عدلیہ کا تقدس جن عوامل کی بنیاد پر قائم ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ جج اس تقدس کو قائم رکھنے کے لیے اپنے طرز عمل، گفتگو اور کردارکی حفاظت کرتے ہیں۔ فلمی ہیرو کے انداز میں ملک وقوم کے مالک بن کر کسی کو اوئے کہہ کر مخاطب نہیں کرتے۔ للکار نے، دھمکانے اور اپنی بڑائی کا اظہار کرنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ جج کا رویہ ایک مشتعل شخص کا نہیں ہوتا۔ وہ اپنے ذاتی میلان، تعصب اور مزاج کی کمزوریوں کو آئین اور قانون سے دور رکھتا ہے۔ سنجیدگی اور غیر جذباتیت جج کو قابل عزت بناتی ہے۔ جج صاحبان میں یہ خوبیاں اس لیے بھی اہمیت اختیار کرلیتی ہیں کہ معاشرہ اپنے منتخب نمائندوں سمیت سارے نظام کی نگرانی عدلیہ کے سپردکرتا ہے۔ جج صاحبان ڈکٹیٹروں، طالع آزماؤں اور طاقت ور اداروں کے مفادات کے تحت کام نہیں کرتے جیسا کہ پاکستان میں ہوتا ہے۔ ہمارے بعض جج صاحبان ڈکٹیٹروں اور آمروں کے مقاصد کے حصول کے لیے آلہ کار کا کردار ادا کرتے رہے۔
کیا جج کسی معاشرے کو لاحق تمام امراض اور مشکلات کا ازالہ کرسکتا ہے؟ بچوں کی پیدائش، پانی کے ذخیرے کے لیے ڈیموں کی تعمیر، غیر ملکی کمپنیوں سے کیے جانے والے معاہدے، ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی، آئے دن پیش آنے والے اندوہناک واقعات، روزانہ کی بنیاد پر عوامی اجتماعات میں شرکت، سیاست دانوں کی طرح تقاریر، سیمینارز کا انعقاد اور ان میں شرکت، میڈیا میں تشہیر کے مواقع کی تلاش، سو موٹو نوٹسوں کی بھرمار کے ذریعے انتظامی معاملات میں مداخلت الغرض ’’فوج اور معزز جج صاحبان‘‘ کے معاملات کے علاوہ تمام معاملات کو کرپشن کے خاتمے کے نام پر اپنے اختیار میں لے لینا۔ کیا ایک جج ان تمام مصروفیات کے بعد اپنے عہدے کے تقاضوں سے انصاف کرسکتا ہے؟ معاشرے کو عدل وانصاف کی فراہمی کو یقینی بنا سکتا ہے؟
گزشتہ برسوں میں ہماری معزز جج صاحبان کے ریمارکس، فیصلوں اور رویوں کا جائزہ لیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستانی معاشرہ اپنے سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کو مسترد کرچکا ہے سوائے حکمران جماعت کے۔ یہ ہمارے نظام عدل کا اعجاز ہے کہ آج پاکستان میں احتساب اور قانون جیسی اصطلاحات مشکوک ہوکر انتقامی کارروائیاں سمجھی جارہی ہیں۔ مالی وسائل رکھنے والا کوئی دوسرا شخص ایسا نہیں جس پر بدعنوانی کے الزمات نہ ہوں۔ سوائے فوج اور عدلیہ کے۔ جب تک فرشتے اور خلائی مخلوق کسی سیاسی جماعت اور سیاسی شخصیت کی سرپرست ہیں عدلیہ بھی ان کی طرف پیٹھ کیے رکھتی ہے جہاں یہ سرپرستی ختم ہوئی عشروں کی رچی بسی شخصیات، تین مرتبہ کے وزیراعظم، تین مرتبہ کے وزیراعلیٰ اور ایسے ہی دوسرے سیا ست دان یکایک اچھے راستوں سے برے راستوں پر چلتے نظر آتے ہیں۔ حکمرانی پر ان کی گرفت دیکھتے ہی دیکھتے ختم ہوجاتی ہے، تحقیقات کی بھول بھلیوں سے گزارتے ہوئے بالآخر انہیں مجرم اعظم اور کرپٹ ترین فرد قرار دے دیا جاتا ہے اور یہ سب کچھ ہوتا ہے بذریعہ عدلیہ۔ اس طرز عمل سے اگر ہمارے جج صاحبان یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ ملک وقوم کی کوئی خدمت کررہے ہیں تو ایسا نہیں ہے اور یقیناًایسا نہیں ہے۔ منتخب حکومتوں کو مختلف حیلے بہانوں سے گرانے حتیٰ کہ منتخب وزیراعظم کو تختہ دار پر لٹکا دینے سے سیاسی جماعتوں کی مقبولیت پر کوئی حرف آیا اور نہ ہی وہ سیاست دان کئی عشروں کے بعد بھی پیش منظر سے پس منظر میں جاسکے۔ البتہ جن جج صاحبان نے اچھے برے ہتھکنڈوں سے سیاست دانوں کو اس انجام سے دوچار کیا انہیں کہیں قدر ومنزلت کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا حتیٰ کہ عدل کے ایوانوں میں بھی نہیں۔ یہ آئین کی پاس دار ی ہے اور نہ عوام کے حقوق کی حفاظت۔ سیاسی جماعتیں عوام کی طاقت کو منظم کرتی ہیں۔
