حریت پسند قرار دیا تھا اس بنا پر فوراً ہندوستان نے اس حملہ کا ذمے دار پاکستان کو قرار دیا کیوں کہ جیش محمد کی تنظیم پاکستان میں قائم ہے۔ اس الزام کی بنیاد پر ہندوستان نے 1971 کے بعد پہلی بار پاکستان کی سرحد پار کر کے بالاکوٹ پر فضائی حملہ کیا اور دعویٰ کیا کہ وہاں جیش محمد کا تربیتی کیمپ تباہ کر کے جیش محمد کے ساڑھے تین سو شدت پسندوں کو نیست نابود کر دیا ہے یہ دعویٰ یکسر بے بنیاد ثابت ہوا۔اس میں ناکامی کے بعد ہندوستان نے آزاد کشمیر پر بھر پور فضائی حملہ کیا جس میں پاکستان فضائیہ نے ہندوستان کے دو مگ طیارے مار گرائے اور ایک ہندوستانی حملہ اور ہوا باز، ونگ کمانڈر ابھی نندن ورتمان کو زندہ پکڑ لیا۔ اس پر ہندوستان کی قیادت کے حواس باختہ ہوگئی۔ اس نہایت کشیدہ صورت حال میں خطرہ تھا کہ نریندر مودی کوئی جنونی کارروائی کریں اور دو جوہری ملکوں کو نہایت ہولناک جنگ میں دھکیل دیں۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے دونوں ملکوں کو تباہ کن جنگ کے خطرہ سے بچانے کے لیے امن اور خیر سگالی کی خواہش کے اظہار کے طور پر ہندوستانی ہوا باز کو رہا کرنے کا اعلان کیا اور 48 گھنٹے کے اندر اندر ہندوستان کے حوالہ کر دیا۔
لیکن افسوس کہ نریندر مودی نے اس پر عمران خان کا شکریہ ادا نہیں کیا بلکہ اپنے انتخابی جلسوں میں پاکستان کے خلاف زہر افشانی کا سلسلہ جاری رکھا اور کنٹرول لائن کے پار آزاد کشمیر پر گولہ باری تیز تر کردی۔ نریندر مودی کے اس جارحانہ اور جنگ جو رویے کا اصل مقصد جاننے کے لیے راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں، اس وقت نریندر مودی پر انتخابی جنون طاری ہے اور انہوں نے انتخابات کے لیے ہندوستان کے عوام کے دلوں میں پاکستان سے نفرت کی جو آگ بھڑکائی ہے وہ انتخابات سے پہلے اس آگ کو ٹھنڈا نہیں کرنا چاہتے اب ان کے حزب مخالف کانگریس پارٹی پر حملے تیز تر ہوگئے ہیں۔ کیوں کہ ہندوستان کے سنجیدہ حلقے نریندر مودی کی حکمت عملی کے مقصد کو بے نقاب کر رہے ہیں اور یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا مودی کی جنگ جو پالیسی کامیاب ثابت ہوئی ہے۔ اسی کے ساتھ یہ سوال بھی کیا جارہا ہے کہ پلوامہ کے حملہ کے بعد مودی نے جوجارحانہ پالیسی اختیار کی ہے کیا اس سے کشمیر میں حریت پسندوں کی جدو جہد ختم ہونے یا اس کے کمزور پڑنے کے امکانات ہیں۔