بنگلادیش سے مقبوضہ کشمیر تک

359

جماعت اسلامی احیائے اسلام کی عالمی تحریک ہے جو پوری دُنیا میں مختلف ناموں سے کام کررہی ہے، البتہ برصغیر جنوبی ایشیا میں وہ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے تجویز کردہ نام ہی سے معروف ہے جو جماعت اسلامی کے بانی بھی تھے اور اس کے پہلے امیر بھی۔ جب برصغیر کی تقسیم عمل میں آئی اور بھارت و پاکستان کے نام سے دو نئے ملک دُنیا کے نقشے پر اُبھرے تو جماعت اسلامی کے نام سے ان دونوں ملکوں میں الگ الگ نظم قائم ہوگیا۔ مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور انہوں نے جماعت اسلامی پاکستان کی قیادت سنبھال لی۔ پاکستان 1971ء تک دو حصوں پر مشتمل تھا پھر بنگلادیش کی تحریک کے نتیجے میں اس کا مشرقی حصہ بنگلادیش بن گیا تو وہاں جماعت اسلامی کا الگ نظم وجود میں آگیا۔ اسی طرح ریاست جموں و کشمیر کو برطانوی ہند میں ایک الگ ریاست کی حیثیت حاصل تھی اس لیے وہاں بھی جماعت اسلامی کی الگ تنظیم کام کررہی تھی۔ بنگلادیش اور اب مقبوضہ کشمیر میں جماعت اسلامی کو جس ابتلا کا سامنا ہے اس کا پس منظر یہ ہے کہ اِن دونوں خطوں پر ایک ہی شیطانی قوت یعنی بھارت کی عملداری ہے اور وہ ان دونوں خطوں میں احیائے اسلام کی تحریک کا گلا گھونٹنا چاہتا ہے۔ بنگلادیش بنتے ہی جماعت اسلامی نے اس ملک کے ساتھ اپنی وفاداری کا اظہار کرکے ایک مضبوط سیاسی و مذہبی قوت کی حیثیت سے اپنا کام شروع کردیا تھا۔ وہ بنگلادیش کو ایک مستحکم اسلامی جمہوری ملک کی حیثیت سے ترقی دینا چاہتی تھی اس نے فوجی آمریت کے دور میں عوامی لیگ کے ساتھ مل کر جمہوریت کی بحالی کے لیے بھی کام کیا لیکن جب عوامی لیگ حسینہ واجد کی قیادت میں دوسری بار برسراقتدار آئی تو بھارت نے اسے باور کرایا کہ یہ لوگ بنگلادیش کو دوسرا پاکستان بنانا چاہتے ہیں۔ یہی لوگ شیخ مجیب کے قتل میں بھی ملوث ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو آخر وقت تک پاکستان کی حمایت میں ڈٹے رہے اور انہوں نے بنگلادیش کے قیام کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ بھارت کا اصرار تھا کہ اگر بنگلادیش میں جماعت اسلامی کو کام کرنے دیا گیا تو یہ اِس ملک سے سیکولرازم کی چھاپ کھرچ کر اسے ایک اسلامی ملک بنادے گی جو ہمیں کسی صورت بھی منظور نہیں۔ حسینہ واجد کو بتایا گیا کہ عوامی لیگ اور خود اس کی سیاسی بقا اس میں ہے کہ جماعت اسلامی کا مکمل طور پر صفایا کردیا جائے۔ چناں چہ اس بریفنگ کے بعد ’’را‘‘ نے جماعت اسلامی کو ختم کرنے کا بلیو پرنٹ حسینہ واجد کے حوالے کردیا جس پر وہ پوری دلجمعی سے عمل کررہی ہے۔ جماعت اسلامی کی پوری قیادت کو بنگلادیش سے غداری اور پاکستان سے وفاداری کے الزام میں پھانسی دے دی گئی ہے۔ جماعت کے ان لوگوں کو بھی پھانسی چڑھا دیا گیا ہے جو بنگلادیش کے قیام کے وقت زیر تعلیم تھے اور سیاست سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ جماعت کا سارا لٹریچر ضبط کرلیا گیا ہے اور جماعت اسلامی مذہبی یا سیاسی کسی حیثیت میں بھی بنگلادیش میں کام نہیں کرسکتی، اس کی طلبہ تنظیم پر بھی ایسی ہی پابندی لگادی گئی ہے۔ جماعت کے ہزاروں کارکن اس وقت جیل میں ہیں اور ان کے ساتھ انسانیت سوز سلوک ہورہا ہے۔ ’’یہ کارنامہ‘‘ انجام دینے پر بھارت نے حسینہ واجد کو تاحیات اقتدار کی ضمانت دے دی ہے اور ملک میں یک جماعتی نظام کو مستحکم بنادیا ہے۔ اس طرح بھارت کی دانست میں بنگلادیش کے ایک اسلامی جمہوری ملک بننے کا خطرہ ہمیشہ کے لیے ٹل گیا ہے۔
