امریکا تیل کی خاطر پوری دنیا کو آگ لگانے پر تیار

222

تنویر انجم

دنیا میں قدرتی دولت کواپنے کنٹرول (قبضے) میں رکھنے کی سازش رچانے والا تیل کا پیاسا ملک امریکا ایک ایسے جن کی شکل اختیار کر چکا ہے، جسے پیٹ کی دوزخ کو مسلسل بھڑکائے رکھنے کے لیے تیل کی ضرورت ہے۔ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے اور دنیا پر حکمرانی کرنے کے لیے اس نے برطانیہ کو ساتھ ملا کر ’گریٹ گیم‘ کا آغاز کیا، جس کا مرکزی نقطہ بہرصورت دنیا میں تیل کے ذخائر کو کسی بھی قیمت پر اپنے کنٹرول میں کرنا تھا۔ اس کی ابتدا انہوں نے مشرق وسطیٰ اور خلیج فارس کے ملکوں سے کی، جنہیں قدرت نے تیل کی دولت سے مالا مال کر رکھا ہے۔ اس خطے کو حفاظت و سرمایہ کاری کے نام پر جنگوں سمیت مختلف معاملات میں الجھا کر امریکا نے اپنے تیل کے بڑے ذخائر کو محفوظ رکھ کر مشرق وسطیٰ کے ممالک سے اپنی ضروریات کے مطابق سستا تیل حاصل کرنا شروع کیا۔ جس کا مقصد دنیا خصوصاً خطے میں ڈالر کی برتری، اپنے ذخائر کو بڑھانےاور دوسرے ممالک کے ذخائر ختم کرنا تھا۔ بعد ازاں جب تیل کی قیمتیں بڑھنے لگیں اور اس سے امریکی معیشت متاثر ہوئی تو 2005ء میں امریکا نے اپنے ذخائر کا استعمال شروع کیا تاہم خطے اور یہاں کے قدرتی وسائل پر اس نے اپنی نظریں مسلسل گاڑھ رکھی ہیں۔ عراق کو جھوٹے الزامات عائد کرکے میدان جنگ بنانے کے پیچھے بھی امریکا اور برطانیہ کی سازش کا محور تیل کے ذخائر کا حصول تھا۔ اپنے اس مذموم منصوبے کی تکمیل کے لیے امریکا نے ثابت کردیا ہے کہ وہ کسی بھی حد تک جا سکتا ہے جس کا نتیجہ مشرق وسطیٰ میں جاری مختلف بحرانوں کی صورت میں سامنے آ رہا ہے، جس میں الجھا کر امریکا سعودی عرب اور دیگر ممالک کو اپنے دام میں کر چکا ہے تاہم چین، روس اور پاکستان جیسی طاقتوں کے ہوتے ہوئے امریکا کو کھل کر اپنا گیم جاری رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہے جس کے لیے وہ اپنے حمایتی حکمرانوں کو استعمال کررہا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق 1973ء میں پیدا ہونے والے تیل کے بحران کے دوران امریکا نے مشرق وسطیٰ کے تیل کے ذخائر پر قبضے کے لیے سعودی عرب اور کویت پر حملے کا منصوبہ بنایا تھا۔ برطانیہ میں 30 برس بعد عام ہونے والی خفیہ دستاویزات میں انکشاف ہوا کہ برطانوی حکومت کو بھی ان منصوبوں سے متعلق خفیہ ذرائع سے اطلاعات ملی تھیں کہ تیل پیدا کرنے والے ممالک کی جانب سے تیل فروخت کرنے پر پابندی کے بعد امریکا نے فیصلہ کیا تھا کہ سعودی عرب اور کویت میں تیل کے کنووں پر چھاپا مار دستوں کی مدد سے قبضہ کرلیا جائے۔خفیہ کمیٹی کے اندازوں کے مطابق چھاتہ بردار فوج کے ذریعے تیل کی تنصیبات پر قبضہ کرنے کا امکانات زیادہ تھے اور ان منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے یونان، ترکی، قبرص ، ایران اور اسرائیل میں موجود امریکی فوجی اڈوں کو استعمال کیا جا سکتا تھا۔ اس منصوبے میں برطانیہ کو بھی امریکا کی معاونت کرنی تھی اور اسے ابوظبی کے تیل کے وسائل پر قبضے کے لیے کہا جانا تھا۔ اس وقت کچھ برطانوی فوجی ابو ظبی کی فوج میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ برطانوی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ کویت میں عراق روس کی مدد سے مداخلت کر سکتا ہے۔ اس وقت صورت حال بہت گمبھیر ہو چکی تھی اور رپورٹ کے مطابق یہ حملہ اس صورت میں کیا جانا تھا کہ اگر طویل عرصے تک عرب امریکا کو تیل فروخت نہ کرتے، تاہم تیل کی فروخت پر پابندی کچھ ماہ بعد اٹھالی گئی تھی۔
