خارجی محاذ کے ساتھ داخلی صورت حال بھی توجہ طلب ہے

251

خدا کا شکر ہے کہ پلوامہ کے واقعے اور بھارت نے پاکستان کے خلاف جارحیت کرنے اور دنیا میں رسوا کرنے کا جو منصوبہ بنایا تھا اور اس سے اندرون ملک سیاسی فائدہ اٹھانے کا جو خواب دیکھا تھا وہ اللہ کے فضل سے چکنا چور ہوگیا۔ ایک طرف انڈین ائرفورس کی کارکردگی اور صلاحیت کھل کر سامنے آگئی، دوسری طرف بالاکوٹ پر سرجیکل اسٹرائیک کا جھوٹا پروپیگنڈا غیر ملکی میڈیا نے دنیا کے سامنے کھول کر رکھ دیا اور مودی سرکار کی جارحانہ ذہنیت اور جنگی جنونیت بھارتی عوام اور دنیا نے اچھی طرح دیکھ لی اور اسی کے ساتھ ساتھ پاکستانی فضائیہ کی صلاحیت، مہارت اور بہادری دُنیا کے سامنے آگئی اور انڈین ائرفورس نے ڈھکے چھپے الفاظ سے فضائی میدان میں اپنی شکست تسلیم کرلی اور تاحال پاکستان سے زیادہ بھارت میں اپوزیشن، دانشور اور سنجیدہ طبقے وہاں کی حکومت کو جس طنز اور تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔
یہ بات بھی درست ہے کہ پاکستان کے لیے خطرات مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے اور بھارت کی ہٹ دھرمی اور جنگی جنون میں کمی نہیں آئی ہے اور یہ خطرہ بھارت کے انتخابات ہونے تک رہے گا اور مودی سرکار بھارتی عوام کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کرسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تادم تحریر کچھ ائرپورٹس ابھی تک بند ہیں اور فضائی حدود مکمل طور پر کلیئر نہیں ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم پاکستان کی اندرونی صورت حال پر نظر ڈال لیتے ہیں کیوں کہ کسی بھی ملک کی اصل طاقت اس کا اندرونی استحکام، معاشی قوت و ترقی، شفافیت اور اتحاد پر منحصر ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبتا چلا جارہا ہے، اخراجات بڑھ رہے ہیں، جب کہ ٹیکسوں کی وصولی میں کوئی نمایاں اضافہ نہیں ہورہا باوجود اس کے کہ حکومت ٹیکس بڑھانے کی سرتوڑ کوشش کررہی ہے۔ اندازہ ہے مالی خسارہ جی ڈی پی کے 7 فی صد تک چلا جائے گا جو ایک خطرناک بات ہے، روپے کی قدر میں کمی، درآمدات پر مختلف ٹیکس اور بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافے کے باعث مہنگائی کی شرح 8 فی صد تک پہنچ گئی ہے، قوت خرید میں کمی ہونے کے باعث غریب آدمی کیسے گزارا کرے گا، احتساب احتساب کی رٹ لگانے کے باوجود کسی بھی نمایاں شخصیت سے قابل ذکر رقم وصول نہیں ہوسکی ہے، جب کہ احتساب کے ڈر سے کاروباری سرگرمیاں رُک گئی ہیں۔ سرمایہ کاری ماند پڑ گئی ہے نتیجتاً روزگار کے مواقعے کم ہورہے ہیں۔
اسٹیٹ بینک کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق جون 2018ء تک 30 ہزار ارب روپے کی مالیت کا قرضہ پاکستان پر چڑھا ہوا تھا لیکن مزید 6 ماہ میں تحریک انصاف کی حکومت میں 3 ہزار ارب کا قرض میں اضافہ ہوا۔ اس وقت پاکستان پر ایف اے ٹی ایف کی تلوار لٹک رہی ہے، پاکستان کو مئی تک منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنانسنگ روکنے کے لیے موثر اقدامات کرنا ہیں ورنہ جون 2019ء میں پاکستان کو بلیک لسٹ کیا جاسکتا ہے یا پھر مزید ایک سال کے لیے گرے لسٹ برقرار رکھنے کا فیصلہ ہوسکتا ہے۔ ایف بی آر نے ٹیکسوں کی وصولی بڑھانے کے لیے نجی اسکولوں، ٹیوشن سینٹرز، اکیڈمیز اور پرائیویٹ کالجوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ رئیل اسٹیٹ، چین اسٹورز اور فیشن ڈیزائنرز کی بھی نگرانی شروع کردی ہے۔ ایف بی آر گاہے گاہے ایسے اعلانات کرتا رہتا ہے لیکن کرپٹ عملے کی موجودگی میں ٹیکس وصولی میں کوئی نمایاں اضافہ نہیں ہوتا ہے۔ جہاں ارکان قومی و صوبائی اسمبلی ٹیکس گوشوارے جمع نہ کراتے ہوں اور ایف بی آر بے بس ہو تو ٹیکس کیسے جمع ہوگا۔ یوں تو عمران خان نے یہ بیان دے دیا ہے کہ اگر ایف بی آر ٹھیک نہ ہوا تو نیا ایف بی آر بنالیں گے مگر یہ صرف اعلان تک محدود ہے، موجودہ کلچر میں ٹیکس وصولی میں خاطر خواہ اضافے کی کوئی اُمید نہیں۔ ایسے میں حکومت پاکستان بناؤ سرٹیفکیٹس کی صورت میں ملک میں موجود اور سمندر پار پاکستانیوں سے ڈالر کی شکل میں ایک نیا قرضہ لینے جارہی ہے جس میں سرمایہ کاری کی کم سے کم حد 5 ہزار امریکی ڈالر ہے اور حکومت یہ توقع کررہی ہے کہ اس طرح اسے 30 کروڑ ڈالر حاصل ہوں گے۔ دوسری طرف پاور سیکٹر کے نقصانات کو پورا کرنے کے لیے بجلی کے نرخ میں مزید اضافہ کرنے کی تیاریاں ہیں۔ پاکستان میں بجلی پہلے ہی بہت مہنگی ہے نرخوں میں اضافے سے ایک طرف تو مہنگائی میں اضافہ ہوگا اور دوسری طرف برآمدات اور مہنگی ہوجائیں گی۔ اس طرح بین الاقوامی مارکیٹ میں مقابلہ نہ کرسکیں گی۔ چناں چہ داخلی محاذ پر حکومت صرف ایک نکتے پر توجہ دے یعنی ٹیکس نیٹ میں اضافہ، اس سے کئی معاشی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