صورت حال یہ ہے کہ جج صاحبان جو چاہیں کرلیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اگر کوئی ان سے اختلاف کرے تو مردود اور توہین عدالت کا مرتکب۔ جس کی سزا کا تعین بھی وہی عدالت کرتی ہے جس کی تو ہین ہوئی ہے۔ ایسے میں چراغ رخ زیبا لے کر بھی عدل وانصاف کی جستجو ممکن نہیں۔ اس امر کی کوئی ضمانت موجود ہے، کیا کوئی ایسا طریقہ کار ہے جس کے ذریعے ایسے ججوں کے فیصلوں کو جج کیا جاسکے، اس کی شکایت کی جاسکے جب کہ اس کے اوپر کوئی اور فورم اور عدالت موجود نہ ہو۔ کیا جج کا ہر اقدام، اس کے منہ سے نکلنے والا ہر لفظ، اس کا ہر انداز، تلخ وترش لہجہ، مزاح سب کچھ عدالتی احکام کے دائرے میں آتا ہے۔ ایوان عدل اور مطلق العنان بادشاہ کے دربار کے ماحول میں کوئی امتیاز اگر باقی نہ رہے تو اس کے لیے فریاد لے کر کہاں جایا جائے۔ جج صاحب کے سامنے کیسا ہی معزز صحافی ہو، استاد ہو، سیاست دان ہو، کوئی افسر ہو یا تقدیس کا حامل کوئی اور فرد کیا جج صاحب کو اختیار ہے کہ اس کی ایسی تیسی کرکے دم لیں، اسے اوئے کہہ کر مخاطب کریں، تو اور تم سے پکاریں؟
فوج کے تقدس کے ساتھ ہی ساتھ آسمان کو چھوتا ہوا عدلیہ کا تقدس بھی فرض کردیا گیا ہے۔ عدلیہ کے تقدس کا یہ تصور مغرب کا عطا کردہ ہے۔ اسلام کے نظام خلافت میں خلیفہ بیک وقت چیف ایگزیکٹو، چیف جسٹس اور سپریم کمانڈر کے ساتھ ساتھ مجتہد اعلیٰ یعنی مقننہ بھی ہوتا ہے۔ سقوط خلافت تک تقریباً تیرہ صدیوں تک یہ استحقاق نہایت کامیابی سے استعمال کیا گیا۔ اس تمام عرصے میں نظام انصاف اتنی کا میابی سے کام کرتا رہا کہ عوام کی عدالتوں اور قاضیوں کے متعلق برائے نام شکایات بھی کہیں سامنے نہیں آتیں۔ جہاں عدالتوں کے احترام کے لیے کبھی کسی قانون سازی کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ مہذب دنیا کو عدالتوں کے احترام کے لیے قوانین نافذ کرنے پڑے۔ ان معاشروں میں عدالتوں کے احترام کی روایت کئی صدیوں کی جگر سوزی کا نتیجہ ہیں جہاں جج پیشہ ورانہ دیانت کو اوج کمال تک پہنچانے کی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں اور تقدس کے حامل قرار پاتے ہیں۔ ہمارے یہاں بھی یہ خواہش پائی جاتی ہے کہ معزز جج صاحبان کا احترام ہو، ان کو دیکھتے ہی لوگ ادب سے سر جھکا کر کھڑے ہوجائیں۔ لیکن اس راہ میں دو چیزیں حائل ہیں۔ ایک وہ قوانین جن کی بنیاد پر جج صاحبان فیصلے صادر کرتے ہیں۔ ان قوانین کی اکثریت لوگوں کے اسلامی عقیدے سے جڑی ہوئی نہیں ہے۔ بلکہ یہ قوانین اسلامی عقائد کی ضد پر استوار ہیں۔ اس لیے ان قوانین کی بنیاد پر کیے گئے فیصلے بھی عوام کی نظر میں ظلم ہی ایک شکل ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان جج صاحبان کا احترام کیسے ممکن ہے جو ان قوانین کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں۔ عوام انصاف دینے والوں کی عزت کرتے ہیں۔ تعظیم کے ذریعے ان کی بلندی کردار اور انصاف پسندی کا اعتراف کرتے ہیں۔ یہ احترام دل کی گہرائیوں سے جنم لیتا ہے۔ ڈنڈے کے زور سے پیدا نہیں ہوتا۔ توہین عدالت کے قوانین کا سہارا لے کر پیدا نہیں کیا جاتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ریاستی طاقت کہیں بھی عوام کی دوست اور ہمدرد نہیں ہوتی۔ ریاستی طاقت پر ہمیشہ بااثر اقلیتیں قابض ہوتی ہیں۔ عدلیہ اس طاقت کے جبر سے عوام کو بچاتی ہے۔ جہاں عدلیہ خود اس طاقت کا حصہ بن جائے وہاں انصاف کی عملداری کا تصور پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی جج صاحبان کی تقدیس کا۔