چونکہ امریکا کی تاریخ مکاریوں، چال بازیوں اور دھوکا دہی سے بھری پڑی ہے، اسی روش کو جاری رکھتے ہوئے اس نے دنیا میں کئی حکومتوں کا تختہ الٹنے کی سازشیں کیں اور انہیں عملی جامہ پہنانے کے لیے انتہائی حد تک جانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ عراق میں صدام حسین کی حکومت کے خاتمے، لیبیا میں کرنل قذافی کو مروانے، مصر میں اخوان المسلمون کے خلاف سازشوں اور افغانستان میں جاری حالات کی ذمے داری امریکا ہی پر عائد ہوتی ہے۔
مشرق وسطیٰ کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کرنے کے بعد اب امریکا وینزویلا میں مداخلت کے لیے مختلف حیلے تلاش کررہا ہے۔ جنوبی امریکا کے شمالی ساحل پر واقع یہ ملک تیل کی صنعت، خطے کے ماحولیاتی تنوع اور فطری مناظر کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔ اس کے مشرق میں گیانا، جنوب میں برازیل اور مغرب میں کولمبیا واقع ہے۔ برف پوش پہاڑی سلسلوں، جنگلات کی وجہ سے اسے ایک منفرد حیثیت حاصل ہے۔ خط استوا کے قریب ہونے کے باعث گرم علاقوں میں شمار ہونے والا یہ ملک قدرتی ذخائر اور معدنیات سے مالا مال ہے اور اپنی آمدن کا بڑا حصہ قدرتی تیل ہی فروخت کرکے حاصل کرتا ہے۔
گزشتہ برس ہونے والے انتخابات کے بعد وینزویلا میں نکولاس مادورو نے اپنی دوسری مدت اقتدار کے لیے صدارت کا عہدہ سنبھالا، جبکہ حزب اختلاف کی جانب سے انتخابات کا بائیکاٹ کیا گیا تھا۔ حکومت سنبھالنے کے فوراً بعد ہی سے اپوزیشن کی جانب سے ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ اس دوران اپوزیشن رہنما خوآن گوائیڈو نے خود کو ملک کا خودساختہ صدر قرار دیتے ہوئے فوج سے تعاون کی اپیل کی تاہم فوج کی جانب سے ان کی حمایت کوئی اقدام تاحال نہیں کیا گیا۔ دوسری جانب اپوزیشن لیڈر کی جانب سے خود کو صدر قرار دینے کے فوراً بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان کی مکمل حمایت کرتے ہوئے انہیں وینزویلا کا نیا سربراہ تسلیم کرلیا جس کے بعد سے ملک میں پرتشدد واقعات کا آغاز ہو چکا ہے اس وقت وینزویلا شدید سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔ میڈیا ذرائع کے مطابق جنوری سے اب تک احتجاجی مظاہروں کے دوران 25 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ زخمیوں اور گرفتار کیے گئے افراد کی تعداد اس سے الگ ہے۔