اب ہم مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال کا جائزہ لیتے ہیں جہاں بھارت نے حال ہی میں جماعت اسلامی کے خلاف کریک ڈاؤن کیا ہے۔ اس نے جماعت اسلامی پر پابندی لگادی ہے اس کے قائدین سمیت سیکڑوں کارکن گرفتار کرلیے ہیں۔ جماعت کے زیر اہتمام چلنے والے تمام دینی مدارس اور اسکول بند کردیے ہیں اور پوری مقبوضہ ریاست میں جماعت کے خلاف کریک ڈاؤن کا یہ سلسلہ بدستور جاری ہے جس کے خلاف عوامی سطح پر احتجاج بھی ہورہا ہے اور جماعت اسلامی کے مخالف کشمیری رہنما بھی بھارت کے اس ظالمانہ اقدام کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔ واضح رہے کہ جماعت اسلامی کی قیادت کو ریاست جموں و کشمیر پر بھارتی قبضے کے بعد ممکنہ صورتِ حال کا کسی حد تک اندازہ تھا اس لیے اُس نے پوری دور اندیشی سے اپنی حکمت عملی مرتب کی اور ہمیشہ مروّجہ قانون کی پابندی کو اپنا شعار بنایا۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے جماعت اسلامی کا موقف تو وہی تھا جو پوری کشمیری قوم کا تھا یعنی کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت استصواب رائے کا حق دیا جائے لیکن اس نے اس مطالبے کی حمایت میں کبھی جارحانہ رویہ اختیار نہیں کیا اور ہمیشہ لو پروفائل میں رہ کر کام کرتی رہی، اس کی ساری توجہ نئی نسل کی تعلیم و تربیت پر تھی، اس نے مقبوضہ ریاست میں اسلامی ماحول برقرار رکھنے کی پوری کوشش کی۔ افغانستان سے روس کی پسپائی کے بعد جب مقبوضہ کشمیر میں عسکریت کا آغاز ہوا تو جماعت اسلامی نے بطور پالیسی خود کو اس سے الگ رکھا۔ سید علی گیلانی جماعت اسلامی کے ممتاز لیڈر تھے لیکن جب انہوں نے عسکریت کی تائید کی تو انہیں جماعت کے نظم سے الگ کردیا گیا اور انہوں نے حریت کانفرنس کے نام سے عسکریت کا سیاسی محاذ سنبھال لیا۔ واقعہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے مقبوضہ علاقے میں خود کو بھارت کے غیظ و غضب سے بچانے اور اپنا قانونی وجود برقرار رکھنے کے لیے ہر ممکن احتیاط برتی لیکن بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ نے مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتِ حال پر اپنی حکومت کو جو رپورٹ پیش کی ہے اس میں جماعت اسلامی ہی کو ’’فساد کی جڑ‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ ’’را‘‘ کا کہنا ہے کہ یہ جماعت اسلامی ہی ہے جو اپنے زیر انتظام تعلیمی اداروں میں نوجوانوں کے اندر بھارت کے خلاف جہاد کی لَو بھڑکا رہی ہے۔ کشمیری نوجوانوں کی سب سے بڑی جہادی تنظیم ’’حزب المجاہدین‘‘ کا تعلق بھی جماعت اسلامی سے ہے اور جماعت اسلامی کے لیڈر سید علی گیلانی حریت کانفرنس کے ذریعے مجاہدین کی سرپرستی کررہے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جماعت اسلامی پر پابندی اور اس کے تعلیمی اداروں کو بند کیے بغیر ہم ریاست جموں و کشمیر پر اپنا قبضہ برقرار نہیں رکھ سکتے۔ چناں چہ اس رپورٹ کی روشنی میں قابض انتظامیہ نے جماعت اسلامی کے خلاف فیصلہ کن قدم اُٹھایا ہے۔ بلاشبہ بھارت کو بنگلادیش کی طرح مقبوضہ کشمیر میں بھی شدید ردعمل کا سامنا ہے۔ بنگلادیش میں تو حسینہ واجد کی حکومت نے بڑی حد تک حالات پر قابو پالیا ہے لیکن شاید مقبوضہ کشمیر میں یہ ممکن نہ ہوسکے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہاں فی الحال گورنر راج ہے اور گورنر راج براہ راست مرکزی حکومت کے ماتحت ہوتا ہے۔ مرکز میں اس وقت نریندر مودی کی حکومت ہے جس کے خلاف پہلے ہی کشمیری مسلمانوں میں شدید نفرت کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ کشمیری عوام پہلے ہی بھارت کے خلاف آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان کا ہر گھر اس جنگ میں مورچہ بنا ہوا ہے، ایسے میں جماعت اسلامی پر پابندی نے کشمیری عوام کے جذبات کو مزید بھڑکا دیا ہے اور وہ سراپا احتجاج بن گئے ہیں۔ یہ احتجاج ختم ہونے والا نہیں، جب تک آزادی کی جنگ جاری ہے احتجاج بھی جاری رہے گا، آزادی کی جنگ بجائے خود احتجاج کا روپ دھار لے گی۔