کاش تھوڑی سی اور بات بڑھ جاتی

321

کاش تھوڑی سی اور بات بڑھ جاتی یہ جملہ اس وجہ سے ذہن میں آرہا ہے کہ اس وقت قوم میں جو جوش جذبہ اور اتحاد نظر آرہا ہے وہ ویسا ہی ہے جیسا ہمیں 1965کی جنگ کے دنوں میں نظر آیا تھا، 1965 کی جنگ میں پاکستانیوں کے دلوں پر سانحہ مشرقی پاکستان کا گھاؤ نہیں لگا تھا اس وقت ایک عام پاکستانی تو یہ سوچ رہا ہے کہ بھارت سے ایک دفعہ ایسی جنگ ہو جائے جس میں ہم اگلے پچھلے سارے حساب اور قرضے چکا دیں ہماری دلی خواہش تو یہ ہے کہ چار پانچ دن ایسی بھرپور جنگ ہو جس میں سارا زور کشمیر کو بھارت سے کاٹنے میں لگ جائے اور پھر کشمیر میں بھارت کی سات لاکھ فوج پاکستانی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالے اور اس منظر کو ساری دنیا میں اسی طرح دکھایا جائے، جس طرح بھارت کے تمام بڑے ریلوے اسٹیشنوں اور ائر پورٹوں پر جنرل نیازی کی 1971 کے سرنڈر کی تصاویر لگی ہوئی ہیں جو پاکستان سے انڈیا جانے والے مسلمانوں کے دلوں پر کچوکے لگاتی ہیں۔
ہو سکتا ہے یہ باتیں ایک معصومانہ خواہش، دیوانے کی بڑ، یا ایک سہانا خواب محسوس ہو لیکن ہم سب اپنے دلوں پر ہاتھ رکھ کر سوچیں اور بالخصوص ہماری عمر کے وہ لوگ جنہوں نے 1965 اور 1971 کی جنگ اپنے ہوش و حواس میں دیکھی ہو کہ سن پیسنٹھ کی جنگ سے پہلے پاکستان کتنا پر امن اور خوشحال تھا اور تیزی سے ترقی کی جانب گامزن تھا سستائی کا زمانہ تھا عام لوگوں کو سکون سے دال روٹی مل رہی تھی آپس میں میل محبت تھی رکھ رکھاؤ تھا بڑے چھوٹوں کا احترام تھا کسی حد تک سیاست میں ٹھیراؤ تھا معاشی طور پر ہم اوپر کی طرف جارہے تھے 1965 کی جنگ میں ہم نے فتح حاصل کی تھی یہ الگ بات ہے کہ تاشقند کی میز پر ہم یہ جیتی ہوئی جنگ ہار گئے۔ اس وقت میری عمر تیرہ سال تھی پانچ اور چھ ستمبر کی رات ہی کو محلے میں کچھ ہلچل محسوس ہوئی یہ وہ دور تھا جب راتوں کو لوگ جلدی سو جایا کرتے تھے عشا کی نماز کے بعد گرمیوں میں رات دس سے گیارہ اور سردیوں میں رات نو سے دس کے درمیان عموماً ہم اپنے بستروں پر چلے جاتے تھے۔
رات بارہ بجے اور گھر والوں کی طرح میری بھی آنکھ کھل گئی محلے میں لوگوں کی چلت پھرت اور کچھ سرگوشیوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں، عموماً دو مواقع پر راتوں کو اچانک جاگنا پڑ جاتا تھا ایک تو یہ کہ ہم چوں کہ لیاقت آباد کی کچی آبادی میں رہتے تھے جہاں چٹائی اور سرکنڈوں اور بانسوں کی جھونپڑیاں بنی ہوتی تھیں اور اس میں کہیں پر کسی جگہ اچانک کسی وجہ سے آگ لگ جاتی اور اس کے شور شرابے سے آنکھ کھل جاتی دوسری وجہ یہ ہوتی کہ کہیں کسی گھر میں چور گھس آتا تو اس کو پکڑنے کے لیے پورے محلے میں چور چور کی آوازیں گونجنے لگتیں۔ لیکن پانچ اور چھ ستمبر کے درمیان جو آنکھ کھلی تو ایسا کوئی ماحول نہیں تھا گھر والوں نے بتایا کہ بھارت نے لاہور پر حملہ کردیا ہے ہم گھر سے باہر نکلے تو دیکھا کہ محلے کے تمام بچے بڑے بوڑھے اور خواتین جاگ رہے ہیں لوگ ادھر سے ادھر آجا رہے ہیں کسی نے کہا کہ ان کے گھر لاہور سے فون آیا ہے بھارت نے پاکستان پر حملہ کردیا ہے اسی چکر اور الجھن میں فجر کا وقت آگیا حسب معمول جب مسجد میں نماز پڑھنے گیا تو اس وقت حیرت کی انتہا نہ رہی کہ پوری مسجد نمازیوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی ہے ایسے مناظر تو ماہ رمضان میں نظر آتے تھے۔ پھر ہم تیاری کرکے صبح اسکول پہنچے اسمبلی کے بعد اسکول کے ہیڈماسٹر سید ماجد علی درباری نے جنگ کے حوالے سے پرجوش تقریر کی اور مجھے یاد ہے کہ انہوں نے بھی اپنی تقریر میں اس بات کا ذکر کیا کہ آج صبح فجر کی نماز میں ہماری مسجدیں نمازیوں سے بھری ہوئی تھیں۔ پھر ہم جنگ کے باقی تمام دن خبریں سننے سنانے میں گزارتے اس زمانے میں ریڈیو پاکستان کے نیوز ریڈر بھی بڑے جوش اور ولولے سے خبریں پڑھتے تین نیوز ریڈر تھے شکیل احمد، انور بہزاد اور خاتون نیوز ریڈر شمیم اعجاز۔ پھر ہمارے شاعروں اور موسیقاروں نے اپنے اعلیٰ ذوق اور فن کا مظاہرہ کیا کہ ان کے گائے ہوئے گیتوں اور نغموں نے عام لوگوں جوش اور ولولوں کو بڑھاوا دیا۔ پاکستانی بڑے لڑیا۔ جنگ کھیڈ نئیں ہندو زنانیاں دا۔ اے وطن کے سجیلے جوانوں میرے نغمے تمہارے لیے ہیں۔ دن بھر بچے گنگناتے رہتے تھے۔ بہ حیثیت مجموعی اتحاد کی ایک شاندار فضا تھی پوری پوری رات محلے میں جگار ہوتی تھی کہیں سے چائے بن کر آرہی ہے کہیں سے پانی ہوائی حملوں سے بچنے کے لیے گڑھے جگہ جگہ کھودے جاچکے تھے خطرے کے سائرن بجتے تھے لیکن کسی کو گڑھے میں چھپتے ہوئے نہیں دیکھا بلکہ لوگ جہازوں کی لڑائیاں اوپر آسمانوں پر اس طرح دیکھتے تھے کہ جیسے پتنگ بازی کا مقابلہ دیکھ رہے ہوں قوم میں اتحاد کے مظاہرے کی بات اس لیے کی کہ ٹھیک ایک سال پہلے کراچی میں لسانی فسادات ہوچکے تھے جب جنرل ایوب خان دھاندلی سے جیت چکے تھے اور ان کے بیٹے گوہر ایوب نے فتح کا جلوس نکالا اور وہ لیاقت آباد میں آیا تو پٹھان مہاجر فسادات پھوٹ پڑے۔ اس وقت بھی ہم راتوں کو جاگتے تھے کہ کوئی خطرہ محسوس ہو تو پورے علاقے میں بجلی کے کھمبے بجنے لگتے اور لوگ گھروں سے لاٹھی ڈنڈے لے کر نکل آتے۔ جنگ کے دنوں میں مَیں نے محلے کی ایک بزرگ خاتون جن کو ہم سب منی آپا کہتے تھے سے کہا کہ ہم پچھلے سال بھی جاگتے تھے اور اس سال بھی جاگنا پڑرہا ہے انہوں نے کہ بیٹا پچھلے برس تو سامنے کی لڑائی تھی یہ اوپر سے کوئی بم گراجائے ہم بم گرانے والے کا کیا کرلیں گے۔
اس کے بعد 1971 کی جنگ میں میری عمر 19 سال تھی اور میں بی کام کرچکا تھا ایک سرکاری دفتر میں ملازم تھا اس جنگ میں قوم کا شیرازہ بکھر چکا تھا بنگالی الگ ہونا چاہتے تھے یا ہم انہیں الگ کرنا چاہتے تھے یہ بحث تو چلتی رہے گی لیکن عملاً صورتحال یہ تھی بائیس نومبر کو انڈیا نے مشرقی پاکستان پر بائیس مقامات سے حملہ کیا ہماری افواج تو بڑی بے جگری سے اور کم وسائل کے باوجود اور اس کے باوجود مقامی آبادی بھی دشمن تھی لڑرہی تھیں سولہ دسمبر کو مشرقی پاکستان کا سقوط ہوگیا ہمارے دلوں پر یہ زخم اب بھی تازہ ہے عمر بھی سڑسٹھ برس ہو گئی ہمارے بیش تر ہم عمر اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہم بھی تیاری پر ہیں بس ایک حسرت دل میں ہے کہ انڈیا سے ایک ایسی جنگ ہو جائے جس میں ہم اس سے اپنی تاریخی ہزیمت کا بدلہ چکا دیں تاکہ ہمارے دل میں برسوں سے جو آگ لگی ہوئی ہے اس میں ٹھنڈ پڑجائے اسی لیے کہتے ہیں کہ ستائیس فروری کی شام کو انڈیا میزائلوں کا جو حملہ کرنے والا تھا وہ کاش کچھ کردیتا پھر ہم نے جو جوابی تیاری کی تھی دنیا اس کو بھی دیکھ لیتی پھر چاہے بڑی طاقتیں مل کر اس وعدے پر یہ جنگ رکوادیتیں کہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرایا جائے گا ورنہ تیسری عالمی جنگ ہوئی تو وہ تمام بڑی طاقتوں کو کھا جائے گی۔