وینزویلا کے منتخب صدر نکولاس مادورو نے اپنی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کا ذمے دار واشنگٹن حکومت کو قرار دیتے ہوئے اس سے فوراً سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کیا اور قوم سے خطاب میں الزام عائد کیا کہ حکومت مخالف مظاہروں کے لیے اپوزیشن کو امریکا کی جانب سے کھلی حمایت حاصل ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ شدت پسندوں کا گینگ بن چکا ہے۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ اپنے ملک کو امریکی قبضے سے بچانے کے لیے ان کا ساتھ دیں۔ دوسری جانب امریکا کے علاوہ کئی یورپی اور مغربی ممالک حزب اختلاف کے رہنما خوآن گوائیڈو کو وینزویلا کا صدر تسلیم کر چکے ہیں جبکہ اس کے برعکس عالمی سیاست کے اہم کرداروں نے صدر مادورو کی حمایت کا اعلان کیا ہے اور موقف اختیار کیا ہے کہ عوامی خواہش کے برعکس اور امریکی سازش کے تحت کسی کو بھی ملکی سربراہی سے اس طرح نہیں ہٹایا جا سکتا۔ ان ممالک میں روس، چین، اٹلی، ایران اور ترکی سمیت دیگر شامل ہیں۔
امریکا، یورپی یونین اور دیگر ممالک کی وینزویلا میں کھل کر مداخلت سامنے آنے کے بعد خدشہ پیدا ہوچکا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کے حامی سڑکوں پر نکلیں گے جس کے نتیجے میں خون خرابہ بڑھنے اور حالات مزید کشیدہ ہونے کے امکانات ظاہر ہو رہے ہیں۔ امریکا کی جانب سے اپوزیشن لیڈر کی کھلی حمایت اور امداد کے نام پر ملک میں مداخلت کی کوشش کے بعد وینزویلا کی منتخب حکومت کے خلاف پروپیگنڈا مہم بھی جاری ہے۔ اس حوالے سے ٹرمپ نکولاس مادورو پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جمہوری اقدار پامال کرنے کے الزامات عائد کررہے ہیں جبکہ پوری دنیا اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جمہوری اقدار کی پامالیوں کی فہرست میں امریکا اور اس کے حکمران سرفہرست رہے ہیں۔
مشرق وسطیٰ اور افغانستان میں شدید ناکامیوں اور اپنے مذموم مقاصد میں شکست کے بعد امریکا وینزویلا میں مداخلت کرکے اپنا کٹھ پتلی حکمران برسراقتدار لانے کا خواہاں ہےتاکہ لاطینی امریکا میں، امریکا مخالف تصور کیے جانے والے ملک کو بھی ہم نوا اور اپنے بلاک میں شامل کیا جا سکے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق امریکی صدر وینزویلا، کیوبا اور نکارا گوا کی حکومتوں کی پالیسیاں منفی قرار دیتے ہیں، جبکہ یہ دعویٰ کسی بھی طرح سے حقیقت پر مبنی نہیں۔ امریکا دراصل وینزویلا سمیت دیگر لاطینی امریکی ممالک میں تیل اور معدنیات کے وسیع ذخائر پر قبضہ چاہتا ہے تاہم اس کی یہ سازشی مہم کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوگی کیونکہ ابھی تک وینزویلا کے عوام اور فوج صدر مادورو کی حمایت میں بیرونی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے پرعزم ہیں جبکہ صدر مادورو نے امریکا کی جانب سے امدادی سامان کی پیش کش کو بھی یہ کہہ کر ٹھکرا دیا ہے کہ اس کا اصل مقصد ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنا ہے جس کی کسی قیمت پر اجازت نہین دی جا سکتی۔
امریکا کی جانب سے وینزویلا کی حکومت گرانے اور اس کے خلاف معاشی، سیاسی، میڈیا اور نفسیاتی جنگ تو شروع کرنے کے ساتھ فوجی کارروائی کی بھی دھمکی دی جا چکی ہے تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سازش کو بنانے اور توقع کے مطابق نتائج کی پیش گوئی کرنے والے غلطی کر بیٹھے ہیں۔