بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

621

اپنے سیاسی رہنما سے عقیدت اور مدح وستائش کا پی ٹی آئی سمیت ہر ایک کو حق ہے اور اس پرکسی کو اعتراض کا حق نہیں ہے، لیکن وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے ایک ٹیلی ویژن چینل پر مکالمے کے دوران تمام حدود کو عبور کرتے ہوئے کہا: ’’اللہ کے بعد سب سے بڑے لیڈر عمران خان ہیں‘‘۔ اس پر انہیں اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرنی چاہیے اور وزیر اعظم عمران خان کو ایسے دوست نما دشمنوں کی عقیدت سے پناہ مانگنی چاہیے، امت کا عقیدہ وہی ہے جو اکابرِ امت نے ہمیشہ سے ہمیں تعلیم فرمایا ہے، سیدنا حسّان بن ثابت نے فرمایا:
وَاَحْسَنَ مِنْکَ لَمْ تَرَ قَطُّ عَیْنِیْ
وَاَجْمَلَ مِنْکَ لَمْ تَلِدِ النِّسَاءُ
خُلِقْتَ مُبَرَّ أً مِّنْ کُلِّ عَیْبٍ
کَاَنَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَآءُ
ترجمہ: ’’(یارسو ل اللہ!) آپ سے حسین تر میری آنکھ نے کبھی دیکھا نہیں، آپ سے زیادہ حسین کسی ماں نے جنا نہیں، آپ کو ہر عیب سے پاک پیدا کیا گیا ہے، گویا آپ کو ایسا ہی بنایا گیا جیساکہ آپ نے چاہا‘‘، شیخ سعدی نے کہا ہے:
یَا صَاحِبَ الْجَمَالِ وَیَا سَیِّدَ الْبَشَر
مِنْ وَّجْہِکَ الْمُنِیْرِ لَقَدْ نُوِّرَ الْقَمَر
لَا یُمْکِنُ الثَّنَاءُ کَمَا کَانَ حَقُّہٗ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
ترجمہ: ’’اے صاحبِ جمال اور اے عالمِ انسانیت کے سردار! آپ کے رُخِ انور کی تابانی سے چاند کو روشن کیا گیا ہے، جیساکہ تعریف کا حق ہے، آپ کی ایسی تعریف بیان کرنا تو ممکن ہی نہیں، ہم مختصراً یہ کہہ سکتے ہیں: اللہ تعالیٰ کی ذات کے بعد آپ ہی کی ذات سب سے بڑی ہے‘‘۔ احمد رضا قادری نے شانِ رسالت بیان کرتے ہوئے کمال کردیا اور اس شعر پر نعت کا اختتام کیا:
لیکن رِضا نے ختم سخن اس پہ کر دیا
خالق کا بندہ خلق کا آقا کہوں تجھے
قتیل شفائی نے کہا تھا:
ہر ابتدا سے پہلے ہر انتہا کے بعد
ذاتِ نبی بلند ہے ذاتِ خدا کے بعد
دُنیا میں احترام کے قابل ہیں جتنے لوگ
میں سب کو مانتا ہوں، مگر مصطفیؐ کے بعد
ذاتِ رسالت مآب ؐ کے دور سے لے کر آج تک ہماری عقیدت کے اور بھی بے شمار بلند مَنار ہیں، سیاسی قائدین کو چاہیے کہ وہ اپنے عقیدت مندوں اور کارکنوں کی تربیت کریں کہ وہ اُن کا تقابل اپنے عہد کے سیاسی رہنماؤں سے کیا کریں، بس اتنا ہی کافی ہے، مسلمانوں کے دینی جذبات کو مجروح نہ کریں۔ سیاسی جماعتوں کے پرجوش کارکنوں سے گزارش ہے کہ دینی مقدّسات کے حوالے سے کوئی اُن کی غلطی کی نشاندہی کرے تو سرِ تسلیم خم کرلیا کریں۔ ہم سب مسلمان ہیں، ہماری خواہش تو یہ ہے کہ سیاست کے میدان میں بھی ہمارے ہاں اخلاقیات کی پاسداری کا کوئی کم از کم معیار مقرر ہو، صحیح بات کو ماننا اور نشاندہی پر اپنی غلطی سے رجوع کرنا بڑے پن کی علامت ہے۔ فیاض چوہان نے ہندو مذہب والوں کی دل شکنی کی تو انہیں وزارت سے محروم کردیا گیا، لیکن واوڈا نے مسلمانوں کی دل شکنی کی، اس کے باوجود وہ منصبِ وزارت پر براجمان ہے، اس تضاد کا سبب کیا ہے۔
