نقل روکنے کے لیے بھی پیسہ۔۔۔!!!

260

پاکستانی حکمران ہر سطح پر اپنی ناکامی کا کھلم کھلا اعتراف بھی کررہے ہیں، اپنے زیر انتظام قوانین اور اداروں پر عدم اعتماد کا اظہار بھی کررہے ہیں اور سارا الزام اپنے ہی عوام کو دے رہے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کہاں سے شروع کیا جائے۔ چلیں اسکولوں اور تعلیم سے شروع کرتے ہیں۔ ملک بھر میں سرکار کے زیر انتظام لاکھوں اسکول بند پڑے ہیں، یا ان میں جانور بندھے ہوئے ہیں، بہت سے صرف نمائشی طور پر کھلے ہیں۔ اسکولوں کے اصطبل بننے کا رونا رو رو کر تو قوم کے آنسو خشک ہوگئے تھے، اب اسکولوں کے ساتھ ساتھ نظام امتحانات پر حکمرانوں کے عدم اعتماد کا ذکر کریں۔ پہلے این ٹی ایس بنا کر یہ بتایا کہ 12 سال تک جو کچھ پڑھایا گیا اور اب تک جتنے امتحان لیے گئے ان سے انسان کی صلاحیتوں کا پتا نہیں چلتا، اس لیے نیشنل ٹیسٹنگ سروس قائم کی گئی اور میٹرک و انٹر میں 90 فی صد نمبر لانے والے این ٹی ایس میں ناکام ہونے لگے۔ گویا این ٹی ایس ہی اصل امتحان ثابت ہوا۔ 12 برس کی تعلیم بھاڑ میں گئی، ابھی تک تو قوم کو پتا ہی نہیں کہ این ٹی ایس کے ذریعے اس سے اربوں روپے سالانہ وصول کیے جارہے ہیں اور یہ کہاں جارہے ہیں اس کا حساب لینے کے لیے اسمبلیوں میں کوئی نہیں۔ ان کو اس کی اجازت نہیں اور ان میں اس کی صلاحیت بھی نہیں۔ بات این ٹی ایس تک رہتی تو اس پر عدالتوں کے ذریعے کچھ دباؤ پڑا تھا لیکن اب ان حکمرانوں کے دماغ میں فتور آیا ہے کہ میٹرک و انٹر کے امتحان دینے والے سارے طلبہ نقل کرتے ہیں صرف یہی پارسا حکمران ہیں کسی کو 6 ارب روپے کا اسکینڈل چپکا ہوا ہے تو کسی کے گھر سے کروڑوں روپے اور کروڑوں کے زیورات نکل رہے ہیں۔ ان کی جائدادیں ہر صوبے اور بیرون ملک بھی ہیں۔ کیا اسمبلی میں جانے کے لیے کوئی این ٹی ایس بنایا گیا ہے۔ یہ لوگ لکھنا جانتے ہیں نہ پڑھنا۔۔۔ سمجھنا تو دور کی بات ہے۔ پھر بھی حکمران بنے بیٹھے ہیں۔
اب جو حملہ کیا جارہا ہے وہ امتحانات کھلے میدانوں میں کروانے کا ہے۔ گویا کھلے میدانوں میں نقل نہیں ہوگی۔ یہ نقل کرانے والے بھی حکمران ہی ہوتے ہیں۔ کیا کراچی کے طلبہ میں نقل کا رجحان ایم کیو ایم نے نہیں پھیلایا۔ سندھ کے طلبہ کو نقل سے پی ایس ایف اور پیپلز پارٹی نے پاس ہونا سکھایا۔ پنجاب ایم ایس ایف جو مسلم لیگ ہے اور کے پی کے میں اے این پی نے یہی کام کیا۔ اس کے بعد کھلے میدانوں میں امتحانات لینے کی بات اپنے کیے پر نادم ہونے کے بجائے قوم کے لاکھوں طلبہ کو نقل کا مجرم گردانا جارہا ہے۔ اسکولوں میں امتحانات کے نظام پر بھی عدم اعتماد کا اظہار کردیا گیا ہے۔ حالاں کہ چھوٹی کلاس میں ایک ٹیچر بھی نقل پر نظر رکھ سکتا تھا اور نقل کرانے والے کھلے میدان میں بھی کرائیں گے۔آخری فیصلہ یہ ہوا کہ جن اسکولوں میں میدان ہیں وہاں امتحانی مراکز بنایا جائے گا۔ گویا امتحانی مرکز ان اسکولوں کو بنایا جائے گا جن کے پاس وسیع میدان ہیں۔ یہ بہت واضح دلیل ہے کہ کوئی فراڈ ہورہا ہے، پہلے میدان میدان کا شور مچایا پھر وفاق کی جانب سے فنڈز نہ ملنے کے بہانے کھلے میدانوں میں امتحان لینے کا معاملہ فی الحال ملتوی کردیا گیا اور اب ان اسکولوں میں امتحان لیا جائے گا جن کے اپنے میدان ہیں یا ان سے متصل میدان ہیں۔ اس سارے کھیل میں بڑے پیمانے پر رقم خوردبرد کی جائے گی۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ طلبہ سے امتحانی فیس کی مد میں جو خطیر رقم وصول کی جاتی ہے اس کا کیا حساب ہے۔ یہ رقم باقاعدہ طے کرکے متعین کی جاتی ہے، تو پھر امتحان کے لیے فنڈز کم کیوں پڑ گئے۔ ایک اور بات یہ کہ صوبائی حکومت امتحانات کے لیے بار بار وفاقی حکومت کی امداد اور گرانٹ کی بات کیوں کررہی ہے اگر وفاقی حکومت کہے کہ میٹرک کے امتحانات جون میں کرالیں تو ہنگامہ کردیا جائے گا کہ تعلیم صوبائی معاملہ ہے وفاق کیوں ہمارے معاملے میں مداخلت کررہا ہے اور صوبہ کیا کررہا ہے۔ بلدیہ کراچی کے درجنوں محکمے ہڑپ کرلیے، ہر چیز ہر ادارے کے فنڈز پر صوبے کی نظر ہے لیکن کام کرنے کے لیے وفاق کی گرانٹ درکار ہے۔
ساری صورت حال اور ابہام کے باوجود امتحانات کی تاریخ پہلے 20 مارچ رکھی گئی پھر 25 مارچ بتائی گئی، لیکن تمام اسکولوں میں 20 مارچ والی ڈیٹ شیٹ تقسیم کی جارہی ہے، ایسا کیوں ہورہا ہے، پرانی ڈیٹ شیٹ دینے کا کیا مطلب ہے، کیا اس کو بحال کردیا جائے گا، اسکولوں کی انتظامیہ کو بھی علم نہیں کہ امتحان 20 کو ہوں گے یا 24کو۔ حکومت سندھ کا سارا زور نقل روکنے کے لیے فنڈز پر ہے۔ گویا اب تک کا نظام یکسر غلط تھا، اس نظام میں نقل مافیا بننے والے آج بھی سندھ اسمبلی میں بیٹھے ہیں۔ پیپلز پارٹی والے خود سندھ میں نقل کو فروغ دیتے رہے، اب اس نقل کو روکنے کا طریقہ جدید طریقہ امتحانات ہے، جس میں کثیر انتخابی جوابات پر مبنی پرچہ۔۔۔ اس کے علاوہ بھی دوسرے طریقے ہیں، ضروری تو نہیں کہ پرانے گھسے پٹے طریقے پر امتحانات لیے جائیں، ہمارا تو خیال ہے کہ نقل روکنے کے لیے ضروری ہے کہ اسمبلی، وزارتوں، کابینہ، میٹرک اور انٹر بورڈز اور جامعات میں آپریشن کلین اپ کیا جائے، ان سب کے لیے کوئی این ٹی ایس بنایا جائے تا کہ انہیں بھی پتا لگے کہ 12 سال اور 14 سال کی محنت کے بعد این ٹی ایس کا ایک امتحانی اے پلس طالبعلم کو ناکام قرار دے دیتا ہے۔