اعتذار اور توبہ میں فرق ہے: ہمیں بتایا گیا کہ جنابِ فیصل واوڈا نے اینکر پرسن کی نشاندہی پر کہا: ’’مجھ سے غلطی ہوئی، میں معذرت خواہ ہوں‘‘۔ قارئین کی آگہی کے لیے عرض ہے کہ مومن کا کام اپنی غلطی پر نادم ہوکر غیر مشروط طور پر اس سے توبہ کرنا ہے، حدیث پاک میں ہے: ’’توبہ ندامت کا نام ہے‘‘، ماضی میں ہم توبہ پر تفصیل سے لکھ چکے ہیں۔ اعتذار اور معذرت کے معنی ہیں: ’’اپنی غلطی کا عذر پیش کرنا، اسے کسی درجے میں درست قرار دینا، قرآنِ کریم میں ہے: ابلیس نے ازراہِ تکبر آدم ؑ کو سجدہ کرنے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کو ماننے سے انکار کردیا اور پھر جب اس سے جواب طلبی ہوئی، تو اس نے غیر مشروط طور پر اپنی غلطی پر نادم ہونے کے بجائے اس کا جواز پیش کیا، یہاں تفصیل کا موقع نہیں ہے۔ اسی طرح قرآنِ کریم میں اُن منافقین کا ذکر ہے، جنہوں نے غزوۂ تبوک میں کسی عذر کے بغیر شرکت نہ کی، اللہ تبارک وتعالیٰ نے مسلمانوں کو سرخرو فرمایا اور رسول اللہؐ کو بتادیا کہ آپ کی واپسی پر منافقین طرح طرح کے عذر پیش کریں گے، اعتذار کریں گے، جس کو تفصیل جاننی ہو، وہ گیارہویں پارے کی ابتدائی آیات اور اُن کی مختصر تفسیر پڑھ لیں۔ یہ کلمات عام مسلمانوں کی آگہی کے لیے لکھ رہا ہوں، کیوں کہ ہم سب خطا کے پتلے ہیں اور غلطی کسی سے بھی ہوسکتی ہے، نبی کریمؐ کا فرمان ہے:
’’بہترین خطاکار اپنے خطاؤں پر توبہ کرنے والے ہیں‘‘۔ یہ سطور تعلیمی مقاصد کے لیے ہیں۔
پاکستان کی ناکام خارجہ پالیسی:حالیہ بحران میں دشمن کی مہربانی سے قوم متحد ہوگئی، سیاسی جماعتوں نے بھی قومی مفادکی خاطر شخصی اور گروہی اختلافات کو پسِ پشت ڈال دیا، حُبُّ الوطنی کا تقاضا بھی یہی تھاکہ وہ ایسا ہی کرتے۔ پاکستان کی مسلّح افواج بھی پیشہ ورانہ اہلیت کے معیار پر پورا اتریں، قوم کو جرأت وعزیمت کا بھرپور پیغام دیا، پاکستانی فضائیہ اور بحریہ نے بھی اپنی پیشہ ورانہ برتری کا لوہا منوایا۔ لیکن بصد ادب گزارش ہے کہ خارجہ پالیسی کے میدان میں ہم اس سطح کی کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہے۔
او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا چھیالیسواں اجلاس اسی موقع پر منعقد ہوا، لیکن وائے ناکامی کہ اس میں ہم ہی نہ تھے، بلکہ پہلی باراس تنظیم میں بھارت کو نفوذ کا موقع ملا اور اُن کے وزیرِ خارجہ نے اپنے انداز میں اپنا موقف پیش کیا۔ پھر کانفرنس اعلامیے کے اصل متن میں کشمیر کا ذکر تک نہ آیا، جارح اور جارحیت کے شکار ملک کو برابر کا درجہ دیتے ہوئے کہا گیا: ’’دونوں ممالک باہمی مذاکرات کے ذریعے اپنے مسائل حل کریں‘‘ اور ایک طرح سے رکن ممالک پاکستان کی واضح حمایت سے کترا گئے۔ اعلامیے پر عرب لیگ کی چھاپ نظر آتی ہے، اگرچہ بعد میں ایک ضمنی بیان میں کشمیر کا ذکر کیا گیا اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر مظالم روکنے کے لیے کہا گیا ہے۔ بھارت سارک تنظیم کو پہلے ہی اپنے زیرِ نگیں کرچکا ہے اور اُسے پاکستان کو بین الاقوامی سیاست میں یکّہ وتنہا کرنے کے لیے ایک عرصے سے استعمال کر رہا ہے۔ امریکا، فرانس اور یورپین یونین نے بھی بھارت کے موقف کو درست قرار دیا، چین اور برطانیہ وغیرہ نے بین بین موقف اختیار کیا، روس نے مصالحت کی پیش کش کی، مگر بھارت نے اُسے رد کردیا۔
چند دن پہلے ہم سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی قیادت کے آگے بچھے جارہے تھے، معمول اور روایت سے ہٹ کر پروٹوکول کو ہائی پروفائل سطح پر لے گئے، لیکن ہمیں اس کا صلہ صرف مالی تعاون کی صورت میں ملا، سیاسی وسفارتی محاذ پر ہم اُن کی واضح حمایت سے محروم رہے، عالمی میڈیا نے بھی اس قضیے کو غیر معمولی اہمیت نہ دی، سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر کافی تردُّد کے بعد پاکستان کے دورے پر آئے، لیکن ابتدائی پروگرام کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان مکالمے کا سلسلہ شروع نہ کراسکے۔ حکومت کی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق کے سربراہ چودھری شجاعت حسین کا تبصرہ برمحل ہے: ’’کسی دوست ملک نے ساتھ نہیں دیا، اب واویلا فضول ہے‘‘۔ یعنی انہوں نے اسے سفارتی ناکامی سے تعبیر کیا۔ پھر چودھری صاحب نے اپنے اس بیان کے بَدرِقَہ یعنی Antidote کے طور پر عمران خان کی ذاتی تعریف بھی کردی تاکہ حساب کتاب برابر ہوجائے۔ کسی بیماری کے علاج کے لیے جب ڈاکٹر کوئی دوا تجویز کرتا ہے اور وہ دہرے اثرات کی حامل ہوتی ہے، یعنی لاحق مرض کا ازالہ توکرتی ہے، مگر ساتھ کچھ اور مسائل بھی پیدا کردیتی ہے، اسے Side effect کہتے ہیں، پھر اس کے ازالے کے لیے جو دوا دیتے ہیں، اُسے میڈیسن کی زبان میں Antidote اور قدیم طبی اصطلاح میں ’’بَدرِقَہ‘‘ کہا جاتا تھا۔ 1969میں مراکش میں او آئی سی کی میٹنگ میں جب بھارت کے نمائندے کو بلایا گیا، تو اس وقت کے صدر یحییٰ خان نے اس پر احتجاج کیا اور بائیکاٹ کی دھمکی دی، آخرِ کار انہیں بھارت کو کانفرنس سے الگ کرنا پڑا۔ لیکن اب انڈیا کو آؤٹ کرنے کے بجائے ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بطورِ احتجاج کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کو ترجیح دی۔
مگر ہم ہمیشہ جلدی کردیتے ہیں، بہت سی باتیں جو ہمیں اپنے حریف کے ساتھ مکالمے میں کرنی ہوں، وہ ہم پہلے ہی طشتری میں رکھ کر اُسے پیش کردیتے ہیں اور پھر مکالمے کے وقت ہمارے پاس ’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘ کے لیے توازن قائم کرنے کا ٹرمپ کارڈ نہیں ہوتا۔ سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے بغیر کسی مکالمے اور مطالبے کے ہندوستان کو پیش کش کردی تھی کہ کشمیر کے پانچ حصے ہیں: پاکستان کے پاس گلگت بلتستان و آزاد کشمیر اور بھارت کے پاس جموں اور وادی لِیہ اور وادی سری نگر۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر پاکستان کے پاس ہی رہیں اور جموں ولِیہ لداخ بھارت کے پاس رہیں اور ’’وادی سری نگر‘‘ پر مکالمہ ہوجائے۔ یہ دراصل پوری ریاست جموں و کشمیر سے دست برداری کا یکطرفہ اعلان تھا۔ اسی طرح ہم نے نوجوت سنگھ سدھو کو کرتارپور راہداری کا تحفہ طشتری میں رکھ کر دے دیا، حالاں کہ اس طرح کے معاملات کسی فرد کے ساتھ نہیں، بلکہ دو ریاستوں کے درمیان طے پاتے ہیں اور اپنے حریف کو کوئی رعایت دیتے وقت صلے میں کوئی رعایت حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اب جاکر بھارت ریاستی سطح پر سنجیدگی سے کرتارپور راہداری پر آمادہ ہوا ہے، تو اس کی عملی تعبیر کے کچھ آثار نظر آنا شروع ہوئے ہیں، اگرچہ وہ اب بھی ہماری طرح عجلت میں نہیں ہیں۔ بھارتی پائلٹ کو بھی ہم نے یکطرفہ طور پر واپس کردیا، اُسے واپس تو کرنا ہی تھا، لیکن اس پر بھی کوئی سودے بازی ہوسکتی تھی، ہمارے کئی لوگ بھارت کی جیلوں میں ہیں۔ سو جس چیز کو ہم نے ہائی پروفائل لیا، بھارت نے اُسے انتہائی لو پروفائل رکھا۔ اسے وزیرِ اعظم عمران خان کی طرف سے خیر سگالی کی علامت کے طور پر پیش کیا جارہا ہے اور کافی حد تک یہ درست ہے، امریکی وزیر خارجہ نے بھی اپنی پسِ پردہ مساعی کا ذکر کیا ہے۔ لیکن جس دشمن سے ہمارا واسطہ ہے وہ ہمارے بارے میں اَقدار وروایات کا قائل ہی نہیں ہے، پنجابی محاورے میں اسے ’’سنڈا چوہنا‘‘ کہتے ہیں۔ او آئی سی کے بانیان میں سرِ فہرست ہم تھے، لیکن موجودہ کانفرنس میں ہم بے اثر رہے، بھارت ’’اِن‘‘ ہوگیا اور اب متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ عبداللہ بن زید نے اُسے مستقل رکن بنانے کا عندیہ دیا ہے۔